سمیع چوہدری کا کالم: کہنے کو یہ کنگز ہیں مگر۔۔۔۔

’شیکسپیئر نے جو کہا تھا کہ ’نام میں کیا رکھا ہے‘ تو کراچی کنگز بھی نہ صرف شیکسپیئر کے اس مقولے کی لاج نبھا رہے ہیں بلکہ بڑھ چڑھ کر اس کی حقانیت ثابت کرنے پہ تُلے ہیں۔ ‘
شان مسعود
Getty Images

رواں پی ایس ایل پاکستان کرکٹ کے لیے ستم ظریفی کا سامان رہی ہے کہ دونوں فارمیٹس کے کپتانوں کی ٹیمیں ٹیبل کے نچلے خانوں میں لڑھک رہی ہیں اور دونوں کپتانوں کی اپنی فارم بھی دگرگوں ہوئی جاتی ہے۔

قلندرز اپنی حالیہ فارم سے ماضی کے ناگفتہ بہ سیزنزکی یادیں تازہ کر رہے ہیں جبکہ کنگز اپنے گزشتہ سیزن کے عین مطابق ابھی تک ناقص فیصلہ سازی اور ابتر فارم کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔

شیکسپیئر نے جو کہا تھا کہ ’نام میں کیا رکھا ہے‘ تو کراچی کنگز بھی نہ صرف شیکسپیئر کے اس مقولے کی لاج نبھا رہے ہیں بلکہ بڑھ چڑھ کر اس کی حقانیت ثابت کرنے پہ تُلے ہیں۔

گو کہنے کو یہ کنگز ہیں مگر ان ’بادشاہوں‘ کی پرفارمنس بھی مغل بادشاہت کے اختتامی دنوں کی یاد دلا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ اگر حالات میں کوئی بڑی کایا کلپ نہ ہوئی تو کنگز ایک اور ایڈیشن کے فائنل فور کی دوڑ سے محروم رہ جائیں گے۔

پہلے ہی میچ میں ملتان سلطانز سے شکست کا مارجن اس قدر بھاری رہا کہ اب رن ریٹ کراچی کنگز کے لیے ایک الگ دقت بن چکا ہے۔ اب نہ صرف باقی ماندہ میچز جیتنے ضروری ہو رہے ہیں بلکہ فتوحات میں کچھ ایسا مارجن بھی درکار ہو گا جو ٹیبل میں کراچی کی پوزیشن کچھ بہتر کر سکے اور وہ سیزن کے آخری مرحلے تک رسائی حاصل کر پائیں۔

بیٹنگ میں حد درجہ پرانے اور آزمودہ مہروں پہ انحصار کراچی کو بھاری پڑا ہے۔

شعیب ملک گو ربع صدی سے کھیل رہے ہیں اور یہ ان کی صحت مندی کی دلیل تو ہو سکتی ہے مگر عظمت کا ثبوت قطعاً نہیں ہے کہ حالیہ سیزن بھی ان کی مجموعی کارکردگی اوسط ہی رہی ہے۔

جیمز ونس بھی تاحال کوئی ایسی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے ہیں جو شان مسعود کی پریشانیاں کم کر پائے۔ خود شان بھی بطور قائد اپنی ٹیم کے لیے کوئی مثالی کارکردگی دکھانے میں ناکام رہے ہیں۔

ان حالات میں سارا بوجھ آن کر کائرن پولارڈ پہ گر پڑتا ہے جو بذاتِ خود اپنے کرئیر کے اختتام پر ہیں اور اگرچہ حالیہ میچز میں عرفان نیازی کے ہمراہ ساجھے داری سے انھوں نے کراچی کے سکور بورڈز کا کچھ بھرم تو بحال کیا ہے مگر فتح کے حصول میں وہ ناکافی رہا ہے۔

بجائے خود یہ پی ایس ایل کے لیے بھی کوئی نیک شگون نہیں کہ لاہور اور کراچی جیسی دو بڑی فرنچائزز ٹیبل کے پست ترین خانوں میں گری پڑی ہیں۔ چونکہ پاکستان کی بیشتر قومی کرکٹ بھی ان دونوں شہروں کی باہمی ساجھے داری اور رقابت کے بل پہ چلتی ہے سو ان دونوں کی حالیہ کارکردگی نے پی ایس ایل کے رواں سیزن کی رونقیں بھی گہنا دی ہیں۔

karachi
Getty Images

اگرچہ کنگز نے ملتان سلطانز کے سابقہ سٹریٹیجی ڈائریکٹر حیدر اظہر کی خدمات حاصل کر کے اپنی قسمت بدلنے کی کوشش کی ہے مگر تاحال یہ کوشش بھی ثمر آور نہیں ہو پائی کیونکہ نصف سیزن کھیل جانے کے بعد بھی کنگز اپنی بہترین الیون طے نہیں کر پائے۔

گو سیکھنے کو ملتان سلطانز کی مثال ہی مشعلِ راہ ہو سکتی ہے کہ بہت بڑے ناموں کے بغیر اس فرنچائز نے خالصتاً کارکردگی کے بل پہ ایک موثر کمبینیشن تشکیل دیا ہے جسے محمد رضوان جیسے زیرک دماغ اور متحمل مزاج کپتان کی سرپرستی میسر ہے۔

زلمی اوائل کی مشکلات کے بعد اب نسبتاً بہتر شکل میں ٹائٹل کے لیے دوڑ رہی ہے اور بابر اعظم و صائم ایوب کی زریں فارم بھی نہ صرف اپنی فرنچائز بلکہ پاکستان کے لیے بھی نیک شگون ہے کہ دو ماہ بعد کے ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں یہ پاکستان کے لیے ایک اثاثہ ثابت ہو سکتے ہیں۔

یونائیٹڈ نے شروع کے بے تحاشہ تجربات کے بعد پچھلے میچ میں کامیابی حاصل کر کے اپنے جمود کو توڑا ہے لیکن اگر شاداب خان اپنی قیادت میں پہلے ٹائٹل کی جیت پہ مرکوز ہیں تو سلیکشن میں تسلسل کے علاوہ کولن منرو کی فارم بھی کلیدی اہمیت کی حامل ہو گی۔

اُدھر قلندرز کا قصہ تو اب لگ بھگ تمام ہوا چاہتا ہے کہ اگر کوئی بہت بڑی انہونی نہ ہوئی تو ان کے لیے ٹیبل کے پست ترین خانے سے نکل پانا ہی غنیمت ہو گا۔ لیکنکراچی کے ابھی پانچ میچز باقی ہیں اور اگر بہتر کمبینیشن کے ساتھ ساتھ شان مسعود کی اپنی بیٹنگ فارم میں بھی بہتری آ گئی تو کنگز کی کایا پلٹ بھی سکتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.