رعنا بتاتی ہیں کہ وہ گھر پر ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں اور یہ وہ وقت تھا جب وہ سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں، آس پڑوس سے ان کے گھر آنے والی خواتین نے انھیں مشورہ دیا کہ ’آپ کو الیکشن لڑنا چاہیے۔‘
پاکستان کے صوبہ سندھ کی اسمبلی میں پہلی خاتون ’قائد حزب اختلاف‘ کو منتخب کر لیا گیا ہے جس کے بعد صوبے کی تاریخ میں وہ تاریخی لمحہ ٹی وی چینلز پر نشر ہوا جس میں سپیکر سندھ اسمبلی آغا سراج درانی نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے تعلق رکھنے والی رکن اسمبلی اور قائد حزب اختلاف کو اسمبلی میں مخصوص نشست پر بیٹھنے کا کہا۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے کہا ہے کہ سندھ میں پہلی بار ایک خاتون رکن اسمبلی کا قائد حزب اختلاف منتخب ہونا کسی ’انقلاب‘ سے کم نہیں، ایم کیو ایم نے ایک بار پھر تاریخ رقم کرکے ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک روایت شکن سیاسی جماعت ہے۔
ٹیوشن ٹیچر سے اپوزیشن لیڈر کا سفر
سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف رعنا انصار نے اپنے سیاسی کریئر کا آغاز یونین کونسل کی سطح کی سیاست سے کیا اور سیاست کی گلیوں میں 23 برس گزارنے کے بعد وہ اس منصب تک پہنچنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔
رعنا انصار اُن بہت سے خواتین میں سے ہیں جو سابقہ فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے متعارف کرائے گئے بلدیاتی نظام کے ذریعے سیاست میں آئیں۔
رعنا کا تعلق سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد سے ہے اور ان کا خاندان تقسیم ہند کے موقع پر اس شہر میں آ کر بسا تھا۔ ان کا خاندان خواتین کی چوڑیاں بنانے کے کام سے منسلک تھا اور بقول رعنا صدیقی انھوں نے بھی گھر پر یہ کام کیا ہے۔
رعنا نے بتایا کہ شیسے کو پگھلا کر کارخانے میں چوڑیاں تیار کی جاتی ہیں جبکہ ان کے درمیان جوڑ عموماً گھروں میں خواتین لگاتی ہیں۔ چوڑیوں میں یہ ٹانکاکیروسین آئل اور گیس کی تپش کی مدد سے لگایا جاتا ہے۔
اپنی ابتدائی زندگی کے بارے میں رعنا بتاتی ہیں کہ وہ گھر پر ٹیوشن بھی پڑھاتی تھیں اور یہ وہ وقت تھا جب وہ سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتی تھیں۔
وہ کہتی ہیں کہ آس پڑوس سے ان کے گھر آنے والی خواتین نے انھیں مشورہ دیا کہ ’آپ کو الیکشن لڑنا چاہیے۔ لیکن میں فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی۔ بلآخر کاغذات نامزدگی جمع کروانے کا آخری دن آ گیا اور میں نے جا کر یونین کونسل کی عام نشست پر فارم جمع کروایا۔‘
’مجھے تانگہ انتخابی نشان ملا۔ انتخابی مہم کی غرض سے ہم نے شہر بھر سے تانگے جمع کیے اور خواتین کی اس پر ریلی نکالی۔ یہی وہ موقع تھا جب میں نے پہلی بار تقریر کی۔ اُن دنوں ہمارے علاقے میں ڈسپنسری اور لڑکیوں کے سکول کے مسائل تھے، تو میں نے انھیں ہی اپنے انتخابی ایجنڈے میں سرفہرست رکھا۔‘
رعنا انصار کے مطابق چونکہ وہ مخصوص نشست کے بجائے عام نشست سے الیکشن لڑ رہی تھیں اسے لیے مردوں کو بھی ووٹ دینا تھا۔ اب یہ سوچ کہ وہ ووٹ دیں گے یا نہیں۔ الیکشن والے روز میری حمایتی خواتین نے پنک کپڑے پہنے اور جب نتیجہ آیا تو مجھے سب سے زیادہ ووٹ ملے۔‘
رعنا صدیقی یونین کونسل کی رکن بنیں جس کے بعد انھوں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اس ابتدائی کامیابی کے بعد آئندہ آنے والے انتخابات میں وہ حیدرآباد میونسپل اور بالاخر ضلع کونسل کی رکن منتخب ہوئیں۔ پہلے وہ غیر جماعتی بنیاد پر رکن بنیں، اور بعدازاں انھوں نے متحدہ قومی موومنٹ میں شمولیت اختیار کر لی۔
رعنا انصار کے شوہر انصار نقوی صحافی تھے۔ ان دنوں وہ حیدرآباد میں صحافت کرتے تھے تاہم بعد میں وہ کراچی منتقل ہو گئے اور 2020 میں کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کو پیش آنے والے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔
رعنا صدیقی کے مطابق انھیں تو صرف کباب بنانا اور بریانی بنانا آتی تھی مگر اُن کے شوہر نے ہر قدم ان کی ہمت افزائی کی اور انھیں آئین پاکستان اور بلدیاتی نظام پڑھایا بالکل ویسے ہی جیسے ٹیوشن پڑھائی جاتی ہے۔
سنہ 2013 کے عام انتخابات میں رعنا متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکٹ پر خواتین کی مخصوص نشست پر کامیاب ہوئیں اس کے بعد 2018 کے انتخابات میں بھی انھوں نے یہ نشست حاصل کی۔
رعنا انصار کہتی ہیں کہ انھوں نے اس ایوان کو باہر سے دیکھا تھا، اُن کے تو نہ والدین اور نہ اور کوئی بڑی سیاسی فیملی تھی، پارٹی نے انھیں یہ اعزاز دے کر یہاں پہنچایا۔
سینیئر اراکین کی موجودگی میں نامزدگی
رعنا کو پہلے ایم کیو یم نے اپنا پارلیمانی لیڈر نامزد کیا جس کے بعد انھیں اپوزیشن لیڈر کے طور پر امیدور بنایا گیا۔ دھیما مزاج رکھنے والی رعنا انصار کی نامزدگی بہت سوں کے لیے حیران کن فیصلہ تھا۔
اسمبلی میں اس وقت ایم کیو ایم کے سیینئر رکن محمد حسین اور خواجہ اظہار بھی موجود ہیں۔ خواجہ اظہار 2013 میں اپوزیشن لیڈر رہے چکے ہیں۔ سپیکر سندھ اسمبلی نے انھیں مخاطب ہو کر کہا تھا کہ اُن کی خواہش ہے کہ وہ قائد حزب اختلاف بنیں جس کے لیے وہ پارٹی سے بات کریں۔
ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ پارٹی میں اس حوالے سے کوئی اختلاف رائے موجود نہیں ہے اور خواجہ اظہار اور محمد حسین کی مشاورت سے ہی رعنا انصار کو اس عہدے کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
سیینئر تجزیہ نگار مظہر عباس اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ اُن کا کہنا ہے بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ پارٹی میں اختلاف رائے موجود ہے جس کی وجہ سے رعنا انصار کے نام پر اتفاق کیا گیا ہے۔
’تحریک انصاف کو باہر رکھنا تھا‘
ایم کیو ایم 2018 کے انتخابات کے بعد سندھ اسمبلی میں سیٹوں کے حساب سے تیسرے نمبر پر چلی گئی تھی۔ چنانچہ اب ڈیمو کریٹک الائنس اور تحریک انصاف کے منحرف اراکین کی مدد سے ایم کیو ایم نے قائد حزب اختلاف کی نشست حاصل کر لی ہے۔
ایم کیو ایم کے سیینئر رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم کے 20، جی ڈی اے کے 10 اور تحریک انصاف کے 9 اراکین کی مدد سے رعنا انصار قائد حزب احتلاف بنی ہیں۔ بقول اُن کے تحریک انصاف کے اراکین نے کہا کہ وہ ایم کیو ایم میں تو شامل نہیں ہوں گے لیکن ایم کیو ایم کی نامزد کردہ رعنا کی حمایت کریں گے۔
ڈاکٹر فاروق ستار کہتے ہیں کہ انھیں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے اس ضمن میں کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ ’وہ تو چاہتے تھے کہ ہم نہ بنیں، یہ ہم نے اپنی محنت سے نشست حاصل کی۔‘
’حکومت اور اپوزیشن ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں جس میں سے ایک پہیہ پنکچر تھا۔ قائد حزب احتلاف اور اراکین اسمبلی نہیں آ رہے تھے تو کسی نے کسی نے تو یہ کردار ادا کرنا تھا۔ آئینی تقاضہ ہے، نگران سیٹ اپ میں مشاورت کرنی ہے۔۔۔ وہ خلا ہم پُر کریں گے۔‘
تجزیہ نگار مظہر عباس کہتے ہیں کہ اس وقت تحریک انصاف تنہائی کا شکار ہے اور اس کو تنہا کرنے والی قوّتیں نہیں چاہتیں کہ ان کی مشاوت سے نگران سیٹ اپ آئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی مل کر نگران سیٹ اپ بنائیں گی اور ایم کیو ایم کو اس منصب تک پہنچانے میں پی پی پی کی سپورٹ نظر آتی ہے۔ ’اس سے ایم کیو ایم کو یہ سیاسی فائدہ ہو گا کہ وہ اپنے لوگوں کو بتا سکیں گے کہ نظام میں اس کا اثر و رسوخ موجود ہے اور انتظامی طور پر بھی اس کو کچھ مدد مل جائے گی۔‘
’وفاق میں اتحادی جماعت، صوبے میں اپوزیشن کیسے کرے گی؟‘
یاد رہے کہ سندھ اسمبلی میں تحریک انصاف کی 29 نشستیں تھیں۔ انھیں گرینڈ ڈیموکریٹس الائنس کی بھی حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ اُن کے پاس رہا اور حلیم عادل شیخ قائد حزب اختلاف تھے۔ 9 مئی کو کراچی میں ہنگامہ آرائی کے بعد سے وہ روپوش ہیں۔
انھوں نے گذشتہ دنوں کہا تھا کہ انھوں نے نگران سیٹ اپ کے لیے سپیکر کو خط لکھا دیا ہے اور اگر سپیکر نے انھیں اس سلسلے میں بلایا تو وہ ضرور حاضر ہوں گے۔
تحریک انصاف کے منحرف رکن دیوان سچانند کا کہنا تھا کہ رعنا انصار کو ووٹ دینے کا مقصد یہ تھا کہ حلیم عادل شیخ موجود نہیں ہیں۔ ’وہ لیڈر آف اپوزیشن ہیں، لیکن ہیں کہاں؟ پچھلے تین مہینے سے ہم نے ان کی شکل نہیں دیکھی۔ روز ایک لیٹر جاری کرتے ہیں، ایک ویڈیو پیغام بھیج دیتے ہیں، لیکن ہیں کہاں ،ایسے اپوزیشن لیڈر ہوتے ہیں۔‘
تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر خرم شیر زماننے ایک بیان میں کہا ہے کہ سندھ اسمبلی میں پراجیکٹ ’آؤ مل کر کھاتےہیں‘ تکمیل تک پہنچ چکا ہے، اپوزیشن لیڈر کی تبدیلیحکمران پی پی پی نے منفی ہتھکنڈوں کے تحت کی۔
خرم شیر زمان نے سوال کیا کہ ایم کیو ایم جو وفاق میں اتحادی ہے وہ صوبے سندھ میں اپوزیشن کا کردار کیسے ادا کرے گی، وہ سمجھتے ہیں کہ پی پی، ایم کیو ایم کی لائے جانی والی نگران حکومت جانبدار ہو گی۔