اجمل خان: ’چہرہ دیکھ کر مرض کا پتا لگا لینے والے‘ حکیم جو مسلم لیگ اور کانگریس دونوں کے صدر رہے

اب آپ اس قد آور شخصیت کی انتہائی معمولی نظر آنے والی قبر کے پاس کھڑے ہیں جو کبھی ہندوستان کی اہم سیاسی جماعتوں کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے صدر ہوا کرتے تھے۔

آج جب کوئی انڈیا کے دارالحکومت نئی دہلی کے قلب ’کناٹ پلیس‘ سے پنچکویاں روڈ کی طرف بڑھتا ہے تو ’آر کے آشرم میٹرو‘ سے تھوڑے فاصلے پر ایک خستہ حال سفید دروازہ ہے جس کے باہر ہمہ وقت بہت گہما گہمی نظر آتی ہے۔

آپ پھاٹک عبور کر کے بستی حسن رسول میں داخل ہوتے ہیں۔ یہاں چھوٹے چھوٹے گھروں کے ساتھ بہت سی قبریں نظر آتی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ قبرستان ہے یا بستی۔ لوگ قبروں کے گرد خوش گپیاں کرتے پائے جاتے ہیں۔ گاہے گاہے گھروں سے ڈھول باجے اور موسیقی کی مشق کرنے والے کچھ لوگوں کی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں۔

اسی عالم میں آپ ایک معمر شخص سے حکیم اجمل خان کی قبر کے بارے میں پوچھ لیتے ہیں تو رمضان نامی وہ شریف آدمی آپ کو اشارے سے وہاں جانے کی راہ بتا دیتا ہے۔

اب آپ اس قد آور شخصیت کی انتہائی معمولی نظر آنے والی قبر کے پاس کھڑے ہیں جو کبھی ہندوستان کی اہم سیاسی جماعتوں کانگریس، مسلم لیگ اور ہندو مہاسبھا کے صدر ہوا کرتے تھے۔

وہ یونانی حکمت کے ایک اعلیٰ طبیب تھے جو روزانہ سینکڑوں مریضوں کا علاج کیا کرتے تھے اور اسی نسبت سے کچھ لوگوں نے انھیں ’مسیح الہند‘ بھی کہا ہے۔

حکیم اجمل خان کی قبر کے سامنے ایک ادھیڑ عمر کی عورت بیٹھی ہیں جن کا نام فوزیہ ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ حکیم صاحب کی قبر کی دیکھ بھال کرنے والوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’یہاں ہم قرآن خوانی کرتے ہیں اور فاتحہ پڑھتے ہیں۔‘

حکیم صاحب کی قبر پر چند سوکھے گلابوں کیا پتیاں اور پھول بکھرے پڑے ہیں۔

فوزیہ کہتی ہیں کہ ’کوئی مشہور شخص یا حکیم صاحب کے خاندان کا کوئی فرد فاتحہ کے لیے قبر پر نہیں آتا۔‘

تاہم اس الزام کو حکیم صاحب کے پڑپوتے اور سپریم کورٹ کے وکیل منیب احمد خان نے مسترد کر دیا ہے۔

وہ کہتے ہیں: ’میں حکیم صاحب کے یوم پیدائش (11 فروری) پر اپنے بھائی اور خاندان کے افراد کے ساتھ قبر پر ضرور آتا ہوں۔ یہ کمپاؤنڈ ہمارے خاندان کا تھا۔ ہمارے بزرگ یہاں دفن ہیں لیکن اب اس پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔‘

ان کا اشارہ اس عورت کی طرف تھا جو حکیم صاحب کی قبر کی حفاظت کا دعویٰ کر رہی تھی۔

جب گاندھی جی حکیم صاحب سے ملے

ایم کے گاندھی
Getty Images

منیب احمد خان دہلی کے مشہور لال کوان میں شریف منزل نام کی اسی حویلی میں رہتے ہیں جو حکیم صاحب کا گھر ہوا کرتا تھا۔

گاندھی جی اور کستوربا گاندھی 13 اپریل 1915 کو اُن کی اسی رہائش گاہ پر حکیم صاحب سے ملنے آئے تھے۔ گاندھی جی پہلی بار 12 اپریل 1915 کو دہلی آئے اور کشمیری گیٹ پر واقع سینٹ سٹیفن کالج میں ٹھہرے۔

حکیم صاحب 14 اپریل کو گاندھی جی اور کستوربا گاندھی کو لال قلعہ اور قطب مینار کی سیر کے لیے دہلی لے گئے تھے۔ وہ سب اس وقت گھوڑا گاڑی پر سوار ہو کر ان تاریخی مقامات کو دیکھنے گئے ہوں گے۔ حکیم صاحب نے یہاں گاندھی جی کے لیے ویشنو (ہندو عقیدے کا خالص سبزی والا کھانا) کھانے کا انتظام کیا تھا۔

دہلی کے مؤرخ آر وی اسمتھ نے لکھا ہے کہ ’دین بندھو اور سی ایف اینڈریوز نے دہلی میں گاندھی جی کی حکیم اجمل خان سے ملاقات کروائی۔ حکم صاحب گاندھی جی سے عمر میں چھ سال بڑے تھے۔ ان کے کہنے پر گاندھی جی سینٹ سٹیفن کالج میں رہے۔ سی ایف اینڈریوز سینٹ سٹیفن کالج میں پڑھاتے تھے اور دہلی برادر ہڈ سوسائٹی سے وابستہ تھے۔‘

’چہرے سے مرض کی تشخیص کر لیتے تھے‘

حکیم عبدالحمید نے ہند و پاک کا معروف ’ہمدرد دواخانہ‘ اور جامعہ ہمدرد یونیورسٹی قائم کی۔ انھوں نے راقم الحروف کو سنہ 1995 میں اپنے کوٹلیہ مارگ والے گھر میں بتایا کہ حکیم اجمل خان صاحب کے پاس عورتوں کے حیض اور مرگی وغیرہ کے لیے بے مثال دوائیں تھیں۔ انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ حکیم اجمل کی دوائیں کھا کر نواب رام پور کی بیگم بسترِ مرگ سے اٹھ گئیں جس کے بعد وہ نو سال تک نواب آف رام پور کے حکیم رہے۔‘

حکیم صاحب کی موت بھی رام پور میں ہوئی۔ دہلی کے بہت سے بوڑھے لوگ دعویٰ کرتے تھے کہ انھیں طب کی دنیا میں ملکہ اور خاصہ حاصل تھا اور وہ اپنے کام میں اتنے ماہر تھے کہ مریض کی کسی بھی بیماری کو اس کا چہرے دیکھ کر ہی معلوم کر لیتے تھے۔

طبیہ کالج کس کی خواہش پر کھولا گیا؟

پہلی ملاقات کے بعد گاندھی جی اور حکیم اجمل خان کے درمیان گہرا تعلق پیدا ہو گیا۔ گاندھی جی نے خود حکیم اجمل خان کو مشورہ دیا کہ وہ دہلی میں ایک بڑا ہسپتال قائم کریں تاکہ یہاں کی آبادی کو فائدہ ہو۔ اس وقت تک حکیم صاحب صرف لال کنواں سے پریکٹس کرتے تھے۔

انھوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ لال کنواں چھوڑ کر باہر مریضوں کو دیکھیں گے۔ انھیں گاندھی جی کا مشورہ پسند آیا۔ اس کے بعد قرول باغ میں ایک نئے ہسپتال اور کالج کے لیے زمین دیکھی گئی۔ جب زمین مل گئی تو حکیم صاحب نے گاندھی جی کو 13 فروری 1921 کو طبیہ کالج اور ہسپتال کا افتتاح کرنے کے لیے مدعو کیا۔

شریف منزل کتنی پرانی ہے؟

حکیم صاحب کی آبائی حویلی شریف منزل سنہ 2020 میں اپنا 300 سال کا سفر مکمل کر چکی ہے۔ اس کی تعمیر سنہ 1720 میں ہوئی تھی۔ شریف منزل کو دہلی کے قدیم ترین آباد مکانات میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ اب حکیم اجمل خان کے پڑپوتے حکیم مسرور احمد خان اپنے خاندان کے ساتھ وہاں رہتے ہیں۔

حکیم اجمل خاں نے ہندوستان کی آزادی کی لڑائی اور عدم تعاون کی تحریک میں گاندھی کا ساتھ دیا تھا۔ وہ انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بھی منتخب ہوئے اور 1921 میں احمد آباد میں منعقدہ کانگریس کے اجلاس کی صدارت کی۔ حکیم صاحب کانگریس کے صدر بننے والے پانچویں مسلمان تھے۔ اس سے پہلے وہ 1919 میں مسلم لیگ کے صدر بھی رہے تھے۔ انھوں نے 1906 میں ڈھاکہ میں منعقد ہونے والی مسلم لیگ کی پہلی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی۔

وہ سنہ 1920 میں آل انڈیا خلافت کمیٹی کے چیئرمین رہے۔ واضح رہے کہ خلافت کمیٹی ترکی میں خلافت کی بحالی کے لیے قائم کی گئی تھی۔ دہلی حکومت کی ویب سائٹ میں بتایا گیا ہے کہ وہ ہندو مہاسبھا کے صدر بھی تھے۔

اردو شاعر مرزا غالب کس کے کرایہ دار تھے؟

غالب کی حویلی
Getty Images
غالب کی حویلی

مرزا غالب کی یادگار حویلی شریف منزل سے دو منٹ کے فاصلے پر ہے۔ مرزا غالب کا اپنا گھر کبھی نہیں تھا۔ وہ کرائے کے مکانوں میں رہتے رہے۔ لیکن انھوں نے اپنی زندگی کے آخری چھ سال اسی گھر میں گزارے جو حکیم اجمل خان کے والد حکیم غلام محمود خان نے انھیں کرائے پر دیا تھا۔

غالب سے کرایہ برائے نام لیا جاتا تھا۔ جس جگہ غالب کی یادگار بنائی گئی ہے، وہ حکیم صاحب کے والد کی تھی۔

آر وی سمتھ کہتے ہیں کہ حکیم صاحب کی پہل پر ادیوگ بھون سے متصل سنہری مسجد کو سنہ 1920 میں دوبارہ تیار کیا گیا۔

واضح رہے کہ حال ہی میں سنہری مسجد اس لیے خبروں میں تھی کہ نئی دہلی میونسپل کونسل (این ڈی ایم سی) اسے یہاں سے ہٹانا چاہتی تھی۔ اس کا دعویٰ ہے کہ یہ سڑک کے درمیان گول چکر میں واقع ہے۔ ایک زمانے میں اس چکر کو ’حکیم جی کا باغ‘ کہا جاتا تھا۔ سنہری مسجد اس چھوٹے سے باغ میں تھی ہے۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کا قیام

جامعہ ملیہ اسلامیہ
Getty Images
گذشتہ سال جامعہ ملیہ اسلامیہ کے یوم تاسیس کے موقعے پر وائس چانسلر نجمہ اختر اور معروف اداکارہ شرمیلا ٹیگور

حکیم اجمل خان دہلی کی معروف یونیورسٹی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ 22 نومبر 1920 کو اس کے پہلے چانسلر منتخب ہوئے اور 1927 میں اپنی موت تک اس عہدے پر فائز رہے۔

اس عرصے کے دوران انھوں نے یونیورسٹی کو علی گڑھ سے دہلی منتقل کروایا اور معاشی اور دیگر بحرانوں کے دوران بڑے پیمانے پر فنڈز اکٹھا کر کے اور اکثر اپنے ذاتی پیسہ سے اس کی مدد کی۔

جامعہ ملیہ اسلامیہ کے ہندی شعبہ میں پروفیسر آصف عمر کا کہنا ہے کہ جامعہ گاندھی جی کے آشیرواد سے قائم ہوئی تھی۔

نوآبادیاتی حکومت کے حمایت یافتہ یا چلائے جانے والے تمام تعلیمی اداروں کا بائیکاٹ کرنے کی گاندھی جی کی کال کے بعد، قوم پرست اساتذہ اور طلبا کے ایک گروپ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو برطانوی خواہشات کے خلاف احتجاجاً چھوڑ دیا۔

اس تحریک کے ارکان میں حکیم اجمل خان، ڈاکٹر مختار احمد انصاری اور عبدالمجید خواجہ کے نام نمایاں ہیں۔

جامعہ علی گڑھ سے قرول باغ منتقل اور پریم چند

حکیم اجمل خان نے سنہ 1925 میں جامعہ کو علی گڑھ سے قرول باغ دہلی منتقل کیا۔ اب جامعہ ملیہ کا اپنا کیمپس ہے جو جنوبی دہلی کے اوکھلا گاؤں کے پاس واقع ہے اور اب اس پورے علاقے کو جامعہ نگر کہا جاتا ہے۔

کرول باغ والے کیمپس میں منشی پریم چند نے اپنی موت سے ٹھیک پہلے اپنی آخری کہانی ’کفن‘ لکھی۔

حکیم اجمل خان نے ابتدائی دور میں جامعہ کے زیادہ تر اخراجات اپنی جیب سے برداشت کیے تھے۔

حکیم اجمل خان کے مقبرے کا بُرا حال دیکھ کر یقیناً یہ گمان ہوتا ہے کہ دہلی والے اس شخص کو بھول گئے ہیں جس نے دہلی میں طبیہ کالج اور جامعہ ملیہ جیسی یونیورسٹیاں قائمکیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.