افغانستان میں سخت گرمی میں ٹیکسیوں کی چھٹوں پر ایک ڈبہ رکھا ہوا نظر آتا ہے جس میں ایک بڑا سا پائپ بھی لگا ہوا ہوتا ہے۔ یہ دراصل ہاتھ سے بنائے گئے ایئر کولرز ہیں جنھیں ڈرائیوروں شدید گرمی میں اپنی ٹیکسیوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔

افغانستان میں سخت گرمی میں ٹیکسیوں کی چھتوں پر ایک ڈبہ رکھا ہوا نظر آتا ہے جس میں ایک بڑا سا پائپ بھی لگا ہوا ہوتا ہے۔
یہ دراصل ہاتھ سے بنائے گئے ایئر کولرز ہیں جنھیں ڈرائیورز شدید گرمی میں اپنی ٹیکسیوں کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
ان ٹیکسی ڈرائیوروں کا کہنا ہے کہ ملک کے جنوبی شہر قندھار میں اکثر درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ سے بھی تجاوز کر جاتا ہے اور ایسے میں ان کی گاڑیوں میں نصب ایئرکنڈیشنرز کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔
عبدالباری نامی ٹیکسی ڈرائیور نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’یہ انتظام (ہاتھ سے بنائے گئے ایئر کولرز) اے سی سے زیادہ بہتر کام کرتے ہیں۔‘
’اے سی سے صرف کار کا اگلا حصہ ٹھنڈا رہتا ہے جبکہ یہ کولر پوری گاڑی میں ہوا پہنچاتا ہے۔‘
خبر رساں ادارے کی ویڈیو میں عبدالباری کو ایئرکولر کے پائپ کو ٹیکسی کی کھڑکی کی اندر کی طرف چپکاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے، جبکہ ایک دوسرا شخص گاڑی کی چھت پر اس ایئر کولر کو فکس کر رہا ہوتا ہے۔
عبدالباری کہتے ہیں کہ اس ایئرکولر کے ساتھ صرف ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس میں دن میں دو مرتبہ خود سے پانی بھرنا پڑتا ہے۔
’لیکن میرے لیے یہ بہترین کام کر رہا ہے۔‘
افغانستان کا شمار دنیا کے غیریب ترین ممالک میں ہوتا ہےافغانستان کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ موسمیاتی تبدیلی سے بھی شدید متاثر ہو رہا ہے۔
حکومت نے انتباہ جاری کیا ہے کہ آئندہ ہفتوں میں ملک میں گرمی کی شدت مزید بڑھ سکتی ہے۔
قندھار میں گُل محمد نامی ایک اور ٹیکسی ڈرائیور کہتے ہیں کہ انھوں نے چند برس قبل اس ایئر کولر کا استعمال شروع کیا تھا کیونکہ 'موسم شدید گرم' ہو گیا تھا۔
32 سالہ ڈرائیور نے اے ایف پی کو بتایا کہ: 'ان کاروں کے اے سی کام نہیں کرتے اور ان کی مرمت پر بھی بہت خرچہ آتا ہے۔ میں ایک ٹیکنیشن کے پاس گیا اور اس سے یہ کولر بنوا لیا۔'
گُل محمد نے یہ ایئر کولر بنوانے کے لیے 43 ڈالر خرچ کیے تھے۔ ان ٹیکسیوں کے مسافر بھی گاڑیوں میں آنے والی اس تبدیلی کو سراہ رہے ہیں۔
19 سالہ نور اللہ کچھ دنوں قبل گرمی کی شدت سے بیمار ہوگئے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ 'جب گاڑیوں میں کولر نہیں ہوتا تو ان میں سفر کرنا مشکل ہو جاتا ہے، میں تو اپنی جیب میں گرمی کا اثر کم کرنے والی دوائیں بھی لے کر سفر کرتا ہوں۔'
رواں برس اپریل سے جون تک کا وقت افغانستان کی تاریخ کا سب سے گرم ترین موسمِ بہار تھا۔
گذشتہ ہفتے اقوامِ متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن نے کہا تھا کہ افغانستان میں خشک سالی کے سبب فصلیں اور دیہاتی زندگی تباہ حالی کا شکار ہے۔
گُل محمد نے یہ ایئر کولر بنوانے کے لیے 43 ڈالر خرچ کیے تھےماہرین نے خبردار کیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلی کے مضر اثرات کے سبب افغانستان میں انسانی بحران شدت اختیار کرے گا۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کی آمد کے بعد اقوامِ متحدہ میں افغانستان کو موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے ہونے والے مذاکرات سے علیحدہ کر دیا گیا تھا۔
طالبان نے اگست 2021 میں کابُل میں اقتدار پر قبضہ کیا تھا اور اس کے بعد ملک سے امریکی فوج کا انخلا عمل میں آیا تھا۔