کیا ہکلاہٹ پر قابو پانا ممکن ہے اور متاثرہ افراد سے بات کرتے ہوئے کن چیزوں کا خیال رکھنا چاہیے؟

کیا صرف تھیرپی پی ہکلاہٹ کا علاج ہے اور ہکلاہٹ کے شکار لوگوں کے جملے پورے کرنے سے ان پر کیا اثر پڑتا ہے؟
بچہ اور عورت
Getty Images

’میں سکول میں صبح کی حاضری سے بہت گھبراتا تھا۔ آپ ’پریزنٹ میڈم‘ یا ’یس میڈم‘ کہتے تھے۔ میں ہمیشہ ’یس میڈم‘ کہتا تھا۔ میں ہمیشہ کم بولنے کی کوشش کرتا تھا کیونکہ یہ بہتر تھا۔‘

35 سال کے ادتیا (فرضی نام) ایک سافٹ ویئر انجینیئر ہیں اور اپنی ہکلاہٹ کے مسئلے کے حل کے لیے سپیچ تھیریپسٹ کی خدمات حاصل کر رہے ہیں۔

بی بی سی کی نامہ نگار پایل بھوین سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’اگر ہم ہکلاتے ہیں تو اس میں ہمارا قصور کیا ہے؟ خدا نے ہمیں ایسا پیدا کیا۔ میرا بچپن میں بھی مذاق اڑایا جاتا تھا اور شاید یہ پوری زندگی جاری رہے گا۔‘

ایک تحقیق کے مطابق آٹھ فیصد بچے بولتے ہوئے کسی نہ کسی موقع پر ہکلاتے ہیں۔ لیکن زیادہ تر بچوں میں یہ مسئلہ وقت کے ساتھ دور ہو جاتا ہے لیکن بہت ساروں میں تھوڑا فرق نظر آتا ہے جب کہ کچھ بچوں میں بالکل کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی۔

تھیرپی
Getty Images

ضبر اور تہمل کی توقع

ہکلاتے ہوئے بچوں کے بارے میں ظاہر ہے والدین فکر کرتے ہیں اور وہ اپنے بچوں کے اس مسئلے کا حل ڈھونڈتے ہیں۔

بی بی سی ساؤنڈز کے پاڈکاسٹ پروگرام ومینز آور سے بات کرتے ہوئے ایک والدہ جیری نے کہا کہ ان کے بیٹے نے پانچ سے چھ سال کی عمر میں ہکلانا شروع کر دیا تھا۔

’جب ہمارا بیٹا پانچ، چھ سال کا ہوا تو مجھے احساس ہوا کہ وہ اصل میں ہکلا رہا تھا۔ ہمیں لگا بچے ایسا ہی کرتے ہیں۔ ہمیں بالکل نہیں پتا تھا کہ ہم اس کی کیسے مدد کر سکتے ہیں اور دعا کرتے تھے کہ وہ خود سے ٹھیک ہو جائے۔

جیری کے بیٹے کے مسائل وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہی گئے اور وہ پہلے سے بھی زیادہ ہکلانے لگا۔ وہ ہر بات پر برہم ہونے شروع ہو گیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے اپنے بیٹے کی مدد کرنے کے لیے اس کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ اسے بار بار وہ الفاظ یاد دلاتے جن پر وہ پھنستا تھا لیکن اس سے مایوس ہو جاتا تھا اور کئی دفعہ تو وہ غضے میں بھی آ جاتا تھا۔ اس کے چہرے پر بے بسی کا احساس ظاہر ہو جاتا تھا۔‘

نوئیڈا کے رہائشی ادتیا کہتے ہیں کہ کئی مرتبہ لوگ ہکلانے والوں کے جملے پورے کرتے ہیں اور یہ ٹھیک نہیں۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں یہ موقع دینا چاہیے کہ ہم اپنی بات مکمل کریں۔‘ ہمیں معلوم ہے آپ اچھی نیت سے ہماری مدد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم اس سے تنگ ہوتے ہیں۔ ہم آپ سے اپنے لیے تھوڑے صبر کی توقع رکھتے ہیں۔‘

بچہ اور خاتون
Getty Images

ہکلاہٹ کے درجے

بی بی سی کی نامہ نگار پایل بھوین نے نوئیڈا کے سپیچ تھیرپسٹ شیشوپال سے بھی بات کی۔

انھوں نے کہا پہلے کے مقابلے میں لوگ ہکلاہٹ کے حل کے لیے اب زیادہ سپیچ تھیرپی لے رہے ہیں۔

شیشوپال کہتے ہیں کہ ہکلانے کو تین درجوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔

  • کم ہکلاہٹ
  • معتدل ہکلاہٹ، جو معمول سے زیادہ ہوتے ہیں
  • شدید ہکلاہٹ

وہ کہتے ہیں کہ ’جن بچوں کو کم ہکلاہٹ ہوتی ہے وہ جلدی ٹھیک ہو سکتے ہیں۔ جن کا معتدل ہکلاہٹ کا مسئلہ ہے ان میں چار سے پانچ مہینے کی تھیرپی کے بعد کافی بہتری دیکھی جا سکتی ہے۔‘

شدید ہکلاہٹ کے شکار لوگوں کا علاج تھوڑا پیچیدہ ہوتا ہے، اس پر خرچہ بھی زیادہ آتا ہے اور بچوں کی طرف سے محنت بھی درکار ہوتی ہے۔

بچہ کتاب میں رنگ کر رہا ہے جبکہ اس کے ساتھ بیٹی عورت اپنے کام کے دوران اس کو توجہ دیتی ہیں
Getty Images

تھیرپی کے ساتھ کاؤنسلنگ

ادتیا کہتے ہیں کہ ’مجھے بچپن میں لگتا تھا کہ میری ہکلاہٹ کا کبھی علاج نہیں ہو گا اور یہ تھیرپی بہت مہنگی ہوتی ہے۔ اس وقت ہمارے پاس تھیرپی کے لیے پیسے بھی نہیں تھے۔‘

بی بی سی ساؤنڈز سے بات کرتے ہوئے جیری کہتی ہیں کہ ’میرا بیٹا سکول میں بلند آواز میں مضمون پڑھتے ہوئے ہکلاتا تھا۔ ٹیچر مجھے بتاتی تھی کہ میرا بچہ دیر لگاتا ہے۔ اس میں خود اعتمادی نہیں ہے۔ لیکن اگر آپ لٹریچر پڑھا رہے ہیں تو اس میں کئی دفعہ بچے پھنستے ہیں۔

’آپ کو سمجھنا پڑے گا کہ میرے بچے جیسے طالبعلم کو آپ کو تھوڑا زیادہ وقت دینا پڑے گا۔ صرف یہ کہنا کہ وہ دیر لگاتا ہے ٹھیک نہیں۔‘

سپیچ تھیرپسٹ شیشوپال اس بات پر زور دیتے ہیں کہ کبھی کبھار ہکلانے والے افراد کو تھیرپی کی ضرورت ہوتی ہے۔

’یہ کئی دفعہ دیکھا گیا ہے کہ زیادہ ہکلانے والے افراد کی خود اعتمادی گر جاتی ہے۔ یہ بات ان کے ذہن میں رہتی ہے کہ اگر میں کچھ غلط بول دوں گا تو لوگ مجھ پر ہنسیں گے۔‘

شیشوپال کہتے ہیں کہ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہکلانے والے زیادہ لوگوں کی محفل میں نہیں بیٹھتے۔ وہ سوچتے ہیں کہ اگر کسی نے کچھ پوچھ لیا تو ہم کیا کہیں گے؟ کئی دفعہ اس کی وجہ سے دفتر میں مسائل ہو جاتے ہیں۔

ادتیا اپنی ملازمت کی تلاش کے ابتدائی دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں تکنیکی امتحان پاس کر لیتا تھا لیکن ہر دفعہ میں آخری مرحلے میں ناکام ہو جاتا تھا۔ آہستہ آہستہ مجھے سمجھ آنے لگی کہ میری ہکلاہٹ ملازمت نہ ملنے کی وجہ بنی ہوئی تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ انھیں جہاں سے پہلی دفعہ ملازمت کی پیشکش ہوئی انھوں نے پہلے ہی انھیں اپنی ہکلاہٹ کے بارے میں بتا دیا تھا، انھوں نے میری تھیرپی کہ بارے میں سوال کیا پھر انھیں نوکری مل گئی۔

’لیکن کئی دفعہ ہمیں اپنے ذہن میں آنے والی باتوں سے اجتناب کرنا ہوتا ہے، یہ نہ ہو وہ سب کہنے کے لیے بہت بولنا پڑے۔‘

ادتیا نے تھیرپی کے متعدد سیشنز لیے اور اپنے اوپر محنت کی اور کافی حد تک ان کے ہکلانے کا مسئلہ حل ہو چکا ہے۔

ماں بچے کے ساتھ کھیل رہی ہے
Getty Images

کن باتوں کو ذہن میں رکھنا چاہیے

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کے مطابق جب بھی آپ کسی ایسے شخص سے ملیں جو ہکلاتے ہوں یہ چیزیں آپ کے ذہن میں ہونی چاہییں۔

  • جلدی سے ان کے جملے مکمل کرنے کی کوشش نہ کریں۔
  • صبر کریں، جب وہ بات کر رہے ہوں تو انھیں کاٹ کر اپنی بات نہ شروع کریں۔
  • انھیں جلدی یا آہستہ بات کرنے کو نہ کہیں۔
  • توجہ اس پر دیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بجائے اس کے کہ وہ بات کیسے کر رہے ہیں۔
  • جب بچے سے بات کریں تو آرام سے بولیں۔ چھوٹے جملے اور آسان زبان کا استعمال کریں۔
  • انھیں آپ کی بات سمجھنے کے لیے مکمل وقت دیں۔

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کا کہنا ہے کہ ہکلاہٹ کی بہت ساری وجوہات ہو سکتی ہیں۔ کبھی کبھی اس کی وجہ ڈر ہو سکتی ہے۔ ہکلاہٹ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔

بڑوں سے لے کر چھوٹے تھیرپی لے سکتے ہیں آپ کسی بھی عمر میں یہ کر سکتے ہیں لیکن جتنا جلدی آپ اپنا علاج شروع کریں اتنا اچھا ہوتا ہے۔

ڈے کیئر
Getty Images

بی بی سی سے اپنی گفتگو کے آخر میں جیری کہتی ہیں ’میرا بیٹا ہکلاتا ہے اور ممکن ہے کہ وہ مستقبل میں بھی ہکلائے میں چاہتی ہوں یہ دنیا میرے بچے کے لیے تھوڑی آسان ہو۔ وہ ہم جیسا ہے اور اتنا مختلف نہیں ہے۔‘

ادتیا آخر میں کہتے ہیں ’یہ مت سمجھیں کہ ہم میں کوئی کمی ہے۔ میرے خیال سے اگر لوگ ہمارا مذاق اڑانا چھوڑ دیں تو اس سے شاید ہمارے اندر خود اعتمادی بڑھ جائے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.