چھینک کو روکنے کی کوشش جس نے نوجوان کی سانس کی نالی پنکچر کر ڈالی

برطانیہ میں ایک 30 سالہ شخص نے چھینک روکنے کی کوشش کی تو اس کے نتیجے میں پڑنے والے دباو کے باعث اسکی سانس کی نالی میں سوراخ ہو گیا۔ اس واقعے کے سامنے آنے پر طبی ماہرین نے اس حوالے سے الرٹ بھی جاری کر دیا ہے

کیا آپ کے ساتھ کبھی ایسا ہوا کہ جیسے ہی آپ کو چھینک آنے لگے تو عین اس لمحے آپ نے اس کو روکنے کی کوشش کی ہو۔ اگر آپ نے کبھی ایسا کیا ہے تو اب جان لیں کہ چھینک کے قدرتی عمل کو جان بوجھ کر روکا جائے تو اس کوشش میں آپ کو جان کے لالے بھی پڑ سکتے ہیں۔

اس کی ایک مثال حال ہی میں سامنے آئی جب برطانیہ میں ایک تیس سالہ شخص نے چھینک روکنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں پڑنے والے دباؤ کے باعث اس کی سانس کی نالی میں سوراخ ہو گیا ہے۔

اس واقعے کے سامنے آنے پر طبی ماہرین نے اس حوالے سے الرٹ بھی جاری کر دیا ہے۔

انگلینڈ کے ہسپتال نائن ویلز میں ایک 30 سالہ نوجوان کو لایا گیا جو شدید درد میں مبتلا تھا۔ ڈاکٹرز نے ان کا طبی معائنہ کیا تو انکشاف ہوا کہ اس نوجوان کی سانس کی نالی میں دو ملی میٹر کا سوراخ ہو گیا ہے۔

تحقیق پر یہ بات سامنے آئی کہ اس نے چھینک روکنے کے لیے اپنی ناک اور منہ کوسختی سے ڈھانپ لیا تھا۔

’چھینک ناک کے حصوں سے تمام فاضل مواد نکال دیتی ہے‘

چھینک روکنے سے مسلہ
Getty Images
چھینک کو روکنے سے آپ کو کئی قسم کے زخم بھی لگ سکتے ہیں جس میں کان کا پردہ پھٹنا، رگوں کی سوجن اور پسلیوں کا ٹوٹنا بھی ہو سکتا ہے

ڈاکٹرز کے مطابق

  • اگر آپ منہ بند کر کے چھینکیں تو اس دوران سانس کی نالی کے اوپری حصے میں دباؤ معمول سے 20 گنا بڑھ جاتا ہے۔
  • چھینک کو روکنے سے آپ کو کئی قسم کے زخم بھی لگ سکتے ہیں جس میں کان کا پردہ پھٹنا، رگوں کی سوجن اور پسلیوں کا ٹوٹنا بھی ہو سکتا ہے اور اس سے متعلق کئی کیسز پہلے بھی رپورٹ ہو چکے ہیں

یہکیس ’بی ایم جی کیس رپورٹس‘ نامی طبی جریدے میں بھی رپورٹ کیا گیا ہے۔

جب ڈاکٹر مریض کا معائنہ کر رہے تھے تو انھوں نے گردن کے معائنے کے دوران کچھ پھٹنے جیسی آواز سنی اور بعد میں تحقیقات سے پتہ چلا کہ وہ شخص اپنے سر کے ہلنے پر مکمل کنٹرول کھو چکا تھا۔

چھینک کے وقت متاثرہ شخص گاڑی چلا رہا تھا اور ان کی میڈیکل ہسٹری چیک کرنے سے یہ بات سامنے آئی کہ انھیں الرجی اور ساتھ میں گلے میں کچھ مسائل تھے۔

تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ مریض کو کسی آپریشن کی ضرورت نہیں تھی اور انھیں درد کشا اور اینٹی الرجک ادویات دی گئیں اور چند روز بعد ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا۔

ڈاکٹرز نے انھیں کچھ دن کام کاج سے منع کرتے ہوئے آرام کی ہدایت کی۔ پانچ ہفتوں کے بعد رپورٹ سے معلوم ہوا کہ ان کے گلے میں رونما ہونے والا شگاف ٹھیک ہو گیا ہے۔

اس کیس پر کام کرنے والے ڈاکٹر راساد میسیروف نے بی بی سی کو بتایا کہ لوگوں کو چھینک کو ہرگز نہییں روکنا چاہیے کیونکہ یہ جسم کے قدرتی دفاعی طریقہ کار کا حصہ ہے۔ چھینک ناک کے حصوں سے تمام فاضل مواد نکال دیتی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’ہمیں چھینک آنے پر منہ کو اپنے ہاتھ یا کہنی سے ڈھانپنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ وائرس اور تھوک کے پھیلاؤ کو روکتا ہے اور ہمارے آس پاس کے لوگوں کو محفوظ رکھتا ہے۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ بہت سے لوگ ایک ایسا طریقہ اختیار کرتے ہیں جس میں ناک اور منہ دونوں ایک ساتھ بند نہیں ہوتے۔

وہ کہتے ہیں ’ذاتی طور پر میں ایک مختلف طریقہ بھی استعمال کرتا ہوں جہاں میں اپنے انگوٹھے سے اوپری ہونٹ پر دباتا ہوں۔ جس کی وجہ سے سانس کی آمد و رفت کا راستہ کھلا رہتا ہے۔ نتھنے کھلے ہوں گے تو چھینک آئے گی۔‘

سانس کی نالی میں یہ اچانک سوراخ ’spontaneous tracheal rupture‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

ایسے واقعات شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں لیکن بعض حالات میں جان لیوا بھی ہو سکتے ہیں۔ ایسے کیسز بھی بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں۔


News Source

مزید خبریں

BBC
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts