ختنے کرنے کے دوران 10 سالہ لڑکے کی موت: کیا بچوں کو اینستھیزیا دینا خطرناک ہو سکتا ہے؟

احناف تحمید نامی لڑکے کو منگل کی رات ختنے کروانے کے لیے ہسپتال لایا گیا تھا اور اہلِخانہ کا الزام ہے کہ بچے کی موت اس بغیر اجازت ’مکمل طور پر بے ہوش‘ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔

بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے ایک نجی ہسپتال میں ختنے کروانے کے دوران ایک دس سالہ لڑکے کی موت کا واقعہ پیش آیا ہے۔

احناف تحمید نامی لڑکے کو منگل کی رات ختنے کروانے کے لیے ہسپتال لایا گیا تھا اور اہلِخانہ کا الزام ہے کہ بچے کی موت اس بغیر اجازت ’مکمل طور پر بے ہوش‘ کرنے کی وجہ سے ہوئی۔

ڈیڑھ ماہ قبل ایک اور بچہ آیان احمد بھی ختنے کے دوران وفات پا گیا تھا اور اس کے اہلخانہ نے بھی اس کی شکایت کی تھی۔

گذشتہ کئی دہائیوں سے بنگلہ دیش میں بے ہوش کیے بغیر حجام ختنے کرتے رہے ہیں تاہم حالیہ عرصے میں ماہر ڈاکٹروں کے ذریعے سرجیکل ختنہ کروانے کا رواج بڑھ گیا ہے۔

لیکن ختنے کے دوران بے ہوشی کتنی ضروری ہے؟ اور کیا یہ خطرناک ہو سکتی ہے؟

ڈھاکہ میڈیکل کالج اور ہسپتال کے سابق اینستھیزیا ماہر ڈاکٹر شاہ عالم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ بچے کے ہموار اور محفوظ ختنے کے لیے اینستھیزیا کی ضرورت ہے۔

’لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس بات کا تعیّن کیا جائے کہ اس معاملے میں کس قسم کے اینستھیزیا کی ضرورت ہے۔‘

ڈاکٹر شاہ عالم نے کہا کہ اگر مناسب جسمانی معائنہ کیے بغیر غلط وقت پر غلط اینستھیزیا دیا جائے تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

بچے کے والد فخر العالم نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ دس سالہ احناف تہمد کو منگل کی رات تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ڈھاکہ کے مالی باغ چودھری پاڑہ میں جے ایس ڈائیگنوسٹک اینڈ میڈیکل چیک اپ سنٹر میں ختنے کے مقصد سے لے جایا گیا۔

ختنے کرنے کا عمل ساڑھے آٹھ بجے ختم ہو گیا لیکن ایک گھنٹے کے بعد بھی بچہ ہوش میں نہیں آیا۔ اس پر فخر العام پریشان ہو گئے۔

انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ ’میں نے ان سے بار بار پوچھا کہ کیا میرے بیٹے کو کوئی مسئلہ ہے؟ لیکن انھوں نے کوئی سنجیدہ جواب نہیں دیا اور کہا کہ تھوڑی دیر میں ہوش میں آ جائے گا۔‘

دس بجے کے قریب مسٹر عالم کو بتایا گیا کہ ان کے بیٹے کی حالت بگڑ رہی ہے۔

’پھر انھوں نے مجھے بتایا کہ لڑکے کو فوری طور پر دوسرے ہسپتال کے آئی سی یو میں لے جانے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ ان کے پاس آئی سی یو نہیں۔‘

انھوں نے اپنے بیٹے کو آئی سی یو میں لے جانے کے لیے قریبی نجی ہسپتال سے رابطہ کیا۔

رات 10:30 بجے کے قریب اس ہسپتال سے ایمبولینس بھی آئی لیکن تب تک تحمید کو مردہ قرار دے دیا گیا تھا۔

مسٹر عالم نے الزام لگایا کہ ان کے بیٹے کو بغیر اجازت کے ’مکمل اینستھیزیا‘ دیا گیا۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ دن پہلے میں نے سنا تھا کہ ایک لڑکا ’مکمل بے ہوشی‘ کی وجہ سے مر گیاتھا۔ اسی جب میں اپنے بیٹے کو ہسپتال لے کر گیا تو میں نے ڈاکٹر کے ہاتھ پکڑے اور ان سے درخواست کی کہ وہ میرے بیٹے کو مکمل اینستھیزیا نہ دیں۔‘

’انھوں نے میری ایک نہ سنی اور میرے صحت مند بیٹے کو مار ڈالا۔‘

واقعے کے بعد بچے کے اہلخانہ نے منگل کی رات ہاتھیرجھیل تھانے میں مقدمہ درج کروایا جس میں ہسپتال کے مالک اور ڈیوٹی پر موجود ڈاکٹروں کے نام درج کیے گئے۔

فخر العالم نے کہا کہ ’میں چاہتا ہوں کہ اس واقعے کا منصفانہ فیصلہ کیا جائے۔ مجرموں کو عبرت ناک سزا دی جائے تاکہ ایسے واقعات دوبارہ نہ ہوں۔‘

احناف تہمد ڈھاکہ کے موتی جھیل آئیڈیل سکول میں کلاس چہارم کا طالب علم تھا۔

اس کا خاندان پہلے ڈنمارک میں رہتا تھا۔ تہمد دس سال پہلے وہیں پیدا ہوا تھا۔ سنہ 2017 میں تاجر فخر عالم اپنی اہلیہ اور بچوں کے ساتھ وطن واپس آئے تھے۔

scalpel
Getty Images

اینستھیزیا کب خطرناک ہے؟

ایک وقت تھا جب بے ہوشی کے بغیر سرجری کی جاتی تھی لیکن یہ وقت کے ساتھ بدل دیا گیا ہے۔

جدید طبی نظام میں ڈاکٹر انسانی جسم پر کسی بھی قسم کی چھوٹی یا بڑی سرجری کرنے سے پہلے اینستھیزیا دیتے ہیں۔

اینستھیزیا جسم یا اس کے کسی بھی حصے کو بے حس کر دیتا ہے، اس لیے مریض کو آپریشن کے دوران کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔

ڈھاکہ میڈیکل کالج اور ہسپتال کے سابق اینستھیزیولجسٹ شاہ عالم نے بی بی سی بنگلہ سے کہا کہ یہ بغیر کسی پریشانی کے کیا جا سکتا ہے۔‘

’اینستھیزیا کی کئی قسمیں ہیں۔ مثال کے طور پر جب جسم کے کسی خاص حصے پر معمولی سرجری کی جاتی ہے تو صرف وہی حصہ مفلوج ہوتا ہے۔ یہ ’لوکل اینستھیزیا‘ کے نام سے مشہور ہے۔‘

انھوں نے بتایا کہ ’بڑی سرجری سے پہلے پورا جسم اکثر مفلوج ہو جاتا ہے۔ ان صورتوں میں مریض غنودگی کی حالت میں چلا جاتا ہے اور ایک خاص مدت کے بعد دوبارہ بیدار ہو جاتا ہے۔

’کسی بھی اینستھیزیا کو دینے سے پہلے چاہے وہ کتنا ہی بڑا ہو یا چھوٹا، مریض کو خون، دل کی دھڑکن سمیت مختلف چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے کئی صحت کے ٹیسٹ کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’بنیادی طور پر یہ ٹیسٹ مریض کی جسمانی حالت کے بارے میں اندازہ لگانے کے لیے کیے جاتے ہیں۔ اس سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ اس کے لیے کس قسم کا اینستھیزیا محفوظ رہے گی۔‘

اس لیے اگر کسی قسم کے معائنے کے بغیر جسم پر بے ہوشی کی دوا لگائی جائے تو مریض کی جان کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے، یہاں تک کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر شاہ عالم نے مشورہ دیا کہ جن لوگوں کو بخار، نزلہ، کھانسی، سانس لینے میں تکلیف، سینے کی بیماری یا دل کا عارضہ ہو تو انھیں بے ہوشی کی دوا نہیں دینی چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ ’ایسے معاملات میں اینستھیزیا کا انتظام کرنا محفوظ نہیں ہے۔ اس صورت میں، ماہر ڈاکٹر کے مشورے سے، صحتیاب ہونے یا بیماری پر قابو پانے کے بعد سرجری کی جا سکتی ہے۔‘

ot
Getty Images
file photo

عضو تناسل پر موجود جھلی کا بائیولوجیکل کام کیا ہے اور جب اسے کاٹا جاتا ہے تو کیا ہوتا ہے؟

عضوِ تناسل کے آخری حصے سے باریک جھلی کو اتار دینے کی روایت کو ختنہ کہا جاتا ہے اور اس کی شروعات مذاہب سے بھی پہلے ہوئی تھی۔

یہ باریک جھلی عضو تناسل کی نرم جلد کا وہ حصہ ہے جو اس عضو کے اختتامی حصے پر ہوتی ہے۔ عضو تناسل پر موجود باقی جلد اس عضو سے مضبوطی سے جڑی ہوئی ہوتی ہے۔

اس نرم جلد کی اندرونی سطح چکنی ہوتی ہے بلکہ ویسے ہی جیسے ہمارے منھ کے اندر کی جلد یا خواتین میں اندام نہانی کی اندرونی جلد۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے امریکن کنفیڈریشن آف یورولوجی سے تعلق رکھنے والی یورولوجسٹ اینا ماریا اوٹران بتاتی ہیں کہ ’اس نرم جلد کا بنیادی کام عضو تناسل کے اختتامی حصے کو ڈھانپنا یعنی کوور فراہم کرنا ہے۔‘

ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اس جلد کا کچھ مدافعتی فعل بھی ہو سکتا ہے کیونکہ عضوتناسل کا آخری حصہ انتہائی حسّاس ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ختنہ ہونے کے بعد کے ابتدائی دنوں میں اس حصے پر ہوا یا لباس کا لمس محسوس ہونے سے بھی تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ تاہم وقت گزرنے کے ساتھ یہ جگہ کسی حد تک سخت ہو جاتی ہے اور زیادہ تر حساسیت کھو دیتی ہے۔

ختنہ (سرجری) عام طور پر دو طریقوں سے کی جاتی ہے: روایتی طریقے سے یعنی نرم جلد کو سکیلپل (جراحی میں انسانی جسم پر کٹ لگانے والا آلہ جس کے آخر میں بلیڈ لگا ہوتا ہے) کی مدد سے کاٹنا، یا سٹیپل گن کے ذریعے۔ بڑی عمر کے لڑکوں یا مردوں میں ختنہ کے عمل سے پہلے لوکل اینستھیزیا بھی استعمال کیا جاتا ہے تاکہ زیادہ تکلیف کا احساس نہ ہو۔

ختنہ کب کیا جائے؟

مذہبی وجوہات کو ایک طرف چھوڑ کر فقط صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو اس سوال کے بہت سے جواب ہیں۔

ایک طرف امریکہ میں اکثریتی ڈاکٹروں کا موقف ہے کہ بچے کی پیدائش کے فوراً بعد ہی اس کے ختنہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق ’نوزائیدہ لڑکوں کے ختنے کرنے میں صحت کے فوائد اس سے منسلک خطرات سے کہیں زیادہ ہیں۔‘

امریکن اکیڈمی آف پیڈیاٹرکس کے مطابق ختنے کرنا پیشاب کی نالی کے انفیکشن، عضو تناسل کے کینسر اور ایڈز سمیت جنسی طور پر منتقل ہونے والی بعض بیماریوں کے پھیلاؤ کی روک تھام میں مدد کرتا ہے۔

ان کے مطابق ’نوزائیدہ بچوں کے ختنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی طبی پیچیدگیاں بڑی عمر میں کی جانے والی پیچیدگیوں کے مقابلے میں کافی کم ہوتی ہیں۔‘

ختنے کے لیے عمر کے تعین کے بار ے میں اس تنظیم کی حتمی رائے یہ ہے کہ ’یہ ایک ایسا فیصلہ ہے جو والدین ڈاکٹر کے مشورے اور رہنمائی کی مدد سے کرنا ہوتا ہے۔‘

رائل ڈچ میڈیکل ایسوسی ایشن کی رائے اس کے برعکس ہے جس کا کہنا ہے کہ نوزائیدہ لڑکوں کے ختنہ نہیں کیے جانے چاہیں کیونکہ ’اس بات کا کوئی بڑا ثبوت نہیں ہے کہ نوزائیدہ بچوں کے ختنہ کرنا حفظان صحت کے لحاظ سے مفید یا ضروری ہے ماسوائے ان حالات میں جہاں یہ طبی وجوہات کی بنا پر ضروری ہو۔‘

اس تنظیم کا کہنا ہے کہ ’بڑے پیمانے پر قابل قبول رائے کے برعکس ختنے میں طبی اور نفسیاتی پیچیدگیوں کا خطرہ ہوتا ہے۔ سب سے عام پیچیدگیوں میں خون بہنا، انفیکشن، میٹل سٹیناسس (پیشاب کی نالی کا تنگ ہونا) اور پینک اٹیکس کا ہونا ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.