’ڈھائی پھٹ‘: سکھوں کی وہ جنگی حکمت عملی جس نے نادر شاہ کو پریشان کر دیا

یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں سکھ زیر عتاب تھے لیکن کچھ ہی عرصے میں وہ حکمران بنے۔

پنجابی ادب اور زبان کے ماہر کاہن سنگھ نابھہ نے پنجابی زبان کی لغت ’مہان کوش‘ میں لفظ ’نادرشاہی‘ کے معنی ’ظلم‘ اور ’جبر‘ لکھے ہیں۔

’نادرشاہی فرمان‘ حکومت کی طرف سے کیے گئے جابرانہ یا من مانے فیصلے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔ لفظ ’نادرشاہی‘ ایران کے بادشاہ نادر شاہ سے منسوب ہے جنھوں نے سنہ 1739 میں ہندوستان پر حملہ کیا اور دہلی میں اتنی لوٹ مار اور قتل و غارت کی کہ ان کا نام ایک محاورہ بن گیا۔

مصنف جیمز فریزر نے اپنی کتاب ’دی ہسٹری آف نادر شاہ‘ میں اس لوٹ مار کا تفصیلی ذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ لوٹ مار کے ذریعے حاصل کی گئی اشیا کی قیمت اُس وقت کروڑوں میں تھی۔

اس کے علاوہ نادر شاہ ایک ہزار ہاتھی، سات ہزار گھوڑے، دس ہزار اونٹ بھی اپنے ساتھ لے گئے۔ نادر شاہ کے ساتھ دہلی سے کئی مستری اور کاریگر بھی گئے۔

لیکن نادر شاہ کا حملہ جہاں ایک جانب دلی میں زوال پزیر مغلیہ سلطنت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا وہیں پنجاب میں زیرِ عتاب سکھوں کی جنگ حکمت عملی نے نادر شاہ کے واپسی کے سفر کو مشکل بنا دیا۔

نادر شاہ
Getty Images
نادر شاہ

مغلیہ سلطنت کا زوال

جب نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کیا تو مغلیہ سلطنت زوال پزیر تھی۔ اس وقت مغل شہنشاہ محمد شاہ دہلی میں تخت نشیں تھے۔

ایل لاک ہارٹ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’جب نادر شاہ 1736 میں تخت پر بیٹھے تو مغل بادشاہ محمد شاہ 17 سال سے دہلی کے تخت پر براجمان تھے۔‘

لاک ہارٹ لکھتے ہیں کہ ’اورنگ زیب کے طویل دور حکومت کے آخری برسوں میں مغل سلطنتکمزور ہونا شروع ہو گئی تھی۔ محمد شاہ نے 29 سال حکومت کی اور اس دوران انھوں نے مغلیہ سلطنت کو کمزور ہوتے تو دیکھا لیکن اپنی سلطنت کو بچانے کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘

نادر شاہ نے ہندوستان پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟

لاک ہارٹ کے مطابق نادر شاہ اور مغل سلطنت کے درمیان افغان جنگجوؤں کی وجہ سے تنازع تھا جس پر نادر شاہ نے اپنا سفیر تک مغل دربار میں بھیجا لیکن یقین دہانی کے باوجود مغل شہنشاہ محمد شاہ نے اس سلسلے میں کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔

مؤرخین نے اسے نادر شاہ کے حملے کی ایک اہم وجہ قرار دیا ہے تاہم لاک ہارٹ کے مطابق اس امکان کو بھی رد نہیں کیا جا سکتا کہ نادر شاہ کئی برسوں سے جاری فوجی کارروائیوں کی وجہ سے فنڈز کی کمی کا شکار تھااور ایسے میں نادر شاہ کی نظر ہندوستان کی دولت پر تھی۔

لاک ہارٹ نے بہت سے انڈین اور یورپی مؤرخین کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ ’بہت سے مؤرخین کا خیال ہے کہ نادر شاہ نے دکن کے وائسرائے نظام الملک اور اودھ کے صوبیدار سادات خان کی دعوت پر ہندوستان پر حملہ کیا تھا۔‘

مغل شہنشاہ محمد شاہ اور ایران کے بادشاہ نادر شاہ
Getty Images
مغل شہنشاہ محمد شاہ اور ایران کے بادشاہ نادر شاہ

دلی کی تباہی

نادر شاہ جنوری 1739 میں ہندوستان پر حملہ آور ہوئے۔ لاہور کے گورنر زکریا خان نے مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن دلی دربار کی طرف سے مدد نہ ملنے کی وجہ سے زکریا خان نے نادر شاہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔

لاک ہارٹ لکھتے ہیں کہ ’زکریا خان نے نادر شاہ کو 20 لاکھ سونا، کئی ہاتھی اور دیگر تحائف دیے۔ نادر شاہ 12 دن لاہور میں رہے اور اس وقت سے وہ خود کو انڈیا کا بادشاہ سمجھنے لگے۔‘

اس کے بعد کرنال کے مقام پر نادر شاہ کی فوج اور مغل فوج کی جھڑپ ہوئی جس میں مغل فوج کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لاک ہارٹ لکھتے ہیں کہ ’جب نادر شاہ دلی پہنچے تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انھیں مغل بادشاہ نے قید کر لیا ہے۔ ایسی افواہوں کی وجہ سے نادر شاہ کی فوج پر حملے شروع ہو گئے اور بہت سے فوجی مارے گئے۔‘

’جب نادر شاہ کو پتا چلا تو وہ دہلی کے چاندنی چوک میں سنہری گنبد والی مسجد پر چڑھ گئے اور اپنی فوج کو قتل عام کا حکم دیا۔‘

’صبح نو بجے شروع ہونے والا قتل عام اور لوٹ مار دوپہر 3 بجے اس وقت رُکی جب مغل دربار کے نمائندوں نے رحم کی درخواست کرنے کے لیے نادر شاہ سے رجوع کیا۔‘

نادر شاہ نے دہلی میں جو قتل عام کیا اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔

جیمز فازر کے مطابق نادر شاہ کے ہندوستان میں داخل ہونے سے لے کر لاہور واپسی تک ایران کے اس بادشاہ کی افواج نے تقریباً دو لاکھ افراد کو قتل کیا تھا۔

نادر شاہ کا مقبرہ
Getty Images

پنجاب کے حالات کیا تھے؟

مؤرخ ہری رام گپتا نے ’ہسٹری آف سکھ پارٹ 1‘ میں نادر شاہ کے حملے کے وقت پنجاب کے حالات کا ذکر کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’نادر شاہ تقریباً پانچ ماہ ہندوستان میں رہے۔ اس وقت پنجاب، سرہند اور ہندوستان کی دیگر ریاستوں پر حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا، صرف نام کی مغل حکومت تھی۔‘

ہری رام گپتا کا کہنا ہے کہ سکھوں نے اس وقت کی صورتحال سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’نادر شاہ مئی میں واپسی کے لیے دہلی سے روانہ ہوئے۔ اس وقت سکھ رہنماؤں نے اپنے لوگوں کو جمع کیا اور زور دیا کہ نادر شاہ کے قافلے پر حملہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔‘

بنیادی طور پر اس وقت سکھوں کی قیادت نواب کپور سنگھ کر رہے تھے اور ان کے ساتھ جسا سنگھ اہلووالیہ جیسے سکھ رہنما تھے۔

نادر شاہ نے واپسی کے لیے مئی کے مہینے میں دہلی سے نکلے اور شدید گرمی سے بچنے کے لیے نادر شاہ سرہند کے شمال میں اکھنور کے راستے سیالکوٹ کی جانب گئے۔

ڈاکٹر گنڈا سنگھ اپنی کتاب ’جسا سنگھ اہلووالیا‘ میں لکھتے ہیں ’نادر شاہ کو یہ راستہ مہنگا پڑا۔‘

یاد رہے کہ اس زمانے میں سکھ پنجاب میں زکریا خان کی کارروائیوں کی وجہ سے جنگلوں اور پہاڑی علاقوں میں چھپ گئے تھے۔

ڈاکٹر گنڈا سنگھ لکھتے ہیں کہ ’پہاڑی علاقوں نے سکھوں کے لیے نادر شاہ کی فوج سے سامان اور خزانہ واپس لینا آسان بنا دیا۔‘

’سکھوں نے چھاپے مار کر نادر شاہ کے قافلے پر کئی بار حملے کیے۔‘

سکھوں کے حملے

پروفیسر اندو بنگا نے پنجاب اور سکھ تاریخ پر بہت کام کیا ہے اور اس موضوع پر کئی کتابیں بھی لکھی ہیں۔

وہ کہتے ہیں ’پنجاب میں اس وقت حکومت نام کی ہی تھی۔ نادر شاہ کا قافلہ کافی لمبا تھا۔ سکھوں نے چھوٹے چھوٹے گروپ بنائے اور قافلے پر حملے کرنے شروع کر دیے۔‘

’نادر شاہ کا قافلہ اتنا بڑا تھا کہ پہلے تو انھیں معلوم ہی نہیں تھا کہ اس طرح کے حملے سکھ کر رہے ہیں۔ جب وہ لاہور پہنچے تو انھیں سکھوں کے حملوں کا علم ہوا۔‘

نادر شاہ اور زکریا خان کے درمیان سکھوں کے بارے میں گفتگو سے متعلق ایک واقعہ کافی مشہور ہے۔

ہری رام گپتا اور خوشونت سنگھ نے بھی اپنی کتابوں میں اس واقعہ کا ذکر کیا ہے۔

اندو بنگا لکھتی ہیں ’یہ واقعہ احمد شاہ ابدالی کی تصنیف تواریخ ہند میں درج ہے جو 19ویں صدی میں لکھی گئی تھی۔‘

یہ لکھا گیا ہے کہ نادر شاہ نے زکریا خان سے پوچھا ’یہ کون ہیں جو میرے قافلے کو لوٹ رہے ہیں؟‘ زکریا خان کا جواب تھا ’یہ ہندو فقیر ہیں۔‘

پھر نادر شاہ نے پوچھا کہ ’ان کے گھر کہاں ہیں؟‘ اس کے جواب میں زکریا خان نے کہا کہ ’ان کے گھر ان کے گھوڑوں کے پیٹھ ہے۔‘ نادر شاہ نے کہا ’پھر وہ وقت قریب ہے جب یہ اس ملک کے حکمران بن جائیں گے۔‘

سکھوں نے نادر شاہ کو کتنا نقصان پہنچایا؟

ڈاکٹر گنڈا سنگھ کے مطابق مئی کے آخری ہفتے میں سکھوں نے نادر شاہ کے قافلے پر حملہ کیا۔

لاک ہارٹ نے ذکر کیا ہے کہ ’قیمتی سامان سے لدے ہاتھیوں اور گھوڑوں کا قافلہ کافی بڑا تھا۔ واپسی پر نادر شاہ کو راستے میں ان ڈکیتیوں کی وجہ سے بہت نقصان اٹھانا پڑا۔‘

کہا جاتا ہے کہ قافلے سے تقریباً ایک ہزار ہاتھی اور گھوڑے جن پر قیمتی سامان لدا ہوا تھا لوٹے گئے تھے۔

گرومتی کالج دہلی میں پروفیسر نریندرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ اس وقت بہت سی خواتین جنھیں غلام بیایا گیا تھا انھیں بھی آزاد کیا گیا تھا۔

نریندرپال سنگھ کے مطابق ان حملوں میں تقریباً 2200 خواتین کو سکھوں نے بچایا تھا۔

اندو بنگا کے مطابق اس وقت کے کسی مؤرخ سے عورتوں کی آزادی کے حوالے سے کوئی حوالہ نہیں ملتا، لیکن بعد میں جب سکھوں کی ریاستیں قائم ہوئیں تو سکھوں کے بارے میں تاریخی حوالے لکھے گئے۔

’ ڈھائی پھٹ‘ کی پالیسی

نادر شاہ کی فوج کے مقابلے میں سکھوں کی تعداد بہت کم تھی۔ سکھ براہ راست نادر شاہ کی فوج سے لڑنے کے سکت نہیں رکھتے تھے۔

اندو بنگا کے مطابق ایسے میں سکھوں نے ’ ڈھائی پھٹ‘ جنگی پالیسی استعمال کی۔

یہ گوریلا جنگ جیسی جنگی حکمت عملی تھی جس میں حملہ اس وقت کیا جاتا جب دشمن آرام کر رہا ہوتا۔

سکھ گھڑ سوار ٹولیوں کی شکل میں نادر شاہ کی بٹی ہوئی فوج پر حملہ آور ہوتے اور اس سے پہلے کہ نادر شاہ کے فوجی جوابی کارروائی کرتے، سکھ گھڑ سوار فرار ہو جاتے۔

اندو بنگا کہتی ہیں کہ سکھوں کی اس جنگی حکمت عملی کا ذکر احمد شاہ ابدالی پر لکھی جانے والی تصنیف جنگ نامہ میں قاضی نور محمد نے کیا ہے۔

قاضی نور محمد احمد شاہ ابدالی کے ساتھ ہندوستان آئے تھے اور انھوں نے سکھوں کے جنگی طریقوں کا ذکر کرتے ہوئے سکھوں کی بہادری اور کردار کی تعریف کی۔

قاضی نور محمد نے جنگ نامہ میں لکھا کہ ’سکھوں سے بہت محتاط رہنے کی ضرورت ہوتی ہے کیوں کہ وہ کسی بھی وقت حملہ کرتے ہیں اور اچانک غائب ہو جاتے ہیں۔‘

جب سکھوں نے لاہور کو افغان تسلط سے آزاد کروایا

یاد رہے کہ یہ وہ وقت تھا جب پنجاب میں سکھ زیر عتاب تھے لیکن کچھ ہی عرصے میں وہ حکمران بنے۔

پروفیسر نریندرپال کہتے ہیں کہ 1714-1753 کے درمیان سکھوں کا سات بار قتل عام ہوا اور ریاستی سطح پر کہا جاتا تھا کہ کسی سکھ کو زندہ نہیں رہنا چاہیے۔

نادر شاہ کے بعد بھی پنجاب پر افغان حملے ہوتے رہے۔ افغان شہنشاہ احمد شاہ ابدالی نے 1748 میں پہلا حملہ کیا اور اس کے حملے 1765 تک جاری رہے۔

احمد شاہ ابدالی نے فروری 1762 میں سکھوں پر حملہ کیا اور ایک ہی دن میں تقریباً 35 ہزار سکھ مارے گئے۔

لیکن پھر اسی سال اکتوبر میں، سکھوں نے احمد شاہ ابدالی پر ایک جوابی حملہ کیا، جس سے وہ دنگ رہ گیا۔

اندو بنگا کہتی ہیں کہ ’نادر شاہ نے ہندوستان اور پنجاب پر حملہ کیا اور چلا گیا لیکن بعد میں سکھوں کا براہ راست احمد شاہ ابدالی سے مقابلہ ہوا۔‘

احمد شاہ ابدالی پنجاب کو اپنی سلطنت میں ضم کرنا چاہتا تھا اور اسی مقصد سے انھوں نے پنجاب میں تقرریاں کیں۔

سنہ 1765 میں سکھوں نے لاہور کو احمد شاہ ابدالی اور ان کے مقرر کردہ نائبین سے چھین لیا۔ اس کے بعد تمام تر کوشش کے باوجود افغان لاہور واپس نہ لے سکے۔

نریندرپال سنگھ کا کہنا ہے کہ 1765 تک سکھوں نے بہت جنگیں لڑیں جس کے بعد وہ پنجاب میں ایک مضبوط قوت بن کر ابھرے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.