ترنمول کانگریس رہنما مہوا موئترا کی پارلیمانی رکنیت معطل: ’پارلیمان کے اندر اور باہر لڑتی رہوں گی‘

جمعہ کو لوک سبھا میں پارلیمنٹ کی اخلاقیات کی کمیٹی کی رپورٹ آواز سے ووٹ کی بنیاد پر منظور ہوئی اور مہوا موئترا کو’رقم لے کر سوال پوچھنے‘ کے معاملے میں لوک سبھا سے نکال دیا گیا۔

انڈیا کی پارلیمان نے حزب اختلاف ترنمول کانگریس کی لیڈر مہوا موئترا کو پارلیمان سے برطرف کر دیا ہے۔

ان کی برطرفی پارلیمان میں سوال پوچھنے کے عوض پیسہ لینے کے الزام میں سامنے آئی ہے لیکن مہوا موئترا سختی سے ان الزامات کی تردید کرتی ہیں۔

انھوں نے برطرفی کے بعد کہا کہ ’ایتھکس کمیٹی کو ان کی برطرفی کی سفارش کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔‘

انھوں نے پارلیمان کو ’کینگرو کورٹ‘ سے تعبیر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کینگرو کورٹ میں جو کچھ ہوا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی حکومت اڈانی کو بچانے کے لیے کیا کیا کر سکتی ہے۔‘

مہوا موئترا نے پارلیمان سے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میری عمر 49 سال ہے اور میں اگلے 30 سال تک پارلیمنٹ کے اندر اور باہر آپ کے خلاف لڑوں گی۔‘

جمعہ کو لوک سبھا میں پارلیمنٹ کی اخلاقیات کی کمیٹی کی رپورٹ آواز سے ووٹ کی بنیاد پر منظور ہوئی اور مہوا موئترا کو’رقم لے کر سوال پوچھنے‘ کے معاملے میں لوک سبھا سے نکال دیا گیا۔

وہ اس کے خلاف عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں جس طرح اس سے قبل راہل گاندھی کو برطرف کیا گیا تھا اور انھیں عدالت نے پھر سے پارلیمان جانے کا حق عطا کیا۔

مہوا موئترا
BBC
مہوا موئترا کانگریس لیڈر سونیا گاندھی اور ديگر رہنماؤں کے ساتھ

پارلیمان میں کیا ہوا؟

جمعے کو دن کے آغاز میں پارلیمان میں اخلاقی کمیٹی کی رپورٹ پیش کی گئی جس میں مز موئترا کو نکالنے کی سفارش کی گئی تھی۔ اپوزیشن قانون سازوں نے تقریباً 500 صفحات پر مشتمل رپورٹ پر بحث کرنے سے پہلے اس کا مطالعہ کرنے کے لیے مزید وقت مانگا تھا لیکن سپیکر نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔

کانگریس کے رکن پارلیمنٹ منیش تیواری نے کہا کہ اگر ہمیں اس رپورٹ کا نوٹس لینے اور پھر ایوان کے سامنے اپنی رائے رکھنے کے لیے تین چار دن کا وقت دیا جاتا تو سر پر آسمان نہ ٹوٹ پڑتا کیونکہ یہ ایک انتہائی حسّاس معاملے پر فیصلہ کرنے والی بحث تھی۔

مہوا موئترا کا تعلق ترنمول کانگریس سے ہے اور ان کی پارٹی ریاست مغربی بنگال میں برسراقتدار ہے۔ وہ وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی شدید ناقد کے طور پر جانی جاتی ہیں اور لوک سبھا میں بی جے پی اکثریت میں ہے۔

مز مہوا کی پارٹی کے ساتھیوں نے جمعہ کو ایوان میں احتجاجی مظاہرہ کیا اور ان کے حق میں نعرے لگائے۔

ترنمول کانگریس کے رہنماؤں نے اخلاقی کمیٹی کی رپورٹ کو ’آئی واش‘ قرار دیا اور اپنے موقف کو دہرایا کہ رشوت لینے کا الزام بے بنیاد ہے۔ انھوں نے اور دیگر اپوزیشن لیڈروں نے الزام لگایا ہے کہ مز موئترا کو مودی کی پارٹی پر تنقید کرنے کے لیے نشانہ بنایا گیا ہے۔

لوک سبھا (ایوان زیریں) سپیکر اوم برلا نے جمعہ کو مز موئترا کو ایوان میں یہ کہتے ہوئے بولنے کی اجازت نہیں دی کہ انھیں اخلاقیات کمیٹی کے سامنے اپنا دفاع کرنے کا موقع دیا گیا ہے۔ لیکن مہوا موئترا نے کمیٹی کی پوچھ گچھ کے دوران ان پر ’غیر اخلاقی، گھٹیا اور متعصبانہ رویے‘ کا الزام لگاتے ہوئے واک آؤٹ کر دیا تھا۔

پارلیمان سے برخاست ہونے پر انھوں نے پارلیمان کے باہر میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کو تندقید کا نشانہ بنایا۔

مہوا موئترا
Getty Images
مہوا موئترا

پارلیمنٹ سے باہر آنے کے بعد مہوا نے کیا کہا؟

انھوں نے کہا کہ ’کہیں بھی نقدی کے لین دین یا کسی تحفے کے لین دین کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔ پارلیمان سے برطرفی کی سفارش صرف اس حقیقت پر مبنی ہے کہ میں نے اپنا لوک سبھا پورٹل لاگ ان شیئر کیا تھا۔ لاگ ان شیئر کرنے کے حوالے سے کوئی اصول وضع نہیں ہیں۔

ایتھکس کمیٹی کی سماعت میں واضح ہوا کہ ہم تمام اراکین پارلیمنٹ کنویئر بیلٹ ہیں تاکہ ہم پارلیمنٹ میں عوام اور شہریوں کے سوالات اٹھا سکیں۔

’اگر مودی سرکار یہ سوچ رہی ہے کہ میرا منہ بند کر کے وہ اڈانی معاملے سے توجہ ہٹا سکتی ہے تو مجھے بتانا پڑے گا کہ اس کینگرو کورٹ نے پورے انڈیا کو دکھا دیا ہے کہ اس عمل میں جس طرح جلدبازی کی گئی، اس کا جس طرح غلط استعمال کیا گیا ہے وہ یہ ثابت کرتا ہے کہ مسٹر اڈانی ان کے لیے کتنے اہم ہیں۔ اور آپ ایک خاتون ایم پی کو ہراساں کرنے کے لیے کس حد تک جا سکتے ہیں تاکہ مجھے چپ کرایا جا سکے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’کل سی بی آئی (تفتیشی ادارے) کو میرے گھر بھیجا جائے گا۔ وہ لوگ مجھے اگلے چھ ماہ تک ٹارچر کریں گے۔ لیکن مجھے سوال کرنا ہے کہ مسٹر اڈانی کے 13,000 کروڑ روپے کے کوئلہ گھپلے کا کیا ہوگا، جس پر سی بی آئی یا ای ڈی غور نہیں کر رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’آپ کہتے ہیں کہ میں نے لاگ ان پورٹل سے قومی سلامتی سے سمجھوتہ کیا ہے؟ مسٹر اڈانی ہماری تمام بندرگاہیں، ہوائی اڈے خرید رہے ہیں اور ان کے شیئر ہولڈر غیر ملکی پیشہ ور سرمایہ کار ہیں اور وزارت داخلہ انھیں ہمارا بنیادی ڈھانچہ خریدنے کی اجازت دے رہی ہے۔‘

مہوا موئترا
Getty Images

مہوا موئترا نے الزام لگایا کہ بی جے پی حکومت مسلم مخالف اور خواتین مخالف ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’لوک سبھا میں بی جے پی کے 303 رکن پارلیمنٹ ہیں لیکن ان میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔

’رمیش بدھوری اس پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر اور 26 مسلم رکن پارلیمنٹ میں سے ایک دانش علی کو گالی دیتے ہیں۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی۔‘

’آپ اقلیتوں سے نفرت کرتے ہو آپ عورتوں سے نفرت کرتے ہو۔ آپ کو خواتین کی طاقت سے نفرت ہے۔ آپ طاقت اور اختیار کو سنبھالنا نہیں جانتے۔‘

انھوں نے بنگالی میں کہا کہ ’لوگ تمہارا انجام دیکھیں گے۔ آپ کے پاس پنجاب نہیں، ہمارے پاس سندھ نہیں، دراوڑ آپ کا نہیں، اتکل آپ کا نہیں، بنگال آپ کا نہیں ہے۔ آپ ہم پر حکمرانی کہاں سے کریں گے، آپ کو یہ طاقتور اکثریت کہاں سے ملے گی؟

’ایتھکس کمیٹی کے پاس اخراج کا اختیار نہیں ہے۔ آپ نے نیم عدالتی اختیارات لے کر میرے خلاف کارروائی کی۔ یہ آپ کے انجام کی شروعات ہے۔ ہم واپس آئیں گے اور آپ کا انجام دیکھیں گے۔‘

حزب اختلاف اور سوشل میڈیا

حزب اختلاف نے مہوا کے خلاف کی جانے والی کارروائی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ ترنمول کانگریس کی سربراہ اور مغربی بنگال کی وزیر اعلی ممتا بنرجی نے فیصلے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ان کی پارٹی مہوا کے ساتھ کھڑی ہے اور آنے والے انتخابات میں عوام بی جے پی کو سبق سکھائیں گے۔

کانگریس کے رہنما ادھیر رنجن چودھری نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا: 'ایک فکر، ایک طرز پر یہ کام کیا گياہے۔ یہ بے بنیاد حقائق کی بنیاد پر اور صرف انتقامی جذبے کے تحت کیا گيا ہے۔

’روز ایوان کے اندر برسراقتدار جماعت اور بطور خاص مودی جی خواتین کی شان میں قصیدے پڑھتے ہیں اور آج نئے پارلیمان ہاؤس میں سب سے پہلے خواتین کی قربانی دی گئی ہے۔‘

دوسری بی جے پی کے رہنما پارلیمان کے فیصلے کی پرزور حمایت کرتے نظر آئے اور انھوں نے اسے خواتین کا مسئلہ نہ کہہ کر عطیات کے بدلے سوال کرنے کا معاملہ قرار دیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جو کچھ کیا گیا ہے سب قانون کے تحت کیا گیا ہے اور اسے رکن پارلیمان کے لیے ایک سبق قرار دیا ہے۔

سوشل میڈیا پر کل سے ہی مہوا موئترا پہلے چند سرفہرست ٹرینڈز میں شامل ہیں۔ ہندی اور انگریزی دونوں میں وہ پہلے اور دوسرے نمبر پر رہی ہیں۔ بہت سے لوگوں نے ان کے پارلیمان کے باہر کے بیان کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’یہ بی جے پی کے اختتام کا آغاز ہے۔‘

راہل سیکر نامی ایک صارف نے انڈیا کے بابائے قوم مہاتما گاندھی کا قول ’جب حکومت بد نظم اور بد عنوان ہو جائے تو سول نافرمانی مقدس فریضہ بن جاتی ہے۔ نقل کرتے ہوئے مہوا موئترا کو مزید قوت ملنے کی بات کہی اور اس کے ساتھ ان کا بیان بھی شیئر کیا ہے۔‘

https://twitter.com/RahulSeeker/status/1733081448666853836

اشیش سنگھ نامی ایک صارف نے مہوا موئترا کی پارلیمان کی ایک پرانی تقریر کو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ’انھیں لوک سبھا سے برخاست کیے جانے کی اصل وجہ یہ تقریر ہے جس میں انھوں نے انڈیا کے سب سے امیر اور کاروباری شخصیت مسٹر گوتم اڈانی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔‘

https://twitter.com/AshishSinghKiJi/status/1733122745528189347

صحافی پرشانت کمار نے راشٹریہ جنتا دل سے رکن پارلیمان منوج جھا کا بیان شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’جو گوڈسے (مہاتما گاندھی کے قاتل) کی تعریف کرتے ہیں وہ پارلیمان میں بیٹھ سکتے ہیں، جو مسلمانوں اور اقلیتوں کو گالی دیتے ہیں وہ پارلیمان میں بیٹھ سکتے ہیں جو خاتون ایتھلیٹ پر ہیبت طاری کرتے ہیں وہ پارلیمان میں بیٹھ سکتے ہیں۔

’لیکن مہوا موئترا پارلیمان میں نہیں بیٹھ سکتی ہیں۔ ان کا جرم یہ ہے کہ انھوں نے طاقتور کاروباری کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔‘

https://twitter.com/scribe_prashant/status/1733103841749721483

بہت سے لوگوں نے لکھا ہے کہ سپیکر اوم برلا نے واضح کر دیا ہے کہ مہوا موئترا کو کیوں برخاست کیا گیا ہے اور انھیں پارلیمان میں بولنے کی اجازت کیوں نہیں۔

پورا معاملہ کیا ہے؟

یہ تنازع اکتوبر میں اس وقت شروع ہوا جب بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ نشی کانت دوبے نے مز موئترا کے خلاف شکایت درج کرائی۔

اس میں انھوں نے الزام لگایا گیا کہ مز موئترا نے تاجر درشن ہیرانندانی کی جانب سے تحائف اور نقد رقم کے بدلے میں اڈانی گروپ کو نشانہ بناتے ہوئے کئی سوالات پوچھے ہیں (جو کہ ایشیا کے امیر ترین آدمی گوتم اڈانی کی ملکیت ہے)۔

خیال رہے کہ مسٹر اڈانی کو مسٹر مودی کے قریب سمجھا جاتا ہے اور انھیں طویل عرصے سے حزب اختلاف کے سیاست دانوں کے الزامات کا سامنا ہے کہ انھوں نے اپنے سیاسی تعلقات سے فائدہ اٹھایا ہے، جس سے تاجر اور بی جے پی انکار کرتے ہیں۔

پی ایم مودی اور گوتم اڈانی
Getty Images
مہوا موئترا اور اپوزیشن رہنما راہل گاندھی کئی بار الزام لگا چکے ہیں کہ اڈانی گروپ کے مالکگوتماڈانی وزیر اعظم نریندر مودی کی حمایت سے آگے بڑھ رہے ہیں

رواں سال کے شروع میں امریکی کمپنی ہندنبرگ نے مسٹر اڈانی پر کئی دہائیوں سے سٹاکس میں ہیرا پھیری اور اکاؤنٹنگ فراڈ میں ملوث ہونے کا الزام لگایا تھا۔ اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے رپورٹ کو ’بد نیتی پر مبنی‘ قرار دیا تھا۔

اپنی شکایت میں مسٹر دوبے نے دعویٰ کیا کہ ’حال ہی میں‘ مز موئترا کے لوک سبھا میں پوچھے گئے 61 سوالات میں سے 50 اڈانی گروپ پر مرکوز تھے اور ان پر مسٹر ہیرا نندانی سے دو کروڑ روپے تک کی رشوت لینے کا الزام لگایا لیکن مہوا موئترا نے اس کی سختی سے تردید کی ہے۔

بی جے پی لیڈر نے الزام لگایا کہ انھیں مز موئترا کے خلاف جے اننت دیہدرائی نامی ایک وکیل سے ’ناقابل تردید شواہد‘ ملے ہیں۔ مسٹر اننت کو مز موئترا نے ’جٹڈ سابق‘ یعنی ’بے وفا سابق‘ کے طور پر بیان کیا ہے۔

اس دوران مسٹر ہیرانندنی نے اخلاقیات کی کمیٹی کے سامنے ایک حلف نامہ پیش کیا جس میں انھوں نے ٹی ایم سی لیڈر پر مسٹر اڈانی کو ’مشہور ہونے‘ کے لیے نشانہ بنانے کا الزام لگایا۔

مز موئترا نے حلف نامے کی صداقت پر سوال اٹھایا تو مسٹر ہیرانندانی نے کہا کہ انھوں نے اس پر ’رضاکارانہ طور پر‘ دستخط کیے ہیں۔

مسٹر دوبے کی شکایت میں مہوا موئترا پر اپنے پارلیمانی لاگ ان اور پاس ورڈ مسٹر ہیرانندانی کے ساتھ شیئر کرنے کا بھی الزام لگایا گیا تاکہ وہ ’ضرورت پڑنے پر ان کی طرف سے براہ راست سوالات پوسٹ کر سکیں۔‘

مز موئترا نے اپنے لاگ ان کی تفصیلات تاجر کو دینے کا اعتراف کیا ہے لیکن ان کا کہنا ہے کہ ایسا کرتے ہوئے انھوں نے کسی اصول کی خلاف ورزی نہیں کی۔

انھوں نے مسٹر دوبے اور مسٹر دیہدرائی کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ اس کے علاوہ پارلیمان سے برطرف کیے جانے کے خلاف بھی وہ عدالت سے رجوع کر سکتی ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.