برہنہ، تنہا اور کھانے کو صرف کتے کا کھانا: متنازع ٹی وی شو جسے دیکھنے کو لاکھوں بے قرار رہتے تھے

سنہ 1998 میں ایک ریئیلٹی ٹی وی شو کے لیے چیلنج کے طور پر ایک جاپانی شخص کو برہنہ کر کے تقریباً خالی اپارٹمنٹ میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔

سنہ 1998 میں ایک ریئیلٹی ٹی وی شو کے لیے چیلنج کے طور پر ایک جاپانی شخص کو برہنہ کر کے تقریباً خالی اپارٹمنٹ میں اکیلا چھوڑ دیا گیا تھا۔

توموکی ہماتسو، جنھیں ’ناسوبی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے، کے پاس صرف ایک قلم، کچھ خالی پوسٹ کارڈز، ایک ٹیلی فون اور میگزین سے بھرا ریک بچا تھا۔

لیکن وہ اس اپارٹمنٹ میں پڑھنے کے لیے موجود نہیں تھے۔ شو کا تصور یہ دیکھنا تھا کہ کیا کوئی انسان صرف انعام جیتنے کے لیے یہ سب کر سکتا ہے۔

اس چیلنج کو جیتنے کے لیے انھوں نے جو انعامات جیتے تھے ان کی مالیت کو ایک خاص حد تک پہنچنا تھا یعنی 10 لاکھ یین تک۔ جو اُس وقت تقریباً چھ ہزار پاؤنڈز بنتے تھے۔

بھوک اور تنہائی کی وجہ سے آہستہ آہستہ وہ ڈپریشن میں مبتلا ہونے کے بعد 15 ماہ تک غائب رہے اور منظرِ عام پر نہیں آئے۔ تقریباً تین دہائیوں کے بعد ان کی آزمائش کو ایک نئی فلم کے ذریعے سامنے لایا جا رہا ہے۔ جسے حال ہی میں شیفیلڈ ڈاکیومنٹری فیسٹیول میں دکھایا گیا۔

’دی کنٹیسٹنٹ‘ کے ڈائریکٹر کلیر ٹائٹلی کا کہنا ہے کہ ’میرے سامنے اُن کی کہانی اُس وقت آئی کہ جب میں ایک اور پروجیکٹ پر کام کر رہا تھا۔ اور بس میں اس میں کھو گیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن میں نے جو کچھ دیکھا تھا وہ مُجھے توہین آمیز لگا۔ نسبی کی کہانی کے بارے میں کبھی تفصیل سے بات نہیں کی گئی تھی۔ میرے ذہن میں بہت سارے سوالات تھے جیسے کہ وہ وہاں کیوں رہے اور اس سب کا اُن پر کیا اثر پڑا۔ اس بنیاد پر میں نے اُن سے رابطہ کیا اور کہا کہ میں ان کے تجربے پر فلم بنانا چاہتا ہوں۔

ناسوبی کا انتخاب ایک اوپن آڈیشن میں کیا گیا تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ان کی فلم بندی کی جا رہی ہے لیکن یہ کہاں نشر ہو گا اس کے بارے میں انھیں ایک مبہم سے وضاحت دی گئی تھی۔ انھیں یہ تاثر دیا گیا تھا کہ شاید اسے نشر نہیں کیا جائے گا۔

حقیقت میں 22 سالہ اداکار آہستہ آہستہ ملک کی سب سے مشہور شخصیات میں سے ایک بننے والے تھے کیونکہ اُن کی اپارٹمنٹ سے تازہ صورتحال ہفتہ وار آنے والے ورائٹی شو ڈینپا شونین کے سب سے مقبول سیگمنٹس میں سے ایک بن گئی تھی۔

ناقدین نے تو اس پروگرام کو تنقید کا نشانہ بنایا مگر یہ نوجوانوں میں بہت زیادہ مقبول ہوا۔

یہ شو دی ٹرومین شو کی ریلیز سے پہلے نشر ہونا شروع ہوا تھا، جس میں ہالی ووڈ کے مشہور مزاحیہ اداکار جم کیری نے ایک ایسے شخص کا کردار ادا کیا تھا جو یہ نہیں جانتا کہ اس کی زندگی کو ٹی وی سیریز کے طور پر نشر کیا جا رہا ہے۔

اور بگ برادر کو نیدرلینڈز میں لانچ ہونے میں ایک اور سال لگے گا، جس سے ٹیلی ویژن کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گا۔

ٹائٹلی کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں لوگوں نے گذشتہ دہائی میں اس کے بارے میں زیادہ سنا ہے، کیونکہ یوٹیوب پر یہ سب سے زیادہ مقبول ہونے والا پروگرام تھا۔‘

لیکن اس وقت اسے جاپان اور جنوبی کوریا سے باہر کبھی نہیں دکھایا گیا تھا اور نہ ہی کسی کا ایسا کرنے کا کوئی ارادہ تھا۔

ناسوبی جنھوں نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا اس چیلنج کے شروع ہونے سے پہلے اس بارے میں بہت کم تفصیلات جانتے تھے۔

وہ بغیر کھڑکی والے کمرے میں بغیر کپڑوں یا بنیادی ضروری اشیا کے رہے تھے، یہاں تک کہ اُن کے پاس ٹوائلٹ پیپر بھی نہیں تھے اور باہر کی دنیا سے ان کا کوئی رابطہ نہیں تھا۔

اس مقابلے میں ناسوبی اور اس سیگمنٹ کے ماسٹر مائنڈ توشیو سوچیا دونوں کے ساتھ نئے انٹرویوز پیش کیے گئے ہیں۔

بڑی حد تک اس ریئیلٹی شوکی کہانی اس کی فوٹیج میں ہی موجود ہے، دستاویزی فلم کے ناظرین نے ناسوبی کو اب بھی اُسی طرح دیکھا کہ جیسے اُس وقت جب اُن کے ٹی وی ناظرین نے انھیں پسند کیا۔

ٹائٹلی کا کہنا ہے کہ انھوں نے اور ان کی ٹیم نے اصل فوٹیج کو بہت توجہ سے دیکھا تاکہ اس میں سے اصل کہانی کے اہم حصوں کو استعمال کیا جا سکے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’تمام فوٹیج کو جاپانی گرافکس میں کور کیا گیا تھا، اس میں جاپانی بیان، ساؤنڈ ایفیکٹس سب تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’لہٰذا ہم نے انگریزی بولنے والے سامعین اور ناظرین کو یہ سمجھنے کا موقع دیا۔‘

ٹیم نے جاپانی گرافکس کو انگریزی تصاویر کے ساتھ پیش کیا اور آڈیو کو زیادہ سے زیادہ درست طریقے سے دوبارہ تخلیق کیا گیا۔

اس کے نتیجے میں بننے والی دستاویزی فلم پہلے ہی امریکہ میں ہولو پر ریلیز کی جا چکی ہے، ناقدین اس کہانی سے اتنے ہی متاثر ہوئے ہیں جتنا کہ وہ ناسوبی کی تکلیف سے مایوس ہیں۔

رولنگ سٹون کے ڈیوڈ فئیر کا کہنا ہے کہ ’یہ ایک میڈیا رجحان، ایک ریئیلٹی ٹی وی سنگ میل اور ایک نفسیاتی ڈراؤنے خواب کی کہانی ہے جو تفریح کے طور پر پیش کیا گیا، یہ ایک قسم کی دستاویزی فلم ہے جس میں آپ جانتے ہیں کہ آپ جو کچھ دیکھ رہے ہیں وہ 100 فیصد سچ ہے۔‘

انڈی وائر کے ڈیوڈ ایرلیچ نے اصل فوٹیج کو ’اس قدر افسوسناک‘ قرار دیا کہ نئی فوٹیج اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔

انھوں نے کہا کہ ’فلم کا کوئی بھی انٹرویو جیسا کہ واضح اور غور طلب ہے، اتنا دلچسپ ثابت نہیں ہوتا جتنا کہ ناسوبی کی تکلیف کی یا اصل ویڈیو ہے۔‘

اُن کا مزید کہنا ہے کہ ’ٹائٹلی کی فلم آخر کار ایک پورے میڈیم پر تبصرہ کرنے سے کم ہے نہ کہ یہ اس میڈیم کے سب سے قابل ذکر کرداروں میں سے ایک کا مطالعہ ہے۔‘

جیسے جیسے شو آگے بڑھتا گیا ناسوبی نے بہت سے مقابلوں میں کامیابی حاصل کی لیکن اس کے جیتنے والے انعامات ہمیشہ زیادہ کام نہیں آتے تھے۔

ان میں ٹائر گالف کی گیند، ایک خیمہ، ایک گلوب، ایک ٹیڈی بیئر اور سپائس ورلڈ: دی مووی کے ٹکٹ شامل تھے۔

یہ حقیقت تھی کہ وہ کمزور ہوتے جا رہے تھے، پروڈیوسر کے لیے کوئی تشویش کی بات نہیں تھی، جن میں سے ایک دستاویزی فلم میں تجویز کرتا ہے کہ اگر ناسوبی نے ایک انعام میں چاول نہیں جیتا تو وہ مر سکتا تھا۔

بعد میں انھوں نے میٹھے مشروبات اور کتے کا کھانا بھی جیتا، جس پر وہ کئی ہفتوں تک زندہ رہے۔

تقریبا 15 ملین ناظرین نے ان کی کامیابی کہ وہ مناظر دیکھے، اور کس طرح انھوں نے زندہ رہنے کی اپنی کوششوں میں ان کا استعمال کیا۔

ناسوبی اس سب کے دوران برہنہ رہے، کیوں کہ انھوں نے کبھی بھی اپنی پہننے کے لیے لباس یا کپڑے نہیں جیتے۔

اپارٹمنٹ کا دروازہ بند نہیں تھا اور ناسوبی کو نظریاتی طور پر کسی بھی وقت جانے کی اجازت تھی۔ تو انھوں نے وہاں سے نکل جانے کا انتخاب کیوں نہیں کیا؟

ٹائٹلی نے کہا ’میرے خیال میں اس کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ ایک یہ کہ وہ بہت خاموش تھے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ فوکیشیما میں کہاں سے آتے ہیں، اور اس کے والدین، جو بہت سخت تھے سب سے مقابلہ کیا۔

ان کا مزید کہنا ہے کہ ’وہ ایک بہت وفادار شخص بھی ہیں۔ وہ مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے تھے، اور وہ بہت معمولی اور سادہ لوح انسان تھا۔ وہ اب بھی ناقابل یقین حد تک اعتماد کرتا ہے اور یہاں جاپانی سمورائی جذبہ بھی ہے کہ ’میں غالب رہوں گا اور میں اس پر قائم رہوں گا۔‘

دکھ اور تکالیف

تقریبا تین دہائیوں کے بعد، ناسوبی نے اس شو کو ’ظالمانہ‘ اور انتہائی تکلیفدہ قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ ’کوئی خوشی نہیں تھی اور کوئی آزادی نہیں تھی۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’شاید میری زندگی میں سے ہفتے میں تین یا پانچ منٹ دکھائے گئے تھے۔ اور جب میں نے انعام جیتا تو میری خوشی کو ظاہر کرنے کے لیے اس میں تبدیلی کی گئی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’یقینا، ناظرین کہیں گے، ’اوہ، دیکھو، وہ کچھ مزے کا کر رہا ہے اور کچھ ایسا کر رہا ہے جس سے وہ لطف اندوز ہو رہا ہے۔۔۔‘ لیکن میری زندگی کا زیادہ تر حصہ تکلیف میں تھا۔

اور پھر بھی، وہ دستاویزی فلم میں اس تجربے کے بارے میں اتنے تلخ نہیں ہیں، اور ٹائٹلی کا کہنا ہے کہ ان کا تاثر یہ تھا کہ ’وہ اب اتنی مثبت جگہ پر ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’جب لوگوں نے ان سے پوچھا کہ کیا انھیں اس پر افسوس ہے، تو وہ ہمیشہ کہتے ہیں کہ اگرچہ وہ دوبارہ ایسا نہیں کرنا چاہیں گے، لیکن وہ شخص نہیں ہوں گے جو وہ دوسری صورت میں ہیں۔‘

ناسوبی کو آخر کار مائیکل میک انٹائر طرز کے سٹنٹ کے ذریعے رہا کیا گیا، جس میں انھیں دیواریں گرنے سے پہلے ایک نئے جعلی کمرے میں لے جایا گیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ وہ اصل میں سٹیج پر براہ راست سامعین کے سامنے اپنے نام کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے۔

دستاویزی فلم میں ناسوبی کی رہائی کے بعد ان کی حوصلہ افزائی بھی کی گئی، جس میں ان کی نئی شہرت کو اچھے مقاصد کے لئے استعمال کرنے کی ان کی کوششوں کو دکھایا گیا ہے۔

ٹائٹلی کا کہنا ہے کہ ناسوبی نے محسوس کیا کہ ان کی کہانی پر دوبارہ غور کرنے کا وقت صحیح تھا، انھوں نے مزید کہا کہ ’جو کچھ ہوا تھا اس سے شاید انھیں کچھ سکون ملا تھا۔‘

1990 کی دہائی میں دیکھ بھال کے طریقوں کی ذمہ داری وہ نہیں ہے جو وہ آج ہیں اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ناظرین اب اس طرح کے فارمیٹ کے لئے کھڑے ہوں گے۔

لیکن دستاویزی فلم میں یہ سوالات اٹھائے گئے ہیں کہ جب تفریح کی بات آتی ہے تو لکیر کہاں کھینچی جائے اور ناظرین کی بھوک کو کتنا قصور وار ٹھہرایا جائے۔

ٹائٹلی کا کہنا ہے کہ ’میں چاہتی ہوں کہ لوگ سوشل میڈیا اور رئیلٹی ٹیلی ویژن کے ساتھ اپنے تعلقات پر غور کریں اور ناظرین اور صارفین کی حیثیت سے ہم سب کس قدر شریک ہیں۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.