ٹائٹینک کے ڈوبنے کے 111 سال بعد بھی اس کا ملبہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں غرقاب ہونے والے اس جہاز کے ٹکڑے دریافت ہونے کے بعد سے بہت سی افواہوں، خرافات اور شکوک و شبہات کا موضوع رہا ہے۔ اس مضمون میں ٹائٹینک کے بارے میں پانچ اہم حقائق بتائے گئے ہیں۔

ٹائی ٹینک پر سوار تمام مسافر اس رات گہری نیند سو رہے تھے جب یہ جہاز بحر اوقیانوس میں ایک آئس برگ سے ٹکرا گیا اور اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی ڈوب گیا۔ اس واقعے کو بیتے ایک سو گیارہ برس ہو چکے ہیں۔
ٹائٹینک اپنے پہلے سفر پر اس وقت41 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے برطانیہ کے شہر ساؤتھمپٹن سے امریکا کے شہر نیویارک جا رہا تھا۔
ٹائی ٹینک 14 اپریل 1912 کی رات کو ڈوبنا شروع ہوا اور تین گھنٹوں کے اندر 15 تاریخ کے اوائل میں مکمل طور پر سمندربُرد ہو گیا۔ یہ حادثہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر کی گہرائی میں پیش آیا۔
اس حادثے میں 1500 سے زیادہ مسافر سمندر میں ڈوب گئے۔ سو سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے باوجود ٹائٹینک کی تباہی آج بھی سب سے بڑی سمندری آفت سمجھی جاتی ہے۔
ستمبر 1985 میں ٹائی ٹینک کا ملبہ نکالا گیا۔ یہ نیو فاؤنڈ لینڈ، کینیڈا سے 650 میل دور ہے۔ حادثہ سطح سمندر سے چار ہزار میٹر کی گہرائی میں پیش آیا تھا جس میں جہاز کے دو ٹکڑے ہو گئے تھے۔ ڈوبنے کے مقام پر ٹائی ٹینک کے دو حصے ملے۔ ان دونوں حصوں کے درمیان 800 میٹر کا فاصلہ ہے۔
تباہی کے 111 سال بعد بھی اس کا ملبہ ایک معمہ بنا ہوا ہے۔ سمندر کی گہرائیوں میں غرقاب ہونے والے اس جہاز کے ٹکڑے دریافت ہونے کے بعد سے بہت سی افواہوں، خرافات اور شکوک و شبہات کا موضوع رہا ہے۔
آئیے اب اس مضمون سے ٹائٹینک کے بارے میں پانچ اہم حقائق جانتے ہیں۔
1: ٹائٹینک نے تیز رفتاری کا ریکارڈ قائم کرنے کی کوشش کی
ٹائٹینک کا پوسٹراس بارے میں بہت سی قیاس آرائیاں موجود ہیں کہ ٹائٹینک کا ایک مقصد سمندر میں تیز رفتاری کا ریکارڈ توڑنا تھا
تاہم یہ سراسر غلط ہے۔ اس جہاز کا منصوبہ رفتار کا ریکارڈ بنانا نہیں بلکہ تفریح کی غرض سے جانے والوں کے لیے بحری سفر کو یادگار اور آرام دہ بنانے کی غرض سے ڈیزائن کیا گیا تھا۔
بحر اوقیانوس میں یہ جہاز تیز رفتار بحری جہازوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
2: سونے سے سکّوں اورمصری ممّیوں سے بھرا جہاز
ٹائٹینک کے بارے میں یہ کہانی بھی بہت مشہور ہوئی کہ اس جہاز میں مصری ممّیاں اور سونے کے سکٹے موجود تھے لیکن یہ بھی محض اندازے ہی تھے۔
اس جہاز کی فہرست میں سونے کے سکوں کا کہیں کوئی ذکر نہیں ہے۔ البتہ ’وائٹ سٹار‘ نامی جہاز 1917 میں سونے کے سکے لے جاتے ہوئے ڈوب گیا تھا۔
ایک اور افواہ یہ بھی تھی کہ مصری ممّیوں کو ٹائی ٹینک پر سوار کروایا گیا تھا۔ جہاز کے مکینوں کے بہت سے اکاؤنٹس ہیں جو بہت قیمتی اشیاء لے کر جا رہے ہیں۔
جہاز میں سوار تمام سامان سمندر میں گم ہو گیا۔ بہت سے مسافر ان مصنوعات کے لیے انشورنس کے دعوے کرتے ہیں۔ تاہم ان میں مصری ممّیوں کا کہیں ذکر نہیں ہے۔
3: شیمپین کی بوتل نہیں کھولی جا سکی
ٹائٹینک پر فرسٹ کلاس کے ریسٹورینٹ کی طرف جانے والی سیڑھیاںٹائی ٹینک کی لانچنگ کے دن جب جشن مانے کے لیے شیمپین کی بوتل کھولنے کی کوشش کی گئی تو وہ نہ کھل سکی اور اس کو بد شگونی کی علامت سمجھا گیا۔
تاہم اس واقعے کا کہیں بھی ثبوت موجود نہیں ہے۔ اس جہاز کو چلانے والی کمپنی وائٹ سٹار لائن کے جہازوں کی شہرت اتنی بری نہیں۔
4: تھرڈ کلاس کے مسافروں کو لائف بوٹس دینے سے انکار
ٹائٹینک کے ڈوبنے کے بعد ایک بڑا الزام یہ سامنے آیا کہ نچلے درجے پر سفر کرنے والے مسافروں کو لائف بوٹس کی سہولت نہیں دی گئی۔ اس حوالے سے کہا گیا کہ جہاز کے برف کے تودے سے ٹکرانے کے بعد تھرڈ کلاس کے مسافروں کو لائف بوٹ پر سوار ہونے کی اجازت نہیں دی گئی۔
اس صورت حال کو ہالی ووڈ فلم ٹائٹینک میں بھی دکھایا گیا ہے۔ تاہم ان تمام دعووں میں صداقت نہیں۔
اگرچہ تھرڈ کلاس مسافروں کی ایک بڑی تعداد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھی لیکن انھیں لائف بوٹ میں جگہ دینے سے انکار نہیں کیا گیا تھا۔
اس حوالے سے جہاز کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے آئرش مسافر ڈینیئل برکلے نے بتایا تھا۔
’میں اپنے بنک میں سو رہا تھا جب جہاز آئس برگ سے ٹکرایا اور میں نے ایک تیز آواز سنی۔ جب میں نے وہ شور سنا تو میں فوراً ڈیک پر چڑھ گیا۔‘
جب وہ سیڑھیوں سے نیچے اترے تو گیٹ بند نہیں ہوا تھا۔ ایک فرسٹ کلاس مسافر کو لائف بوٹ میں ڈال کر بحفاظت باہر نکالا گیا۔
اپنے پہلے سفر پر ٹائٹینک کے ڈوبنے سے پہلے کی تصویر5: لائف بوٹ میں چڑھنے کے لیے خاتون کا لباس
ایک اخباری آرٹیکل کے مطابق ولیم سلوپر نامی ایک مسافرنے لائف بوٹ پر جگہ پانے کے لیے عورت کا بھیس بدلا۔ تاہم اس خبر کا حقیقت سے تعلق نہیں۔
تاہم ٹائٹینک کے حادثے میں زندہ بچ جانے والے مسافر ولیم سوپر بھی اس کی تردید کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’یہ بات حقیقت پر مبنی نہیں کہ پہلے عورتوں اور بچوں کو لائف بوٹس میں ڈالا اور پھر مرد آئے۔‘
جہاز پر سوار زیادہ تر مردوں نے لائف بوٹس استعمال کیں اس لیے آدھے مرد زندہ بچ گئے۔