’سر، آپ کہتے ہیں تو میں کنکلوڈ کر دیتا ہوں‘: سپریم کورٹ میں عمران خان کی پیشی کے دوران کیا ہوا

عمران خان اپنی حکومت کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک، امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو اور کبھی ملک میں مارشل لا کی باتیں کرنا شروع کر دیتے جس پر انھیں بینچ کی جانب سے ایسے بیان دینے سے روک دیا جاتا۔

پاکستان کی سپریم کورٹ میں جمعرات کے دن پارلیمان سے منطور ہونے والی نیب ترامیم کو کالعدم قرار دینے کے خلاف حکومت کی اپیل کی سماعت مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا گیا ہے جس کے دوران اڈیالہ جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے عمران خان کی درخواست کو منظور کرتے ہوئے نیب ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا۔

جمعرات کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے وفاق کی طرف سے دائر کی گئی اپیل پر سماعت شروع کی تو ایک جانب جہاں عمران خان ویڈیو لنک پر موجود نظر آئے وہیں بینچ میں شامل ججوں کی باڈی لینگوئج سے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ اس اپیل پر عدالتی کارروائی کو سمیٹنا چاہتے ہیں۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کو ویڈیو لنک پر فیروزی رنگ کی شرٹ اور کالے رنگ کا ٹراوئزر پہنے ہوئے دیکھا جا سکتا تھا تاہم سماعت کی ابتدا میں اس کیس میں عدالتی معاون مقرر ہونے والے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دیے۔

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ وہ تین گھنٹوں میں دلائل مکمل کر لیں گے لیکن ڈھائی گھنٹے گزر جانے کے بعد ہی ججوں کے چہروں پر بظاہر تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے۔ اس دوران عمران خان کی بھی اس عدالتی کارروائی میں دلچسپی کم دکھائی دے رہی تھی۔ کبھی وہ اپنے سامنے پڑے ہوئے کاغذات کو دیکھتے تو کبھی اپنے بال سنوارنا شروع کر دیتے۔

عدالت نے خواجہ حارث سے جب استفسار کیا گیا کہ انھیں دلائل مکمل کرنے کے لیے اور کتنا وقت درکار ہوگا تو خواجہ خارث کا کہنا تھا کہ انھیں مذید دو گھنٹے لگیں گے۔ اس پر بینچ کی طرف سے خواجہ حارث کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا کہ ’آپ نے کونسی گھڑی پہنی ہے جو ڈھائی گھنٹے دلائل دینے کے بعد آدھے گھنٹے میں دلائل مکمل کرنےکے بجائے دلائل دینے کے لیے مذید دو گھنٹے مانگ رہی ہے۔‘ ان ریمارکس پر کمرہ عدالت میں ایک قہقہ بلند ہوا۔

دوسری جانب کمرہ عدالت میں لگی ہوئی سکرین، جس پر عمران خان موجود تھے، پر یہ نظر آیا کہ ایک مکھی کے تنگ کرنے پر سابق وزیر اعظم نے ایک کاغذ سے اس کو مارنے کی کوشش کی۔

پاکستان
Getty Images
فائل فوٹو - آج کی عدالتی کارروائی میں بظاہر عمران خانکو ویڈیو لنک پر آخری مرتبہ دیکھا گیا ہے کیونکہ اس مقدمے کی سماعت مکمل ہو چکی ہے

دوسری جانب خواجہ حارث اپنے دلائل کے دوران نیب ترامیم کی مخالفت میں دلائل دے رہے تھے تو اسی دوران عدالت کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ ’اگر نیب اتنا ہی برا ادارہ تھا تو آپ کے سابق موکل (عمران خان) نے بطور وزیر اعظم اس ادارے کو ٹھیک کیوں نہیں کیا۔‘

بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ نے عدالتی معاون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’خواجہ صاحب، جس طرح کے آپ دلائل دے رہے ہیں اس سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے نیب سابق حکومت (عمران خان) کے دور میں ٹھیک تھا۔‘

عدالت کی جانب سے عدالتی معاون سے متعدد بار پوچھا گیا کہ کیا پارلیمان سے ہونے والی ان ترامیم سے کوئی بنیادی حقوق متاثر ہوئے ہیں تو خواجہ خارث عدالت کو مطمئن نہ کر سکے۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کا کہنا تھا کہ ’میں پارلیمان کا کوئی مانیٹر نہیں ہوں لیکن مجھے صرف یہ دیکھنا ہے کہ کیا پارلیمان نے نیب میں ترامیم کرکے کوئی غیر آئینی کام کیا ہے؟‘

خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جانب سے ان ترامیم کے دوران پارلیمانی کارروائی کا بائیکاٹ کرنا سیاسی فیصلہ تھا، جو کہ ان کی نظر میں ٹھیک نہیں تھا۔

عدالتی معاون کی جانب سے ساڑھے چار گھنٹے دلائل دیے جانے کے بعد جب عمران خان کی باری آئی تو چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ کیا وہ خواجہ حارث کے دلائل میں کوئی اضافہ کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ عمران خان اپنے آپ کو اس مقدمے تک ہی محدود رکھیں گے اور کوئی سیاسی بیان نہیں دیں گے۔

عدالت کی اس تاکید کے باوجود عمران خان نے اپنے دلائل کا آغاز ہی اس بات سے کیا کہ وہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کے سربراہ ہیں تو عدالت کی جانب سے ایک بار پھر کہا گیا کہ وہ اپنے آپ کو اس مقدمے تک ہی محدود رکھیں۔

عمران خان کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھنا ہوگا کہ نیب کو ایماندار لوگ چلا رہے ہیں یا بدعنوان‘، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ نیب سربراہ کا اس مقدمے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

تاہم سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کو نیب کا سربراہ مقرر کرنا چاہیے۔ اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ پارلیمان سے اس کی ترمیم کروا دیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔‘

عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اور حکومت کی جانب سے نیب کے چئیرمین کے لیے تین تین نام آ جاتے ہیں جس پر اتفاق نہیں ہوتا اور پھر ’تھرڈ ایمپائر‘ اس کا فائدہ اٹھاتا ہے۔

سابق وزیر اعظم اپنے دور حکومت میں نیب کی جانب سے 426 ارب روپے کی ریکوری کا کریڈٹ لیکر یہ بتانے کی کوشش کرتے رہے کہ اس کے بعد نیب کی جانب سے ریکوری نہیں ہوئی۔

اس پر جسٹس جمال مندوخیل نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’نیب کی جانب سے ریکوری اس لیے نہیں ہوئی کہ آپکی درخواست پر سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے نیب قوانین میں کی جانے والی ترامیم کو کالعدم قرار دیا تھا جس کی وجہ سے بہت سے کیسز ابھی بھی عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پہلے بتائیں کہ ان کے تین سالہ دور میں نیب کو کون چلا رہا تھا جس کا عمران خان جواب نہ دے سکے۔

اس پانچ رکنی بینچ میں موجود ججوں سے مخاطب ہوتے ہوئے عمران خان نے جب کہا کہ ’عوام کی نظریں آپ پر لگی ہوئی ہیں‘ تو جسٹس مندوخیل نے جواب دیا کہ ’اگر ہم بھی ناکام ہو گئے تو پھر کیا ہوگا؟‘

انھوں نے کہا کہ ’اگر ملک کو کچھ ہوا تو سیاست دان ذمہ دار ہوں گے جج نہیں۔‘

سابق وزیر اعظم عمران خان نے نیب کے قانون میں کی جانے والی ترامیم کے بارے میں کوئی قانونی نکات نہیں اٹھائے اور کہا کہ فارم 47 والے لوگ اپنے مفاد کے لیے اس قانون میں ترمیم کر رہے ہیں۔

چند لمحے نیب سے متعلق بات کرکے عمران خان پھر اپنی حکومت کے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک، امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو اور کبھی ملک میں مارشل لا کی باتیں کرنا شروع کر دیتے جس پر انھیں بینچ کی جانب سے ایسے بیان دینے سے روک دیا جاتا۔

اس بینچ میں موجود جج عمران خان کی جانب سے گزشتہ سماعت کے دوران کی گئی تقریر سے واقف تھے شاید اسی لیے انھیں دلائل کے دوران سیاسی گفتگو کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔

جب عمران خان سیاست یا غیر متعقلہ بیان دینے کی کوشش کرتے تو اس پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس امین الدین اور جسٹس حسن اظہر، جنھوں نے پوری سماعت کے دوران ایک ریمارک بھی نہیں دیا، فوری طور پر مداخلت کرتے اور ان کی مداخلت کے جواب میں آخر عمران خان نے کہا کہ ’سر، آپ کہتے ہیں تو میں کنکلوڈ کر دیتا ہوں۔‘

اس کے بعد عمران خان نے نہ تو اس مقدمے پر اور نہ ہی کسی اور معاملے پر بات کی۔

آج کی عدالتی کارروائی میں بظاہر عمران خانکو ویڈیو لنک پر آخری مرتبہ دیکھا گیا ہے کیونکہ اس مقدمے کی سماعت مکمل ہو چکی ہے اور عمران خان کے خلاف باقی مقدمات کی سماعت راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہو رہی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.