نیشنل فائروال: ’یوٹیوبرز کو بھی بات کرنے سے پہلے ساتھ کوئی وکیل بٹھانا پڑے گا‘

image
یہ ایک انتہائی اعلٰی سطح کا اجلاس تھا جس میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے چیف سیکریٹریز کے علاوہ گلگت بلتستان اور کشمیر کے چیف سیکریٹریز بھی موجود تھے۔

صرف یہی نہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ سیکریٹری زراعت اور سیاحت بھی شریک تھے۔ جبکہ وفاقی وزیر برائے پلاننگ اینڈ ڈیویلپمنٹ احسن اقبال بھی موجود تھے۔ ایک اعلٰی عسکری شخصیت اس اجلاس میں پاکستان کو ’پٹڑی‘ پر واپس لانے کے روڈ میپ پر بات کر رہی تھی۔

کئی گھنٹے جاری رہنے والے اس اجلاس میں ہر طرح کے پہلو زیرِغور آئے۔ اس اجلاس میں موجود ایک سرکاری افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’اس اجلاس میں زیادہ تر یہی بتایا جا رہا تھا کہ اب اقتصادی طور پر ملک کو مضبوط کرنے کے لیے کس طرح جدید فارمنگ کو پاکستان کی طاقت بنانا ہے، اسی دوران کسی صوبے کے چیف سیکریٹری نے سوشل میڈیا کے حوالے سے سوال کیا کہ یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔‘

’اس پر ہمیں بتایا گیا کہ اس کی فکر نہ کریں۔ اس کا بندوبست ہو چکا ہے۔ ہمارے ایک دوست ملک نے ہمیں ایک بہت بڑا سسٹم فائروال کی صورت میں دیا ہے۔ اس کی انسٹالیشن 30 مئی تک مکمل ہو جائے گی۔ اور اس کا ٹیسٹ رن شروع ہو گا۔ یہ اتنی طاقت ور ٹیکنالوجی ہے کہ جو لوگ بھی اپنی شناخت کو چھپا کر پراپیگنڈہ کر رہے ہیں وہ اب مزید چھپ نہیں سکیں گے۔ اس کے ساتھ جو قوانین لائے جا رہے ہیں ان میں یوٹیوبرز کو بھی بات کرنے سے پہلے اپنے ساتھ کوئی وکیل بٹھانا پڑے گا۔‘

خیال رہے کہ پاکستان کے طاقتور ترین سرکاری افسران کا یہ اعلٰی سطح کا اجلاس مئی کے پہلے ہفتے میں ہوا تھا۔

اس اجلاس میں ہونے والی گفتگو اب حقیقت کا روپ دھارتی نظر آ رہی ہے۔ اس حوالے سے گذشتہ چند روز سے مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر تبصرے اور تجزیے بھی ہو رہے ہیں۔

فائروال کیا ہے اور یہ کام کیسے کرتی ہے؟ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے ہارون بلوچ نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ فائروال آن لائن مواد پر مبنی ٹریفک ڈیٹا کو ٹریک کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس سے کسی بھی پیغام کے بارے میں پتا لگا سکتی ہے یعنی پیغام کون سے کمپیوٹر، کون سے آئی پی ایڈریس سے اور کسے بھیجا گیا، اسے ٹریک کیا جا سکتا ہے۔ صرف ٹریک ہی نہیں کیا جا سکتا بلکہ بوقت ضرورت یہ فائروال مطلوبہ معلومات میں، جس کے لیے گائیڈ لائن فراہم کی گئی ہو، اس کو فلٹر کر دیتی ہے۔ جب کوئی ڈیٹا فلٹر ہوتا ہے تو ایسی صورت میں اس فائروال کے ذریعے اسے بلاک کیا جا سکتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے ذریعے لوگوں کو ٹریک کیا جا سکتا ہے اور ان کی نگرانی کی جاتی ہے، جبکہ سوشل میڈیا ایپس، ویب سائٹس کے علاوہ دیگر سائٹس کو بھی بلاک کیا جا سکتا ہے، تاکہ انٹرنیٹ صارفین کو ان پر موجود معلومات تک رسائی ممکن نہ ہو۔ اس کے لیے پہلے متعلقہ سوشل میڈیا کمپنیوں سے رابطہ کر کے مواد ہٹوایا جاتا تھا، اب اس فائروال کی تنصیب سے اسے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ ہونے سے پہلے ہی روک دیا جائے گا۔‘

وکیل آفتاب عالم کہتے ہیں کہ نیشنل فائروال کی تنصیب سے معلومات تک رسائی، آزادی اظہار اور شخصی پرائیویسی جیسے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوں گے۔ (فائل فوٹو: پانڈا سکیورٹی)نیشنل فائروال کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟حکومت اور ادارے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سوشل میڈیا نہ صرف فیک نیوز پھیلانے کا ذریعے ہے، بلکہ ’قومی سلامتی‘ سے متعلق معلومات بھی سوشل میڈیا پر پھیلا دی جاتی ہیں جس سے ملکی سلامتی متاثر ہوتی ہے۔

اس حوالے سے وزیر دفاع خواجہ آصف نے سرکاری دستاویزات سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے والوں کے خلاف کارروائی کا عندیہ بھی دیا تھا۔

تاہم ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے وکیل آفتاب عالم کہتے ہیں کہ ’نیشنل فائروال کی تنصیب سے معلومات تک رسائی، آزادی اظہار اور شخصی پرائیویسی جیسے بنیادی انسانی حقوق متاثر ہوں گے۔ اس فائروال سے ایک عام شہری کی بینک معلومات، ذاتی تنخواہ، صحت سے متعلق تفصیلات یہاں تک کہ ای میل وغیرہ سے لے پاسورڈ تک ریاستی اداروں کی دسترس میں آ جائیں گے۔‘

ان کے مطابق ’صرف یہی نہیں بلکہ بحیثیت شہری کسی بھی ایسے پبلک معاملے پر جس میں ٹیکس کا پیسہ خرچ ہوا ہے، کے بارے میں معلومات جاننے اور ان پر تبصرہ کرنے کا ایک شہری کے حق پر بھی قدغن لگ جائے۔ اس سے بھی بڑھ کر خدشہ ہے کہ اگر کسی ادارے کو وہ تبصرہ پسند نہ آئے تو اسے اٹھایا بھی جا سکتا ہے۔ جو کہ جمہوریت میں نہیں ہوتا۔‘

ڈیجیٹل نگرانی، قانون کیا کہتا ہے؟عموماً حکومتیں جب بھی کوئی قدم اٹھاتی ہیں تو عدالتوں یا میڈیا میں سوال اٹھایا جاتا ہے کہ وہ یہ کام کس قانون کے تحت کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے ہارون بلوچ کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں ڈیجیٹل سرویلینس کا قانون موجود ہے جس کے تحت حکومتی ادارے سرویلینس کر سکتے ہیں، لیکن ڈیجیٹل رائٹس کے لیے کام کرنے والے اس قانون کو غیرشفاف قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کے ذریعے نگرانی کرنے کا طریقہ کار شفاف نہیں ہے۔ اس قانون کے غلط استعمال کے امکانات بہت زیادہ ہیں اور اس قانون کا سہارا لے کر کسی کو نشانہ بنانے والے سرکاری اداروں کے اہلکاروں کا احتساب ممکن نہیں ہے۔‘

حکومت اور ادارے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ سوشل میڈیا صرف فیک نیوز پھیلانے کا ذریعے ہے۔ (فوٹو: روئٹرز)ایڈووکیٹ آفتاب عالم کا موقف ہے کہ ’پاکستان پہلے ہی ایسا ملک ہے جہاں بہت زیادہ قانون سازی ہوتی ہے۔ ہم نے کچھ سال پہلے ایک سروے کروایا تھا تو معلوم ہوا تھا کہ پاکستان میں آزادی اظہار سے متعلق 111 قوانین موجود تھے۔ لیکن یہ قوانین آزادی اظہار کا تحفظ کم جبکہ قدغنیں زیادہ لگاتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’فائروال کی تنصیب کو کسی قانون کے تحت لانے کے لیے تو 1880 کا ٹیلی گرام ایکٹ بھی لاگو کیا جا سکتا ہے اور 2014 میں پاس ہونے والا تحفظ پاکستان ایکٹ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ بھی درجنوں قوانین ایسے ہیں جن کے تحت یہ اقدام اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن کوئی بھی ایسا قانون جو بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرتا ہو وہ خلاف آئین ہوتا ہے۔ اس لیے فائروال کو کسی قانون کے تحت کرنے سے اس کو کوئی جواز نہیں مل جاتا۔‘


News Source   News Source Text

مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.