عید اور پکوان: گجرانوالہ کے ’مٹن مچھلی‘ اور پشاور کے ’گولڈن پلاؤ‘ میں ایسا خاص کیا ہے؟

عید الاضحی کا موقع ہو اور گوشت یا گوشت سے بنے پکوان نہ ہوں تو دسترخوان اُدھورا لگتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ آپ کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے دو مشہور پکوانوں کے متعلق بتایا جائے جنھیں کھانے والے دوسروں کو بھی ایک بار چکھنے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں۔
پکوان
BBC

اب کوئی مانے یا نہ مانے لیکن عید الاضحٰی پر قربانی کا فریضہ ادا کرنے کے بعد زیادہ تر لوگوں کو پہلا خیال گوشت کھانے کا ہی آتا ہے۔ فرائی کی ہوئی کلیجی اور گوشت کا سالن سالہا سال سے مزیدار پکوان ہمارے گھروں کے عید مینیو کا حصہ رہے ہیں۔

ہم نے سوچا کہ روایتی ڈشز سے ذرا ہٹ کر کیوں ناں پنجاب اور خیبر پختونخوا کےدو مشہورپکوانوں کو دسترخوان کی رونق بنایا جائے۔

اب آپ نے چاہے بکرا خریدا ہو یا گائے میں حصہ ڈالا ہو اس تحریر میں مٹن اور بیف دونوں سے تیار کردہپکوانوں کا ذکر شامل ہیں۔

گجرانوالہ کی مٹن مچھلی

پکوان
BBC

بچپن سے سنتے ہوئے آئے ہیں کہ گجرانوالہ خوش خوراک پہلوانوں کا شہر ہے اور یہ بات وہاں کے کھانوں کے خالص پن سے عیاں ہوتی ہے۔ یہاں کےپکوانوں میں دیسی گھی کی خوشبو ہو یا پھر لسّی کا ذائقہ۔۔۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آپ پنجاب کے کسی گاؤں میں ہوں لیکن رکشوں کا شور، ٹرین کی سیٹی اور ہجومکی گہما گہمی آپ کو یاد دلاتی ہے کہ آپ شہر میں ہیں۔

گجرانوالہ کی گلیوں کے ہر موڑ پر کھانے کی دکانیں موجود ہیں اور یہاں کے لوگ خوش خوراک ہونے کے ساتھ ساتھ ذائقہ اور لذت کی پرکھ بھی رکھتے ہیں۔

گجرانوالہ شہر کی مین جی ٹی روڈ پر تقریباً ساٹھ سال سے زیادہ عرصے سے قائم ایک ڈھابہ نما ہوٹل پر دن کے بارہ بجے سے ہی ایسے رش لگ جاتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی۔

لوگوں کا یہ ہجوم یہاں کی مشہور ڈش مٹن مچھلی خرید کر گھر لیجانےکے لیے کھڑا ہے۔ اس سے زیادہ بھیڑ اس ہوٹل کے ’فیملی ہال‘ میں ہے جہاں آپ کو خواتین نظر نہیں آئیں گی۔

اردو میں مچھلی اور انگریزی میں شینک کہلانے والا گوشت مٹن، بیف یا دنبے کی ران کا حصہ ہوتا ہے۔ یہ حصہ لذیذ ہونے کے ساتھ ساتھ قیمت میں بھی مہنگا ہوتا ہے۔ پک کر یہ گوشت کافی نرم ہو جاتا ہے اور اسی لیے یہ گوشت کے شوقین لوگوں کا پسندیدہ بھی ہوتا ہے۔

پکوان
BBC

گجرانوالہ کی مشہور مٹن مچھلی کیسے تیار کی جاتی ہے؟

سب سے پہلے مٹن کی ہڈیوں کو کئی گھنٹوں تک پکانے کے بعد یخنی تیار کی جاتی ہے۔ پھر اسی یخنی سے مٹن مچھلی کے لیے شوربہ تیار کیا جاتا ہے۔ شوربے میں دیسی گھی کے علاوہ مسالے میں صرف نمک اور کالی مرچ ہی شامل کی جاتی ہے۔ ساتھ ہی مٹن کی مچھلیوں کو پریشر ککر میں گلا لیا جاتا ہے۔

پھر یخنی کو بڑے سے توے پر ڈالا جاتا ہے اور اس میں مچھلیاں شامل کی جاتی ہیں۔ اس کے اوپر خالص دیسی گھی کا تڑکا لگا کر اسے ایک بار پھر پکایا جاتا ہے۔ آخر میں اس پر کٹی ہوئی ہری مرچ، کٹی ہوئی ادرک، سبز دھنیا اور کالی مرچ کا چھڑکاؤ کیا جاتا ہے۔ پھر اسے ’چوپڑی روٹی‘ اور ٹھنڈی لسّی کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔

’چوپڑی روٹی‘ اس ڈش کا ایک لازمی جز ہے جس کے ساتھ مٹن مچھلی کھائی جاتی ہے۔ تندور سے گرما گرم نکلنے والی روٹی کے اوپر پہلے ایک چمچ خالص دیسی گھی لگایا جاتا ہے اور پھر اس پر پودینے اور انار دانے کی سادہ سی چٹنی لگائی جاتی ہے۔ اسے ’چوپڑی روٹی‘ کہا جاتا ہے۔

دکان کے مالک محمد عمیر کے مطابق آپ اس خاص پکثان کو گھر پر بنا تو سکتے ہیں لیکن اس کے ذائقے میں بڑا ہاتھ لوہے کے اس توے کا ہے جس پر گریوی اور گوشت کی ’مچھلیوں‘ کو چند منٹ کے لیے پکایا جاتا ہے۔ یعنی اصل ذائقے سے لطف اندوز ہونے کے لیے آپ کو گجرانوالہ ہی جانا پڑے گا۔

پشاور کا گولڈن پلاؤ

پکوان
BBC

بات لذت کی چلے گی تو دور تلک جائے گی اور ہم بھی ذائقے کی تلاش میں ایک صوبے سے دوسرے صوبے کی جانب چل دیے ہیں۔ اگر آپ خیبر پختونخوا گئے اور پشاور کا چنا میوہ یا گولڈن پلاؤ نہیں کھایا تو کچھ نہیں کھایا۔

یہ زبردست روایتی پکوان ہے جس کا ذائقہ کھانے والے کبھی نہیں بھولتے۔ اکثردوسرے علاقوں سے آنے والے افراد اسے غلطی سے کابلی پلاؤ سمجھتے ہیں مگر یہ ایک بالکل مختلف پکوان ہے کیونکہ اس میں چنے شامل ہوتے ہیں۔

پشاور شہر نے سکھوں، مغلوں، کانشکا اور برطانوی دور دیکھا ہے۔ یہاں تک کہ سویت جنگ کے دوران بے گھر ہونے والے کئی افغان باشندوں نے پشاور میں آ کر پناہ لی۔ اس وجہ سے یہاں کی ثقافت، اور پکوانوں پر ان سب کا اثر نمایاں ہے۔

ویسے تو پشاور نمک منڈی، چپلی کباب، چرسی تکہ، شنواری کڑاہی اور کابلی پلاؤ کے لیے جانا جاتا ہے مگر گذشتہ چند برسوں میں سوشل میڈیا کے آنے کے بعد نہ صرف پشاور بلکہ پاکستان بھر میں لوگ کھانوں کی ایسی ایسی جگہوں کو ڈھونڈ کر نکال رہے ہیں جن کا شاید ہی ہم میں سے کسی نے پہلے ذکر سنا ہو۔

آج سے تقریباً پانچ سال قبل کینیڈین یوٹیوبر ٹریور جیمز پاکستان آئے تھے جہاں اُنھوں نے پاکستان کے مختلف شہروں کا دورہ کیا اور یہاں کے کھانوں پر مختلف ویڈیوز بنائیں، اُنھی میں سے اُن کی ایک ویڈیو بہت وائرل ہوئی، نہ صرف وہ ویڈیو وائرل ہوئی بلکہ اُن کا معروفِ زمانہ ڈائیلاگ ’مزے دار‘ زبانِ زدِ عام ہوا۔

یہ ویڈیو پشاور شہر کے مقبول قصہ خوانی بازار کی تھی جس میں اُنھوں نے وہاں کا مشہور گولڈن یا چنا میوہ پلاؤ دکھایا۔ بس پھر کیا کئی انٹرنیشنل وی لاگرز اور انفلوئنسرز نے پشاور کا رُخ کیا اور اس پلاؤ کو چکھا۔ کینڈین وی لاگر کی یہ ویڈیو اب تک تین کروڑ اڑتیس لاکھ بار دیکھی جا چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

پکوان
BBC

یہ پلاؤ کیسے بنتا ہے اور اسے گولڈن پلاؤ کیوں کہتے ہیں؟

بڑی عید کا موقع ہو اور گوشت یا گوشت سے بنے پکوان نہ ہوں تو دسترخوان اُدھورا لگتا ہے۔ اس موقع سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ہم نے سوچا کہ کیوں نہ اس مشہور پلاؤ کے بارے میں جانا جائے کہ یہ کیسے بنایا جاتا ہے اور لوگ اس کو اتنا کیوں پسند کرتے ہیں اور آخر اس کو گولڈن پلاؤ کیوں کہا جاتا ہے؟

ہم جب پشاور کے خیبر بازار میں ایک دکان کے قریب پہنچے تو رش دیکھ کر اندازہ ہو گیا کہ یہ چنا میوہ پلاؤ کی ہی دکان ہو گی۔ پھر دکان کے باہر، ہجوم کے بیچ پلاؤ کا ایک ڈھیر بھی نظر آیا۔ سب سے انوکھی چیز جو دیکھ کر حیرت ہوئی وہ یہ تھی کہ اس پلاؤ کے ساتھ گوشت الگ تول کر دیا جاتا ہے۔

رحمان گل کے نام سے مشہور یہ دکان پشاور میں 35 سال پرانی ہے۔

رحمان گل پر ملنے والے پلاؤ کی بات کی جائے تو کشمش اور سفید چنوں میں پکے پلاؤ کی خوشبو اس قدر تھی کہ دیکھ کر ہی منھ میں پانی آ رہا تھا۔ اگر گاہکوں کی بات کریں تو لمبی لمبی قطاروں میں لوگ صبح کے گیارہ بجے سے کھڑے ہوئے تھے۔

ہم نے دکان کے مالک کے بیٹے سلمان گل سے بات کی جنھوں نے بتایا ’اس پلاؤ کو گولڈن پلاؤ اس کے رنگ کی وجہ سے کہا جاتا ہے پھر اس میں میوے، سٹیم گوشت اور سفید چنے ڈالے جاتے ہیں جو اس کے رنگ کو مزید نکھارتے ہیں۔‘

اس دکان کی خاص بات جو ہمیں وہاں کے مقامی لوگوں نے بتائی وہ یہ ہے کہ پشاور میں اس پلاؤ کا ٹرینڈ شروع کرنے والی بھی یہی دکان تھی۔ اُنھوں نے بتایا آج جو دکان اتنی بڑی نظر آرہی ہے یہ کئی سال پہلے صرف پانچ مربع فٹ کی تھی۔

سلمان گل نے بتایا ’ دکان صبح آٹھ بجے کھلتی ہے اور شام چار بجے تک ساری دیگیں فروخت ہو جاتی ہیں‘۔ اب ذہن میں یہی سوال آ رہا ہو گا کہ آخر ایک دن میں یہ لوگ کتنی دیگیں سیل کر دیتے ہیں، سلمان نے اسی بات کا جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ’ ہم ایک دن میں 25 دیگیں فروخت کر دیتے ہیں اور اس میں تقریباً 500 سے 600 کلو گوشت ڈالا جاتا ہے۔‘

سلمان گل کے مطابق اس گوشت کو تیار کرنے کے لیے گھی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف مسالے، گوشت کی یخنی ڈالی جاتی ہے۔ اس پلاؤ کے ذائقے کی بات کریں تو یہ کابلی پلاؤ سے بالکل مختلف ہے۔ گوشت کو اس قدر گلایا جاتا ہے کہ ہاتھ میں پکڑتے ہی بوٹی ٹوٹ جاتی ہے۔ ’ایک کلو کی پلیٹ 800 کی ہوتی ہے اور اس کو دو لوگ باآسانی کھا سکتے ہیں۔‘

یہ پلاؤ کھانے کے بعد ہمیں یہ سمجھنے میں زیادہ مشکل نہیں پیش آئی کہ آخر لوگ کیوں گھنٹوں لائنوں میں کھڑے ہو کر اس کو کھاتے ہیں۔ اگر اگلی بار آپ کا بھی پشاور چکر لگے تو یہ پلاؤ ضرور کھائیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.