پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کن بڑے شعبوں سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے اور اس کی وجہ کیا ہے؟

پاکستان میں ہر سال بجٹ پیش کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ بڑے شعبہ جات، جیسا کہ زراعت، ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور ایکسپورٹرز، کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے تنخواہ دار طبقے کا معاشی بوجھ ہی کیوں بڑھا دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کیا واقعی معیشت کے دوسرے شعبوں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے؟
پاکستان
Getty Images

پاکستان میں ہر سال بجٹ پیش کیے جانے کے بعد یہ بحث چھڑ جاتی ہے کہ ملک میں تنخواہ دار طبقے کو ریلیف دینے کے بجائے سیلری پر ٹیکس کیوں بڑھایا جاتا ہے اور بڑے شعبہ جات، جیسا کہ زراعت، ریٹیل، ریئل اسٹیٹ اور ایکسپورٹرز، کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے تنخواہ دار طبقے کا معاشی بوجھ ہی کیوں بڑھا دیا جاتا ہے۔

رواں سال کا بجٹ بھی کچھ مختلف نہیں اور وفاقی وزیر خزانہ کی جانب سے پارلیمان میں پیش کیے جانے والے وفاقی بجٹ کی منظوری کے بعد تنخواہ دار طبقے کو اگلے مالی سال میں پہلے سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔

حکومت کی جانب سے ایک بار پھر تنخواہ دار طبقے پر عائد ٹیکس میں اضافے کے بعد متعدد حلقوں کی جانب سے اس فیصلے پر تنقید کی گئی۔ تاہم وفاقی وزیر خزانہ نے بجٹ پیش کرنے کے ایک دن بعد اپنی پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس میں اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ’زیادہ آمدن والوں پر زیادہ ٹیکس کا نفاذ ہوگا اور اس پرکسی کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے کیوں کہ ہمیں ٹیکس کے دائرہ کار کو بڑھانا ہے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ سرکاری اورنجی شعبے میں کام کرنے والے ملازمین پر مشتمل ہے اور گزشتہ چند سال سے یہ بحث ہوتی رہی ہے کہ اس طبقے کی جانب سے ادا کیا جانے والا ٹیکس معیشت کے کچھ ایسے شعبوں سے زیادہ ہے جن کا ملکی جی ڈی پی میں زیادہ حصہ ہونے کے باوجود ان کی جانب سے ٹیکس بہت کم دیا جاتا ہے۔ ایسے طبقات میں ریٹیلرز اور برآمد کنندگان خاص طور پر شامل ہیں۔

لیکن حقائق کیا ہیں اور پاکستان میں تنخواہ دار طبقہ کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے؟ کیا واقعی معیشت کے دوسرے شعبوں سے تنخواہ دار طبقہ زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتا ہے؟

اس بارے میں بی بی سی اردو نے ٹیکس جمع کرنے والے ادارے کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیا ہے اور ساتھ ہی پاکستان میں ٹیکس کے شعبے اور ماضی میں وزارت خزانہ اور ٹیکس امور سے منسلک سرکاری عہدوں پر کام کرنے والے افراد سے بات کی۔

تنخواہ دار طبقہ پاکستان میں کن شعبوں سے زیادہ ٹیکس ادا کرتا ہے؟

پاکستان میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو ملک میں ٹیکس ریونیو جمع کرتا ہے جس میں انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی شامل ہوتی ہے۔ تنخواہ دار طبقے سے وصول کیا جانے والا ٹیکس انکم ٹیکس کے زمرے میں آتا ہے یعنی ان کی آمدنی پر ٹیکس حاصل کیا جاتا ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے محصولات پر جاری کی جانے والی سالانہ کتاب میں ایسے شعبوں کی تفصیلات موجود ہیں جس میں انکم ٹیکس ایٹ سورس کاٹ لیا جاتا ہے۔ اس میں ملک کے دس بڑے ایسے شعبوں کی تفصیل دی گئی ہے جو سب سے زیادہ انکم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

گزشتہ مالی سال کی اعدادوشمار کے مطابق تنخواہ دار طبقے نے پورے مالی سال میں مجموعی طور پر 1874 ارب روپے میں سے 264 ارب روپے ٹیکس دیا۔

تاہم تنخواہ دار طبقے سے زیادہ کنٹریکٹرز نے 390 ارب روپے، بینکوں میں پیسے جمع کرا کر منافع لینے والوں نے 320 ارب روپے اور امپورٹرز نے 290 ارب روپے ٹیکس دیا۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق انڈسٹری کا جی ڈی پی میں حصہ 21 فیصد ہے جب کہ اس کا ٹیکس میں حصہ 69 فیصد ہے۔

تاہم چند ایسے شعبہ جات بھی ہیں جن کی جانب سے وصول شدہ ٹیکس تنخواہ دار طبقے سے کہیں کم ہے۔ مثال کے طور پر ایکسپورٹرز نے تنخواہ دار طبقے کے مقابلے میں بہت کم ٹیکس ادا کیا جو صرف 73 ارب روپے تھا۔

سٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق زراعت کا جی ڈی پی میں حصہ 19 فیصد ہے اور اس کی جانب سے ٹیکس کا حصہ تقریباً ایک فیصد ہے۔

خدمات کا شعبہ جس میں ڈاکٹر اور خدمات دینے والے دیگر شعبوں کے علاوہ ریٹیل سیکٹر یعنی دکان دار اور تاجر بھی شامل ہیں، اس کا جی ڈی پی میں حصہ 60 فیصد ہے تاہم اس کا ٹیکس میں حصہ 29 فیصد تک ہے۔

اگر صرف ریٹیل شعبے کی الگ سے بات کریں تو ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’ریٹیل شعبے کی ٹیکس ادائیگی بہت کم ہے جو اس بات سے واضح ہے کہ ملکی جی ڈی پی میں اس کا 20 فیصد حصہ ہے لیکن ٹیکس ادائیگی میں یہ صرف ایک سے دو فیصد ہے۔‘

ایسا ہی ایک اور شعبہ رئیل اسٹیٹ کا ہے جس کی جانب سے دیا جانے والے ٹیکس تنخوار طبقے سے بہت کم ہے۔

پاکستان
Getty Images

تنخواہ دار طبقے کا ٹیکس بڑھانا آسان کیوں ہے؟

پاکستان کے تنخواہ دار طبقے کی بات کی جائے تو گزشتہ 10 سال میں تنخواہ دار طبقے کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس میں بہت زیادہ اضافہ دیکھا گیا ہے۔

مالی سال 2013 میں تنخواہ دار طبقے نے مجموعی طور پر 50 ارب روپے کا ٹیکس ادا کیا تھا جس میں ہر سال اضافہ دیکھا گیا۔

گزشتہ مالی سال میں اس طبقے کی جانب سے ادا کیے جانے والے ٹیکس کی مالیت 264 ارب روپے تھی جب کہ پاکستان میں ٹیکس ریفارمز کمیشن کے سابق سربراہ اشفاق تولہ نے بی بی سے بات کرتے ہوئے کہا اس سال یہ طبقہ 330 ارب روپے تک ٹیکس ادا کرے گا۔

تو باقی شعبوں کے مقابلے میں اس طبقے سے زیادہ ٹیکس وصول کرنا کیوں آسان ہے؟

اس بارے میں ڈاکٹر اکرام الحق نے کہا کہ ’جب حکومت کو زیادہ ٹیکس اکٹھا کرنا ہوتا ہے تو دوسرے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش کے بجائے، کیونکہ تنخواہ دار طبقہ ایک آرگنائزڈ شعبہ ہے جس کا ڈیٹا حکومت کے پاس موجود ہے، ان کے لیے آسانی ہوتی ہے کہ وہ اس پر ٹیکس لگا کر آمدنی بڑھا لیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ٹیکس نیٹ میں دوسرے شعبوں کو لانے کے لیے بہت زیادہ کوشش اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے ایف بی آر بھی آسان راستہ اپناتا ہے۔‘

پاکستان کی سابق وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث بخش پاشا نے اس سلسلے میں کہا کہ ’انکم ٹیکس تو ایٹ سورس کاٹ لیا جاتا ہے اور اس میں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف بھی جب پاکستان کو کہتا ہے کہ زیادہ ٹیکس حاصل کرو تو اس کی جانب سے یہی تجویز آتی ہے کہ تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بڑھا دیں کیونکہ عالمی ادارے کو بھی معلوم ہے کہ ایف بی آر کے اندر مشکل فیصلوں اور اقدامات اٹھانے کی صلاحیت نہیں ہے کہ وہ دوسرے شعبوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لائے۔‘

آئی ایم ایف یا سیاسی مجبوری: بڑے شعبوں کو ٹیکس میں نہ لانے کی وجہ کیا ہے؟

پی ڈی ایم کے گزشتہ دور حکومت میں ریٹیل شعبے پر ٹیکس لگانے کی کوشش کی گئی تاہم اس وقت کے ویزر خزانہ مفتاح اسماعیل کو یہ اقدام اس وقت واپس لینا پڑا جب تاجروں کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔

پاکستان
Getty Images

حکومت بڑے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں کیوں نہیں لا پائی؟

پی ڈی ایم حکومت کی وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ اس بات کا اعتراف کرتی ہیں کہ ’سیاسی حکومتوں کی مجبوریاں ہوتی ہیں اور پاکستان میں ریٹیلرز اور زرعی شعبے کو ٹیکس نیٹ میں موثر طریقے سے شامل نہ کرنے کی بڑی وجہ سیاسی عزم کی کمی رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ایف بی آر کے اندر صلاحیت کی بھی کمی ہے کہ وہ نئے شعبوں سے زیادہ ٹیکس وصولی کے لیے کام کرے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’تنخواہ دار طبقے کے بجائے ریٹیل، پراپرٹی اور زراعت کے شعبے سے زیادہ ٹیکس کرنا چاہیے تاکہ ٹیکس وصولی بھی بڑھ سکے۔‘

پاکستان کے سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر سلمان شاہ نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کے بوجھ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک تو پاکستان کا ٹیکس نظام ناقص ہے جس کی وجہ سے نئے شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں نہیں لایا جا سکا۔‘

’دوسرا یہ نظام ایسا بنا ہوا ہے کہ لوگ ٹیکس نیٹ میں آتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ کہیں اس ٹیکس نیٹ میں آنے کے بعد وہ مسائل کا شکار نہ ہو جائیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’تاجر کسی سیاسی جماعت کا حلقہ ہیں یا نہیں اس سے قطع نظر یہ بات ضرور ہے کہ سیاسی جماعتیں یہ بات مد نظر رکھتی ہیں کہ کہیں ان کا ووٹر ناراض نہ ہوجائے اور انھیں انتخابات میں نقصان نہ ہو۔‘

زرعی شعبے کے بارے میں ڈاکٹر سلمان شاہ نے کہا کہ زرعی ٹیکس آئینی طور پر ایک صوبائی ٹیکس ہے۔

تاہم ان کے خیال میں اسے صوبوں سے بھی نیچے بلدیاتی سطح پر اکٹھا ہونا چاہیے کیونکہ ’لوکل کونسل کسی علاقے کی پیداوار سے زیادہ قریب ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا ’تاہم یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے افراد کی وجہ سے بھی اس شعبے سے ٹیکس کی وصولی نہیں ہو سکی۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
پاکستان کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.