روس میں یوکرین جنگ کے دوران سینیئر جنرلز گرفتار کیوں کیے جا رہے ہیں؟

جب روس میں کسی اعلی دفاعی افسر کو گرفتار کر لیا جائے تو یہ ایک دلچسپ پیش رفت مانی جاتی ہے۔ لیکن اگر ایک ماہ سے کم وقت میں پانچ سینئر دفاعی شخصیات کو ہتھکڑیاں لگ جائیں تو اسے ’صفایا‘ کرنا کہتے ہیں۔
روس
EPA

جب روس میں کسی اعلیٰ دفاعی افسر کو گرفتار کر لیا جائے تو یہ ایک دلچسپ پیش رفت مانی جاتی ہے لیکن اگر ایک ماہ سے کم وقت میں پانچ سینیئر دفاعی شخصیات کو ہتھکڑیاں لگ جائیں تو اسے ’صفایا‘ کرنا کہتے ہیں۔

روس میں جس عسکری شخصیت کو حال ہی میں سلاخوں کے پیچھے جانا پڑا ہے ان کا نام لیفٹینینٹ جنرل واڈم شامارن ہے جو روسی فوج کے جنرل سٹاف کے ڈپٹی چیف ہونے کے ساتھ ساتھ مرکزی کمیونیکیشن ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ بھی تھے۔

لیفٹینینٹ جنرل واڈم پر بڑے پیمانے پر رشوت لینے کا الزام ہے اور انھیں مقدمے سے قبل دو ماہ تک کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

چند ہی گھنٹوں کے بعد یہ خبر آئی کہ وزارت دفاع میں سامان کی خرید و فروخت کرنے والے سینیئر افسر ولادیمیر ورتیلیتسکی کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے۔ روس کی انویسٹیگیٹیو کمیٹی کے مطابق ان پر الزام ہے کہ انھوں نے دفاعی آرڈر کی تکمیل میں اپنے عہدے کا غلط استعمال کیا۔

گذشتہ ایک ماہ کے دوران روسی دفاعی شخصیات جو کرپشن کے الزامات کے باعث متاثر ہو چکی ہیں ان میں نائب وزیر دفاع تیمور ایوانوو اور وزارت دفاع میں پرسنل ڈائریکٹوریٹ کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل یوری کزنیٹسوو بھی شامل ہیں۔

وزارت دفاع میں سب سے اعلیٰ عہدے پر بھی تبدیلی عمل میں لائی جا چکی ہے۔ حالیہ فیصلے میں روسی صدر ولادیمیر پوتن نے 12 سال پرانے وزیر دفاع سرگئی شوئگو کو تبدیل کیا تھا اور ان کی جگہ ایک ٹیکنوکریٹ ماہر معیشت کو تعینات کیا تھا۔

روس
Reuters
لیفٹینینٹ جنرل واڈم پر بڑے پیمانے پر رشوت لینے کا الزام ہے اور انھیں مقدمے سے قبل دو ماہ تک کے لیے حراست میں لیا گیا ہے۔

اس وقت اس فیصلے کو روس میں فوج کی کارکردگی بہتر بنانے اور کرپشن سے نمٹنے کے قدم کے طور پر دیکھا گیا تھا۔

سرگئی شوئگو کو روس کی سکیورٹی کونسل میں سیکرٹری کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا تھا جبکہ جنرل واڈم کے باس، ولیری جیراسیموو اب تک روس کی بری فوج کے چیف آف جنرل سٹاف ہیں۔

یوکرین جنگ میں مصروف روسی فوج کی قیادت میں ہونے والی تبدیلیاں اور گرفتاریاں ملک کی عسکری قیادت کے لیے پریشان کن ہیں۔ اس پورے معاملے میں ایک نہایت دلچسپ بات بھی ہے۔

آپ کو یوگینی پریگوژن کا نام یاد ہے؟

ایک سال قبل مسلح گروہ ویگنر کے سربراہ کے طور پر انھوں نے عوامی سطح پر روسی فوجی قیادت پر تنقید کی تھی اور اعلی افسران پر نااہلی اور کرپشن کے الزام لگاتے ہوئے کہا تھا کہ یوکرین میں ناکامیوں کے اصل ذمہ داران وہی ہیں۔

یوگینی پریگوژن کا غصہ بالخصوص دو افراد پر نکلا جن میں سرگئی شوئگو اور والری جیراسیموو شامل تھے۔ یوگینی نے مطالبہ کیا تھا کہ ان افراد کو تبدیل کیا جائے۔

یہ معاملہ ایک عوامی جھڑپ کی شکل اختیار کر گیا اور پھر ویگنر نے بغاوت کر دی۔ ویگنر سے تعلق رکھنے والے مسلح افراد نے جنوبی روس میں اہم عسکری تنصیبات کا کنٹرول سنبھالا اور پھر ماسکو کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔

پوتن کے لیے یہ ایک غیر معمولی چیلنج تھا۔ تاہم اس بغاوت کا مرکزی مقصد پوتن نہیں بلکہ ملکی عسکری قیادت کی تبدیلی تھی۔ یہ کوشش ناکام ہوئی اور پوتن نے عسکری سربراہان کا ہی ساتھ دیا۔

اس جنگ میں یوگینی پریگوژن اپنی طاقت کھو بیٹھے۔ کچھ ہی مدت کے بعد ایک فضائی حادثے میں وہ اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔

 یوگینی پریگوزن
Getty Images
ویگنر کے بانی اور ارب پتی یوگینی پریگوزن

تاہم ایک سال بعد ’فوج میں صفائی‘ کا عمل شروع ہو چکا ہے اور اس سے ہمیں پوتن کے بارے میں کچھ پتہ چلتا ہے۔

روسی صدر دباؤ میں کوئی کام نہیں کرتے۔ ان کو کسی وزیر یا فوجی جنرل کو ہٹانے کا کہا جائے تو وہ فوری طور پر اتفاق نہیں کرتے۔ ان کو یہ پسند نہیں ہے کہ ان کو بتایا جائے کہ ان کو کیا کرنا چاہیے۔

لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ کچھ کریں گے نہیں۔ لیکن اپنی مرضی کے منتخب کردہ وقت پر۔

جو بات واضح نہیں ہے وہ یہ کہ روسی فوج میں ہونے والی یہ ’صفائی‘ کہاں تک جائے گی اور مزید کتنے سینیئر عسکری حکام سلاخوں کے پیچھے ہوں گے۔

سابق کمانڈر میجر جنرل ایوان پاپوو کو رواں ہفتے فراڈ کے شک پر حراست میں لیا گیا۔ گذشتہ سال انھوں نے اعلان کیا تھا کہ ان کو یوکرین میں محاذ پر درپیش مسائل کے بارے میں شکایات کرنے پر عہدے سے ہٹایا گیا۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.