منڈی بہاؤالدین میں دو احمدیوں کا قتل: ’دونوں افراد کو ٹارگٹ کیا گیا، ملزم مذہبی شخصیات کی کچھ ویڈیوز سے متاثر تھا‘

وسطی پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین کے ایک گاؤں سعد اللہ پور کی پولیس نے احمدی برادری کے دو افراد کو قتل کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس حکام کے مطابق ملزم کسی مذہبی گروہ سے تعلق سے انکاری ہے مگر وہ ’کچھ مذہبی شخصیات کے ویڈیو کلپس میں کی جانے والی گفتگو سے بے حد متاثر تھا۔‘

وسطی پنجاب کے شہر منڈی بہاؤالدین کے ایک گاؤں سعد اللہ پور کی پولیس نے احمدی برادری کے دو افراد کو قتل کرنے کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کیا ہے۔

ترجمان منڈی بہاؤالدین پولیس کے مطابق دینی مدرسے کے طالبعلم 18 سالہ ملزم نے ابتدائی تفتیش کے دوران دونوں افراد کو یکے بعد دیگرے اپنی پستول سے فائرنگ کر کے قتل کرنے کا اعتراف کیا ہے۔ پولیس اہلکار کا کہنا ہے کہ بظاہر ملزم ’کچھ مذہبی شخصیات کے ویڈیو کلپس میں کی جانے والی گفتگو سے بے حد متاثر تھا۔‘

پولیس کے ترجمان نے ابتدائی تفتیش کے حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ اس دہرے قتل پر ملزم بظاہر مطمئن ہے اور اس کا کہنا ہے کہ وہ ’اب سیدھا جنت میں جائے گا۔‘

سنیچر کی دوپہر دونوں مقتولین – 60 سالہ غلام سرور اور 30 سالہ راحت احمد باجوہ -- کو اپنے گھروں کے قریب ٹارگٹ کیا گیا جس پر پولیس نے قتل اور انسداد دہشتگردی ایکٹ کی دفعات کے تحت دو الگ الگ مقدمات درج کیے ہیں۔ اِن ایف آئی آرز کے متن کے مطابق دونوں واقعات میں مقتولین کو سر کے پیچھے گردن پر گولیاں ماری گئیں جن سے ان کی موقع پر ہی موت ہوگئی۔

مقتولین کے اہل خانہ کا دعویٰ ہے کہ ملزم نے فرقہ واریت، مذہبی منافرت اور احمدی اقلیت کے اندر خوف و ہراس پھیلانے کے لیے ان کے پیاروں کو قتل کیا ہے۔

ادھر جماعت احمدیہ پاکستان نے مطالبہ کیا کہ قاتل کے ساتھ ساتھ قتل کی مبینہ طور پر ترغیب دینے والے سہولت کاروں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں لا کر کڑی سزا دی جائے۔

پنجاب کے انسپیکٹر جنرل پولیس ڈاکٹرعثمان انور نے گوجرانوالہ کے ریجنل پولیس آفیسر طیب چیمہ سے واقعے کی جامع رپورٹ طلب کی ہے۔ آئی جی پولیس نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر احمد محی الدین کو ہدایت دی کہ باقی ماندہ مشتبہ افراد کی گرفتاری کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جائے۔

آئی جی نے لواحقین کو یقین دلایا ہے کہ ’مجرموں کو قانون کی مکمل کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔‘

احمدی برادری کے دونوں افراد کو ’ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا‘

سعد اللہ پور کے رہائشی عبد اللہ خان کا کہنا ہے کہ ان کے گاؤں میں ماضی قریب کے دوران مذہبی منافرت کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور اب اس واقعے پر ’پورا گاؤں سوگوار ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ دوپہر دو بجے کے قریب سب معمول کے مطابق چل رہا تھا کہ اچانک فائرنگ اور چیخ و پکار کی آوازیں سنائی دیں۔ ’میں گھر سے باہر نکلا تو دیکھا غلام سرور اوندھے منھ گرے ہوئے ہیں جبکہ لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے ہیں۔ اچانک ہی ساتھ والی گلی میں بھی فائرنگ شروع ہوگئی اور وہاں سے بھی چیخوں کی آوازیں آئیں۔ میں یہی سمجھا کہ شاید گاؤں میں دہشت گرد آگئے ہیں۔‘

سعد اللہ پور کے رہائشی سرور گوندل کہتے ہیں کہ جب اسی گاؤں سے تعلق رکھنے والے نوجوان ملزم فائرنگ کر کے بھاگ رہے تھے تو ’کچھ افراد نے انھیں پکڑنے کی کوشش کی۔ لیکن اس کے ہاتھ میں پستول تھا جس کی وجہ سے کسی نے آگے بڑھنے کا خطرہ مول نہیں لیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سعد اللہ پور کے امن کی لوگ مثالیں دیا کرتے تھے۔ احمدیوں اور مسلمانوں کے درمیان کبھی جھگڑا نہیں ہوا۔ پتہ نہیں کیسے اس نوجوان کے ذہن میں آیا کہ قتل کرنا ہے۔ اب باقی لوگ بھی یہاں رہنے میں خوف محسوس کریں گے۔‘

پولیس کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بظاہر دونوں افراد کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا ہے۔

ڈی پی او کا کہنا ہے کہ ’گھر سے نکلتے وقت قاتل کے ذہن پر سوار تھا کہ آج جو بھی احمدی سامنے آئے اس کو قتل کرنا ہے۔‘

ملزم دینی مدرسے میں زیرِ تعلیم تھا

جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کے بعد منڈی بہاؤالدین کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر احمد محی الدین نے بتایا کہ 60 سالہ مقتول غلام سرور ایک عبادت گاہ سے گھر لوٹ رہے تھے جب ملزم ان پر فائرنگ کر کے وہاں سے بھاگ گیا۔

اس کے بعد ’حملہ آور یہاں سے چار سومیٹر کے فاصلے پر دوسری گلی میں پہنچ گیا جہاں اس نے نوجوان راحت احمد باجوہ کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ پولیس نے حملہ آور کو گھر سے ملحقہ کوارٹر سے حراست میں لیا اور ان کے قبضے سے آلہ قتل پستول برآمد کر لی گئی ہے۔

پولیس کا خیال ہے کہ ’ابتدائی تحقیقات میں یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ ملزم کی دونوں مقتولین کے ساتھ کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ پولیس کی فرانزک ٹیم اور کرائم سین انویسٹی گیشن نے جائے وقوعہ سے شواہد اکٹھے کر لیے ہیں۔۔۔ ملزم کو حفاظتی اقدامات کے پیش نظر متعلقہ تھانے کی بجائے کسی دوسری جگہ پر رکھا گیا ہے۔‘

منڈی بہاؤالدین پولیس نے ملزم کی ذاتی زندگی اور اہل خانہ کے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں جس کے مطابق ان کے والد زمیندار ہیں جبکہ دو بڑے بھائی بسلسلہ روزگار بیرون ملک مقیم ہیں۔ وہ خود کچھ برسوں سے ایک دینی مدرسے میں زیرِ تعلیم تھے اور حال ہی میں حافظ قرآن بنے تھے۔

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر احمد محی الدین نے بتایا کہ ملزم کسی مذہبی تنظیم کے ساتھ تعلق سے انکاری ہے۔ ’ملزم کی باتوں سے لگ رہا ہے کہ اس پر حالیہ دنوں میں پُرتشدد جذبات حاوی ہوگئے تھے جن کے زیرِ اثر آ کر اس نے یہ کارروائی کی ہے۔‘

پولیس کے مطابق تفتیش کے دوران ملزم نے کہا کہ انھیں ’کسی نے اسے قتل کرنے کے لیے نہیں اکسایا، نہ ہی وہ کسی سے داد و تحسین کا طلب گار ہے کیونکہ اس نے جنت کے حصول کے لیے یہ کام کیا ہے۔ اس نے حالیہ دنوں میں کچھ ایسی مذہبی شخصیات کے ویڈیو کلپس دیکھے جن میں مبینہ طور پر احمدیوں کے قتل کی ترغیب دی گئی جس پر اس کے ذہن میں یہ باتیں چلنا شروع ہوگئیں۔‘

ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر نے مزید بتایا کہ ملزم سے جب پوچھا گیا کہ وہ کس سے متاثر تھا اور اس کا میل جول ان دنوں کس کے ساتھ تھا تو اس نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔ پولیس نے ملزم کا موبائل فون قبضے میں لے کر اسے فرانزک کے لیے متعلقہ ٹیم کے حوالے کیا ہے۔

’دو بے گناہ احمدیوں کا بہیمانہ قتل سنگین دہشت گردی ہے‘

جماعت احمدیہ پاکستان کے ترجمان عامرمحمود نے ’دو بے گناہ احمدیوں کے بہیمانہ قتل‘ کو سنگین دہشت گردیقرار دیتے ہوئے اس کی شدید مذمت کی ہے۔

ایک بیان میں ان کا کہنا ہے کہ ’کم عمر نوجوانوں میں احمدیوں کو قتل کرنے اور نفرت و تشدد کا بیانیہ فروغ دینے والوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے قرار واقعی سزا دینے کی اشد ضرورت ہے۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ حالیہ دنوں سوشل میڈیا پر جہلم کے علاقے سے دو ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں مذہبی گروہ تحریک لبیک سے وابستہ ایک شخص نے سرعام کہا کہ ’احمدیوں کو الٹا لٹکا دیں گے۔‘ ان کے مطابق عید الاضحی کے تہوار سے قبل احمدیوں کو جانوروں کی قربانی سے روکنے کے لیے انھیں دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔

ترجمان جماعت احمدیہ نے مطالبہ کیا کہ ’قاتل اور قتل کی مبینہ ترغیب دینے والے سہولت کاروں‘ کو انصاف کے کٹہرے میں لا کر انھیں کڑی سزا دی جائے۔

انھوں نے کہا منڈی بہاؤالدین سمیت پنجاب میں ’کچھ عرصہ سے احمدیوں کے خلاف مہم میں تیزی آئی ہے اور احمدیوں کے خلاف اشتعال پھیلایا جا رہا ہے۔‘

ان کا سوال ہے کہ احمدیوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے والوں کے خلاف ’حکومت کارروائی کیوں نہیں کرتی؟‘

پاکستان میں گذشتہ دہائیوں سے احمدی برداری پر تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ احمدیوں کی قبروں اور عبادت گاہوں کے میناروں کو مسمار کیا جاتا رہا ہے اور عید الضحیٰ کے موقع پر احمدی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف جانور ذبع کرنے پر مقدمات درج کیے جاتے رہے ہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.