کیا اسرائیل رفح میں فوجی کارروائیاں روکنے سے متعلق عالمی عدالتِ انصاف کے احکامات پر عمل کرے گا؟

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے جمعے کے روز اسرائیل کو جو اہم احکامات جاری کیے گئے ہیں اُن میں رفح میں آپریشن فوری طور پر روکنے، مصر کی جانب رفح کی اہم راہداری کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کھولنا اور غزہ میں حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے تفتیش کاروں کو مکمل رسائی فراہم کرنا شامل ہیں لیکن کیا اسرائیل ان پر عمل کرے گا؟
rafah
Getty Images

یہ وہ نتیجہ تھا جس سے اسرائیل بچنا چاہتا تھا، فوجی آپریشن روکنے کا مطالبہ جسے حکومت حماس کی شکست اور یرغمالیوں کی واپسی کے لیے ضروری سمجھتی ہے۔ تاہم عالمی عدالت انصاف (آئی سی جے) کے جمعے کے فیصلے کے نتیجے میں اسرائیل کا اپنا رویہ تبدیل کرنے کے فوری طور پر کوئی اشارے نہیں ملے ہیں۔

اس کے ٹینک رفح کے مرکز کے قریب پہنچ رہے ہیں اور جب یہ فیصلہ پڑھ کر سنایا جا رہا تھا، فضائی حملوں کے ایک سلسلے کے بعد رفح پر ایک بہت بڑا سیاہ بادل چھا گیا۔

اسرائیلی وزیر اعظم بینامن نتن یاہو کے بعض سخت گیر ساتھیوں نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے عدالت پر یہود دشمنی اور حماس کا ساتھ دینے کا الزام عائد کیا ہے۔

حکومت کے سابق ترجمان ایلون لیوی نے کہا کہ پریزائیڈنگ جج نواف سلام لبنانی ہیں اور اگر انھوں نے ’غلط ‘ فیصلہ سنایا تو وہ بحفاظت وطن واپس نہیں آ سکتے۔

خیال رہے کہ جنوبی افریقہ کی جانب سے غزہ میں جنگ کے دوران نسل کُشی کے الزامات اور رفح میں جارحیت کو ہنگامی بنیادوں پر روکنے کے معاملے پر عالمی عدالتِ انصاف نے جمعے کو اسرائیل کو حکم دیا کہ اسے رفح میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری طور پر روکنا ہوں گی۔

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے جمعے کے روز اسرائیل کو جو اہم احکامات جاری کیے گئے ہیں اُن میں رفح میں آپریشن فوری طور پر روکنے، مصر کی جانب رفح کی اہم راہداری کو انسانی امداد کی فراہمی کے لیے کھولنا اور غزہ میں حقائق کی جانچ پڑتال کے لیے تفتیش کاروں کو مکمل رسائی فراہم کرنا شامل ہیں۔

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ ایک ماہ کے اندر اندر وہ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کر کے عدالت کو اس بارے میں آگاہ کرے۔

عالمی عدالتِ انصاف کی جانب سے اسرائیل کو رفح میں فوری طور پر فوجی کارروائی روکنے کے حکم کے بعد بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر کا کہنا تھا کہ ’دنیا کی کوئی طاقت ہمیں عوامی طور پر خودکشی کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی کیونکہ حماس کے خلاف جنگ روکنے کا مطلب یہی ہے۔‘

دوسری جانب حماس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ ’اسرائیلی کارروائیوں کے خاتمے کا مطالبہ صرف رفح کے لیے ہی نہیں بلکہ پورے غزہ کے لیے ہونا چاہیے۔‘

عالمی عدالتِ انصاف
EPA

رفح غزہ کی پٹی کے لیے ’دفاع کی آخری لائن‘ کی نمائندگی کرتا ہے: جنوبی افریقہ

نتن یاہو کے ناقدین کے لیے یہ اسرائیل کی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی تنہائی کی ایک اور علامت ہے۔

آج سے پہلے بھی تازہ ترین علامات پر غور کریں:

  • نتن یاہو اور ان کے وزیر دفاع کے عالمی فوجداری عدالت سے وارنٹ گرفتاری کا امکان
  • یورپی ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
  • اس بات کے بڑھتے ہوئے ثبوت کہ بائیڈن انتظامیہ اسرائیل کی جانب سے مستقبل کے لیے بامعنی منصوبے میں شامل ہونے سے انکار پر صبر کھو رہی ہے۔

اسرائیل کو اس بات پر مایوسی ہو گی کہ اس کے دلائل آئی سی جے کے ججوں پر اثر انداز نہیں ہوئے۔

اس کا کہنا ہے کہ رفح میں فوج بھیجنے سے پہلے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کافی کوششیں کی گئی ہیں کہ شہریوں کو نقصان سے بچایا جائے۔ اسرائیل کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنا رہا ہے کہ خوراک اور دیگر ضروری سامان غزہ تک پہنچے۔

آٹھ لاکھ سے زائد شہری رفح چھوڑ کر جا چکے ہیں اور اگرچہ یہ سچ ہے کہ تقریباً تین ہفتے قبل رفح حملے کے آغاز کے بعد سے جنوبی غزہ کی پٹی میں بہت کم امداد داخل ہوئی ہے، اسرائیل نے تجارتی سامان کے سینکڑوں ٹرکوں کو داخل ہونے کی اجازت دی ہے، جس کا مطلب ہے کہ علاقے کے کچھ حصوں میں خوراک دستیاب ہے۔

قحط کی بار بار تنبیہ کے باوجود خاص طور پر شمال میں بڑے پیمانے پر بھوک ابھی تک ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ اضافی کراسنگ پوائنٹس کھولنے کی بدولت، شمال میں صورتحال میں کچھ بہتری آ سکتی ہے۔

لیکن ایسا لگتا ہے کہ عدالت اس سے مطمئن نہیں ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی ایک نئی لہر فلسطینی آبادی کی زندگیوں اور فلاح و بہبود کے لیے ایک نئے خطرے کی نمائندگی کرتی ہے، جس کے لیے نئے اقدامات کی ضرورت ہے۔

جنوبی افریقہ نے دلیل دی تھی کہ رفح غزہ کی پٹی کے لیے ’دفاع کی آخری لائن‘ کی نمائندگی کرتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہا اگر رفح کا انجام بھی دوسرے شہروں کی طرح ہوا تو پوری فلسطینی آبادی کو مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جسے عدالت روکنے کی کوشش کر رہی ہے۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ جنوب میں اس کی کارروائی کا مقصد یہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

عالمی عدالتِ انصاف کے موجودہ صدر جج نواف سلام نے اسرائیل کے خلاف جنوبی افریقہ کی جانب سے جمع کروائی جانے والی درخواست پر سماعت کی تھی۔

عالمی عدالتِ انصاف میں دورانِ سماعت جج سلام نے غزہ میں حماس کے زیرِ حراست اسرائیلی یرغمالیوں کی صورتحال کے بارے میں بھی بات کی تھی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’عدالت کو اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی اور اُن کی حفاظت پر گہری تشویش ہے اور عدالت ان کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کرتی ہے۔‘

عالمی عدالتِ انصاف کے جج کا کہنا تھا کہ ’ہمیں یہ بہت پریشان کن لگتا ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی قید میں ہیں۔‘

اسرائیل
Getty Images

رفح کی سٹریٹجک اہمیت کیا ہے؟

یہ غزہ کی جنگ کا آخری محاذ ہے۔ اسرائیلی فوج کی جانب سے رفح میں ابھی تک ایک بہت ہی محدود اور محتاط آپریشن ہے اور تاحال رفح کراسنگ پر انتہائی بڑے پیمانے پر ہونے والا وہ زمینی حملہ نہیں جس کے بارے میں عالمی طاقتوں نے متنبہ کیا ہوا ہے۔

فلسطینی شہر رفح اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے آغاز سے ہی شہری آبادی کے لیے ایک پناہ گاہ اور انسانی امداد کے لیے داخلے کا مرکز رہا ہے۔

غزہ کی پٹی کے جنوبی حصے میں واقع تقریباً 55 مربع کلومیٹر کے رقبے پر محیط یہ علاقہ غزہ تک آخری رسائی کی نمائندگی سمجھا جاتا ہے اور اسرائیل کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث یہ کئی دہائیوں سے بیمار افراد تک امداد اور مسافروں کی آمدورفت کے لیے ایک راستہ رہا ہے۔

رفح موجودہ جنگ کے آغاز کے بعد 10 لاکھ سے زائد ان فلسطینیوں کی آخری پناہ گاہ بن گیا تھا جو اسرائیلی فوج کی بمباری اور زمینی حملے کی وجہ سے بے گھر ہوئے ہیں۔

موجودہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کی طرف سے اسرائیل کے خلاف شروع کیے گئے اچانک حملے سے ہوا جس میں اسرائیل کے دعوے کے مطابق تقریبا 1,200 اسرائیلی شہری ہلاک اور تقریباً 240 یرغمال بنا لیے گئے۔

غزہ کی پٹی پر اسرائیل کے جوابی حملے کے باعث بڑے پیمانے پر نقل مکانی نے رفح کی آبادی دو لاکھ 80 ہزار سے بڑھا کر تقریباً 14 لاکھ افراد تک پہنچا دی اور یہی وجہ ہے کہ اسے ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے سربراہ، جان ایجلینڈ نے ’بے گھر ہونے والوں کا دنیا کا سب سے بڑا کیمپ‘ قرار دیا ہے۔

تاہم جنگ سے پناہ لینے والوں کے لیے اس قصبے کی حیثیت پر اس وقت سوال اٹھنا شروع ہو گئے جب اسرائیل نے یہاں ایک آپریشن شروع کر دیا جس میں حماس کی جانب سے بنائے گئے دو اسرائیلی یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا جبکہ ان حملوں میں درجنوں فلسطینی مارے گئے۔

اس وقت اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے اسرائیلی فوج کو حکم دیا تھا کہ وہ رفح سے شہریوں کے انخلا کے لیے تیار رہیں، تاکہ وہاں ایک بڑا آپریشن شروع کیا جا سکے۔

اس اعلان نے خطرے کی گھنٹی بجا دی اور اسرائیل کے منصوبے کے خلاف تنقید اور مخالفت کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوا۔ اس بات کا خدشہ موجود تھا کہ اسرائیل کی کوئی کارروائی ’انسانی بحران اور تباہی‘ کا باعث بنے گی۔

یہ خدشات اس وقت مزید جڑ پکڑ گئے جب آئی ڈی ایف نے رفح میں تقریباً ایک لاکھ افراد کو شہر کے مشرق میں ایک علاقہ خالی کرنے اور خان یونس اور المواسی کی طرف جانے کی ہدایات کے ساتھ کتابچے بھی تقسیم کرنا شروع کر دیے۔

اس کے کچھ گھنٹوں بعد اسرائیلی فوج نے اس شہر کے ایک علاقے پر حملوں کا سلسلہ شروع کر دیا جسے اس نے ’محدود آپریشن‘ کے طور پر پیش کیا اور اگلے ہی روز رفح اور مصر کے درمیان کراسنگ کا کنٹرول سنبھال لیا۔

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.