بحری جہازوں کو اٹھاکر سمندر پار کروانے کی دلچسپ کہانی

image

لاکھوں ٹن وزنی جہاز ایک چیمبر میں داخل ہوتا ہے، پھر اس چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھائی جاتی یہاں تک کہ یہ اپنے سے زیادہ بلندی پر موجود دوسرے چیمبر کے برابر پہنچ جاتا ہے۔جس کے بعد دوسرے چیمبر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور جہاز اگلے چیمبر میں داخل ہو جاتا ہے۔

جہاز کو لفٹ کی طرح اٹھانے کے مناظر سننے اور دیکھنے میں جھوٹی کہانی یا افسانے جیسا لگتے ہیں  لیکن یہ مناظر کوئی کمپیوٹر کا کمال نہیں بلکہ بالکل حقیقت ہے۔یہ کہانی ہے نہر پانامہ کی جہاں سے جس پر سالانہ اربوں ڈالر کی تجارت کا انحصار ہے اور جس کو بنانے کیلئے کسی جنگ سے زیادہ لوگوں نے قربانی دی۔

اگر آپ کو یاد ہو تو 2021 میں نہر سوئز میں ایک بحری جہاز پھنسنے کی وجہ سے یہ نہر بند ہوگئی تھی ۔۔جس کی وجہ سے جہاز رانی کی کمپنیوں کو اپنے بحری جہازوں کا راستہ تبدیل کرنا پڑا اور عالمی سطح پر سامان کی آمد و رفت میں تاخیر آئی ہے۔

پانامہ نہر سے پہلے آپ کو نہر سوئز کے بارے میں بتاتے چلیں کہ نہر سوئز مصر کی ایک سمندری گذرگاہ ہے جو بحیرہ روم کو بحیرہ قلزم سے ملاتی ہے۔ اس کے بحیرہ روم کے کنارے پر پورٹ سعید اور بحیرہ قلزم کے کنارے پر سوئز شہر موجود ہے۔ یہ نہر 163 کلومیٹر (101 میل) طویل اور کم از کم 300 میٹر چوڑی ہے۔

اس نہر کی بدولت بحری جہاز افریقا کے گرد چکر لگائے بغیر یورپ اور ایشیا کے درمیان آمدورفت کرسکتے ہیں۔ 1869ء میں نہر کی تعمیر سے قبل اس علاقے سے بحری جہاز ایک جانب سامان اتارتے تھے اور بحیرہ قلزم تک اسے بذریعہ سڑک لے جایا جاتا تھا۔ 1869ء میں اس نہر کے کُھل جانے سے انگلینڈ سے ہندوستان کا بحری فاصلہ 4000 میل کم ہو گیا۔

اب آپ کو نہر سوئز کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا۔۔ تو چلیں اب آپ کو نہر پانامہ کے بارے میں بتاتے ہیں جہاں جہازوں کو درجنوں میٹر اٹھاکر دوسری طرف پہنچایا جاتا ہے۔

پانامہ نہر وسطی امریکہ کے ملک پاناما میں واقع ہے جس کے ذریعے بحری جہاز بحر اوقیانوس اور بحر الکاہل کے درمیان سفر کر سکتے ہیں۔ اس نہر کی تیاری انجینئرنگ کے منصوبہ جات کی تاریخ کا سب سے بڑا اور مشکل ترین منصوبہ تھا۔

اس کی تعمیر سے علاقے میں جہاز رانی پر انتہائی مثبت اثرات مرتب ہوئے کیونکہ اس سے قبل جہاز براعظم جنوبی امریکا کے گرد چکر لگا کر راس ہارن (Cape Horn) سے بحر الکاہل میں داخل ہوتے تھے۔

اس طرح نیویارک سے سان فرانسسکو کے درمیان بحری فاصلہ 9 ہزار 500 کلومیٹر (6 ہزار میل) ہو گیا جو راس ہارن کے گرد چکر لگانے پر 22 ہزار 500 کلومیٹر (14 ہزار میل) تھا۔

اس جگہ نہر کی تعمیر کا منصوبہ 16 ویں صدی میں سامنے آیا تاہم اس پر تعمیر کا آغاز فرانس کی زیر قیادت 1880ء میں شروع ہوا۔ اس کوشش کی ناکامی کے بعد اس پر امریکہ نے کام مکمل کیا اور 1914ء میں اس نہر کو کھول دیا گیا۔

اب اگر دونوں نہروں کا موازنہ کریں تو نہر سوئز جن دو سمندروں کو آپس میں ملاتی ہے اُن میں پانی کی سطح تقریباً برابر ہے، اس لیے یہاں سے گزرنے کے لیے بحری جہازوں کو صرف اس میں داخل ہونا ہوتا ہے۔ پانامہ نہر کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔

پانامہ نہر دنیا کے اہم ترین بحری راستوں میں سے ایک ہے جہاں سے ہر سال 14 ہزار سے زائد بحری جہاز گذرتے ہیں جن پر 203 ملین ٹن سے زیادہ سامان لدا ہوتا ہے۔ اس نہر سے گذرنے کا دورانیہ تقریبا 9 گھنٹے ہے۔

پانامہ نہر کی تعمیر کے لیے مطلوبہ کھدائی کو کم رکھنے کے لیے ایک مصنوعی جھیل بنائی گئی ہے جو سطحِ سمندر سے 85 فٹ بلند ہے۔جب بھی کوئی بحری جہاز نہرِ پانامہ کو پار کرنا چاہتا ہے تو جہاز سب سے پہلے لاک کہلانے والے ایک چیمبر میں داخل ہوتا ہے۔

پھر اس چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے یہاں تک کہ یہ اپنے سے زیادہ بلندی پر موجود دوسرے چیمبر کے برابر پہنچ جاتا ہے۔ اس موقع پر جہاز کے لیے دوسرے چیمبر کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور یہ اگلے چیمبر میں داخل ہو جاتا ہے۔

اس کے بعد اگلے چیمبر میں پانی کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور پھر یہ بحری جہاز 85 فٹ بلند گتون جھیل میں داخل ہو جاتا ہے۔پانی کی سطح بڑھنے کے بعد جہاز اس جھیل کو پار کرتا ہے اور دوسری جانب موجود لاکس تک پہنچتا ہے جہاں اسے چیمبر میں داخل کر کے پانی کی مقدار کم کی جاتی ہے۔

تین مرحلوں پر مشتمل اس اترائی کے عمل سے گزرنے کے بعد جہاز دوسری جانب موجود سمندر کی سطح کے برابر پہنچ جاتا ہے۔اس کے لاکس کی تیاری میں چار سال کا عرصہ لگا اور انسانی تاریخ میں تب تک اس سے زیادہ کنکریٹ کسی بھی منصوبے میں استعمال نہیں ہوا تھا۔سات جنوری 1914 وہ دن تھا جب پہلی مرتبہ کسی بحری جہاز نے پانامہ نہر کو عبور کیا۔

دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پانامہ نہر کی تعمیر میں 27 ہزار سے زیادہ لوگوں کی جانیں گئیں جن میں سے 22 ہزار کے قریب افراد فرانسیسی دورِ تعمیر میں ہلاک ہوئے۔

مالی سال 2020 میں پانامہ نہر کو چھوٹے بڑے 13 ہزار 369 جہازوں اور کشتیوں نے عبور کیا جس میں سے 12 ہزار 245 وہ تجارتی جہاز تھے جو ایک سمندر سے دوسرے سمندر تک جا رہے تھے۔2020میں پانامہ نہر کو ٹول ٹیکس کی مد میں 2اعشاریہ 67 ارب ڈالر کی کمائی حاصل ہوئی۔


About the Author:

Arooj Bhatti is a versatile content creator with a passion for storytelling and a talent for capturing the human experience. With a several years of experience in news media, he has a strong foundation in visual storytelling, audio production, and written content.

عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts