جب آپ بہت زیادہ کیفین لیتے ہیں تو کیا ہوتا ہے؟

کیفین دنیا کے کچھ مقبول ترین مشروبات کا حصہ ہے اور یہ انسانوں کے لیے کافی پُر اثر ہے لیکن کیفین بہت زیادہ مقدار میں لے لی جائے تو کیا ہوتا ہے؟
کیفین
Getty Images

کیفین دنیا کے کچھ مقبول ترین مشروبات کا حصہ ہے اور یہ انسانوں کے لیے کافی پُر اثر ہے لیکن کیفین بہت زیادہ مقدار میں لے لی جائے تو کیا ہوتا ہے؟

یہ آپ کی صبح کی کافی اور چائے کے کپ میں بھی ہوتی ہے یا آپ کے پسندیدہ انرجی ڈرنک اور بہت سے مشہور سافٹ ڈرنکس میں بھی اسے شامل کیا جاتا ہے۔ اگر ہم سُستی محسوس کر رہے ہوں تو ایسے میں اس کی چُسکیاں ہمارے جسم اور دماغ کوتر و تازہ کر دیتی ہیں۔

لیکن حال ہی میں امریکہ میں لیمن ایڈ فروخت کرنے والی ایک برانڈ کوبند کر دیا گیا کیونکہ اس پر الزام تھا کہ اس میں کیفین کی مقدارمبینہ طور پر ملک میں بالغوں کےلیے کیفین کی تجویز کردہ یومیہ مقدارسے خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

اس بات سے یہ سوالات پیدا ہوئے ہیں کہ کیفین کی کتنی مقدار کوبہت زیادہ کہا جا سکتا ہے؟ اور کیا اس سے کوئی فرق پڑتا ہے کہ ہم اسے کہاں سے حاصل کرتے ہیں؟

کیفین جسم پر کیسے اثر انداز ہوتی ہے ؟

ہمارے جسم میں ہر وقت بہت سے اہم افعال ہوتے رہتے ہیں جس میں دل کی دھڑکن، خون کا بہاؤ اور سونے اور جاگنے کا سلسلہ۔ ان میں سے بہت افعال ایڈینوسین کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ یہ ایک کیمیکل جو آپ کے جسم میں قدرتی طور پر ہوتا ہے اور جس کا کام ہمیں دن کے آخر میں تھکا دینا ہے۔

امریکہ میں ذیابیطس، ہاضمے اور گردوں کے امراض سے متعلق قومی ادارے میں مالیکیولر ریکگنیشن سیکشن کے سربراہ کینتھ جیکبسن کا کہنا ہے کہ ’ایڈینوسین جسم میں قدرتی طور پر پیدا ہونے والے مادوں میں سے ایک ہے جو ایسے اعضا میں سرگرمی کو روکنے کا سبب بنتا ہے جو تناؤ میں ہیں یا جن میں توانائی کی طلب کو کم کرنے کی ضرورت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایڈینوسین ریسیپٹرز جسم میں بہت سے خلیوں کی بیرونی سطح پر پائے جاتے ہیں اور وہ خلیے کے قریب ایڈینوسین کی متغیر سطح پر رد عمل دیتے ہیں تاکہ خلیے کے اندر اس کی سرگرمی کی سطح کو کم کرنے کے لیے کمانڈ بھیجی جاسکے۔ اس سے دل، گردے، مدافعتی نظام اور دیگر ٹشوز میں نیند کو فروغ ملتا ہے۔‘

جب ہم کیفین کا استعمال کرتے ہیں تو یہ تیزی سے ہمارے خون کے بہاؤ میں جذب ہوجاتا ہے جہاں یہ ان ریسیپٹرز سے مل کر انھیں کام کرنے سے روکتا ہے اور ایڈینوسین سے مقابلہ کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ کیفین کا استعمال ہمیں زیادہ بیدار اور چُست محسوس کرسکتا ہے۔

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز میں فزیالوجی کے پروفیسر ڈیمین بیلی کا کہنا ہے کہ کیفین ڈوپامائن اور ایڈرینالین جیسے دیگر نیورو ٹرانسمیٹرز کی سطح کو بھی بڑھا سکتی ہے جس سے آپ کو زیادہ چُستی محسوس ہوسکتی ہے۔

بیلی کہتے ہیں کہ ’دماغ ایک بڑے پٹھے کی طرح ہوتا ہے۔ اسےبہت سے کام کرنے ہوتے ہیں اور ڈوپامائن، ایڈرینالین اور کیفین سب اسے متحرک رکھتے ہیں۔‘

کیفین
Getty Images

کیفین سے صحت کو پہنچنے والے فائدے

ہماری صحت پر کیفین کے بہت سے اثرات ثابت شدہ ہیں اور یہ لوگوں کی بڑی تعداد کی غذا میں شامل ہے۔

سنہ 2017میں 200 سے زائد میٹا تجزیوں میں پایا گیا کہ دن میں تین سے چار کپ کافی پینے سے نقصان کے بجائے طبی فوائد زیادہ ہیں۔ تاہم کافی پینے والے ایسے افراد جو تمباکو نوشی بھی کرتے ہیں ان میں اس کے نقصان دہ اثرات ہو سکتے ہیں۔

تاہم دل کی صحت کے حوالے سے صورتحال ذرا حسّاس ہے۔ تقریبا 19,000 افراد پر کیے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ایک دن میں دو کپ سے زیادہ کافی پینے سے ان لوگوں میں دل کی بیماری سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے جو پہلے سے ہی ہائی بلڈ پریشر کا شکار تھے۔ تاہم صحت مند افراد میں ایسا نہیں تھا۔

سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ اگرچہ کافی کا معتدل استعمال موت، ہائی بلڈ پریشر اور ہارٹ فیلیئر کے خطرے کو کم کرسکتا ہے لیکن دل کی بیماری کے خطرے پر کوئی واضح اثر نہیں پایا گیا۔

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ کافی کے اثرات اس بات پر بھی منحصر ہیں ہم کتنی اچھی طرح ورزش کرتے ہیں۔سائیکل چلانے والوں پر کیے گئے ایک مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ یہ جسمانی کارکردگی کو 1.7فیصد تک بہتر بنا سکتی ہے۔

کیفین کو کینسر، دل کی بیماری اور ٹائپ 2 ذیابیطس کی متعدد اقسام کے خطرے میں کمی کے ساتھ بھی منسلک کیا گیا ہے۔

جیکبسن کا کہنا ہے کہ چائے نہیں بلکہ کافی کو بارہا ڈپریشن سے بچاؤ کا ذریعہ پایا گیا ہے اور اس بات کے بھی ثبوت موجود ہیں کہ ایڈینوسین کو روکنے والےجزو بشمول کیفین عمر رسیدہ دماغ کے لیے فائدہ مند ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’کیفین اور دیگر زیادہ طاقتور مصنوعی کیفین جیسے مالیکیولز کا طبی طور پر مطالعہ کیا گیا ہے اور انھیںالزائمر ڈیمنشیا سمیت نیوروڈیجینریٹو بیماریوں میں مبتلا انسانوں میں فائدہ مند پایا گیا ہے۔‘

درحقیقت تحقیق میں پایا گیا کہ کیفین کے استعمال سے الزائمر کا خطرہ 60 فیصد تک کم ہوا۔

بیلی کہتے ہیں کہ اس کی ایک وضاحت یہ ہے کہ کیفین دماغ میں خون کے بہاؤ کو بہتر بناتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ دماغ توانائی کی ایک بڑی مقدار کو استعمال کرتا ہےہمارے جسم کے وزن کا صرف 2 فیصد وزن ہونے کے باوجود یہ ہمارے جسم کی توانائی کی ضروریات کا ایک چوتھائی سے زیادہ خرچ کرتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ کیفین کی دماغ میں خون کا بہاؤ بڑھانے کی صلاحیت ایک اچھی چیز ہے لیکن اس سے سر درد بھی ہوسکتا ہے لہذا کیفین میگرین کے شکار افراد کے لیے خطرے کی علامت ہے۔‘

کافی کو آنتوں کے جرثوموں کی صحت مند ساخت کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے اس کی وجہ جزوی طور پر بائیو ایکٹو پولی فینول اور الکلائڈ مرکبات ہیں جن میں سے کیفین ایک ہے۔یہ بات اب تسلیم شدہ ہے کہ آنتوں کے مائیکروبائیوٹا کی صحیح ساخت ہماری صحت پر وسیع پیمانے پر اثرات مرتب کر سکتی ہے۔

کافی سے وابستہ کچھ طبی فوائد اس میں موجود کیفین مواد تک محدود نہیں ہیں۔

کارنیلس کہتی ہیں کہ کلوروجینک ایسڈ جو کافی کا منفرد مرکب ہے یہکافی کے کچھ فائدہ مند طبی نتائج کا باعث ہوسکتا ہے خاص طور پر ذیابیطس کےلیے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’آبادی کے اعداد و شمار سے ثابت ہوتا ہے کہ کافی پینے سے ذیابیطس میں کمی آتی ہے لیکن اس کے اثرات ڈی کیف میں بھی پائے جاتے ہیں لہٰذا اس کا شاید کیفین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

اور بہت سے کیفین والے مشروبات میں موجود دیگر چیزوں کی وجہ سے مختلف اثرات ہوسکتے ہیں۔

یہی صورتحال مختلف اقسام کی کافی کے ساتھ بھی ہے۔

مثال کے طور پرروسٹ کی گئی کافی میں بایو ایکٹو مرکبات ہوتے ہیں جو اینٹی آکسیڈنٹ اور سوزشدور کرنے کے اثرات رکھتے ہیں۔

رواری کا کہنا ہے کہ اگرچہ فوری تیار ہونے والی کافی میں فلٹر کافی کے مقابلے میں زیادہ صحت مند پولی فینول ہوتے ہیں لیکن اس میں کارسینوجن ایکریلامائڈ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

چائے میں فلیوینول مواد کی وجہ سے اسی طرح کے سوزش ختم کرنے اثرات بھی پائے گئے ہیں۔

کیفین
Getty Images

کیا تمام اقسام کی کیفین ایک طرح تیار ہوتی ہے؟

اگرچہ کافی اپنی کیفین والی خصوصیات کے لیے مشہور ہے تاہم چائے بھی اس کا ایک مضبوط حریف ہے۔

بیلی کہتی ہیں کہ ’جہاں تک کیفین کا تعلق ہے تو کڑک بنائی گئی کالی اور سبز چائے سے اسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔‘

دو دہائیوں میں پانچ لاکھ سے زائد کافی پینے والوں پر کی جانے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ فلٹر شدہ کافی پینے والے افراد میں شریانوں کی بیماری اور موت کی شرح ان لوگوں کے مقابلے میں کم تھی جو کافی نہیں پیتے تھے۔

محققین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ یہ کیفین کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔

ماضی میں کی گئی ایک تحقیق میں پایاگیا تھا کہ صرف کافی پینے کے مقابلے میںکبھی کبھار چائے پینے کے ممکنہ طبی نتائج ہیں۔

محققین نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جو مرد روزانہ کیفین کا ایک تہائی سے نصف حصہ کافی سے حاصل کرتے ہیں ان میں موت کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے اور وہ خواتین جو صرف کافی یا 40 فیصد تک چائے پیتی ہیں ان میں موت کا خطرہ سب سے کم ہوتا ہے۔ لیکن جو لوگ اس سے زیادہ چائے پیتے ہیں ان میں موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

ایک اور حالیہ رجحان انرجی ڈرنکس میں کیفین کا استعمال ہے۔ ان کے لیے کیفین والے سافٹ ڈرنکس کی مبہم اصطلاحاستمعال ہوتی ہے اور ان میں چینی اور گورانا جیسے دیگر اجزا شامل ہیں۔

گورانا کے بیجوں میں کافی کی پھلیوں کے مقابلے میں تقریبا چار گنا زیادہ کیفین ہوتی ہے اور ان بیجوں میں دیگر قدرتی کیمیکلز کا امتزاج اسے کیفین کے مقابلے میں زیادہ پر اثر بناتا ہے۔

مطالعات سے پتہ چلتا ہے کہ برطانیہ اور امریکہ میں سب سے زیادہ مقبول کیفین والے انرجی ڈرنکس میں 75 سے 160 ملی گرام کیفین ہوتی ہے لیکن کچھ میں 500 ملی گرام تک کیفین ہوتی ہے۔

یونیورسٹی کالج لندن میں نیوٹریشن سائنس ایجوکیشن کے ڈاکٹریٹ محقق ایلکس رونی کا کہنا ہے کہ انرجی ڈرنکس میں اکثر دیگر اجزا جیسے بی وٹامنز، ایل کارنیٹائن، ایلتھینائن اور گلوکورونولیکٹون شامل ہوتے ہیں۔

’جب یہ تمام چیزیں مل جائیں تو دماغ اور دل سمیت جسم کے بہت سے نظاموں کو پریشان کر سکتی ہیں۔ طویل مدت تک استعمال کے بعد یہ دل کے نقصانات جیسے ہائپوٹینشن اور ایریتھمیا ، اور اعصابی خلل جیسے گھبراہٹ کے حملے اور دورے کا سبب بن سکتا ہے۔‘

کیفین
Getty Images

صحیح وقت پر استعمال

چاہے آپ میٹنگز میں ہوشیار رہنے کے لیے کیفین کا استعمال کریں یا جم میں اپنی قوت برداشت کو بہتر بنانے کی کوشش میں دن کا وہ وقت اہم ہوتا ہے جب آپ اسے پیتے ہیں۔

بیلی کا کہنا ہے کہ’ 20 منٹ کے بعد خون میں کیفین کی سطح بڑھ جاتی ہے اورکا مکمل اثر ہونے کے لیے تقریبا ایک گھنٹہ لگتا ہے۔‘

’کیفین پٹھوں کو زیادہ طاقتور طریقے سے سکڑنے میں مدد کرتی ہے اور تھکاوٹ کے لیے ہماری برداشت میں اضافہ کرتی ہے، لہٰذا اگر ورزش سے ایک گھنٹہ پہلے لیا جائے تو یہ کارکردگی کو کافی حد تک بڑھا سکتی ہے۔‘

کچھ محققین کہتے ہیں کہ جب آپ صبح اٹھتے ہیں تو کم از کم 90 منٹ سے دوگھنٹے بعدپہلا کپ کافی پیئں۔

ان کی وجہ ہے کہ جاگنے کے بعد پہلے چند گھنٹوں میں آپ کے خلیات کے باہر ریسیپٹرز سے منسلک ایڈینوسین آہستہ آہستہ صاف ہوجائے گا جس سے کیفین کو زیادہ مؤثر طریقے سےاثر انداز ہونے کا موقع ملے گا۔

تاہم، دوسرے محققین اس خیال کی صداقت سے اختلاف کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے حق میں بہت کم سائنسی ثبوت موجود ہیں۔

اگرچہ کیفین آنتوں میں بہت تیزی سے داخل ہوتی ہے لیکن اس کے اثرات ختم ہونے میں گھنٹوں لگ سکتے ہیں۔ اس لیے سائنسدان مصورہ دیتے ہیں کہ آپ سونے سے آٹھ گھنٹے اور 48 منٹ پہلےآحری مرتبہ کیفین لیں۔

کیفین
Getty Images

کیفینکب لینی چاہیے؟

برطانیہ اور امریکہ میں جاری کردہ قومی رہنما اصولوں کے مطابق حاملہ خواتین کو کیفین کو روزانہ 200 ملی گرام تک محدود کرنا چاہیے۔

تاہم 37 میں سے 32 طالعات میں پایا گیا کہ کیفین نے حمل کےدوران خطرات کو نمایاں طور پر بڑھا دیا جس میں ماں کو حمل کے دوران ذیابیطس یا پریکلیمپسیا، یا جنین کی محدود نشوونما شامل ہوسکتی ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ کیفین آسانی سے پلیسینٹا کو عبور کرتی ہے۔

محققین نے دریافت کیا ہے کہ کیفین کے یومیہ ہر 100 ملی گرام اضافے سے اسقاط حمل اور مردہ بچے کی پیدائش اور 10 ملی گرام اضافے سے کم شرح پیدائش خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

آئس لینڈ کی ریکجاویک یونیورسٹی کے پروفیسر جیک جیمز کا کہنا ہے کہ کیفین شیر خوار بچوں کو بھی ماں کے دودھ سے منتقل ہوتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ’ اگرچہ بچوں کے خون میں کیفین کا ارتکاز ماں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے لیکن یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ نوزائیدہ بچے کیفین کوہضم نہیں کر سکتے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’یہ بات ثابت شدہ ہے کہ کیفین بالغوں کی نیند میں خلل پیدا اور اسے باقاعدگی سے استعمال کرنے والے صارفین میں جسمانی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ یہ علامات کیفین سے پرہیز کرنے کے چھ گھنٹے بعد ہی سامنے آسکتی ہیں خاص طور پر روزانہ کیفین استعمال کرنے والوں میں اور ان علامات میں سر درد اور چڑچڑاپن شامل ہوسکتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ نوزائیدہ بچوں میں کیفین کی وجہ سے پیدا ہونے والی علامات کے بارے میں بہت کم مطالعہ کیا گیا ہے لیکن ہم یہ فرض کر سکتے ہیں کہ بالغوں کے مقابلے میں اس طرح کے اثرات متاثر کن ہوسکتے ہیں۔‘

ایلکس کہتے ہیں ’ نہ صرف کیفین نیند آنے پر اثر انداز ہوتی ہے بلکہ یہ اس بات پر بھی اثر انداز ہوسکتا ہے کہ آپ کتنی گہری نیند لیتے ہیں۔‘

اس بات کے ثبوت بھی موجود ہیں کہ ایڈینوسین میں مدافعتی اور سوزش کی خرابی کے خلاف اینٹی انفلیمیٹری اثرات ہیں۔

جیکبسن کا کہنا ہے کہ ’ان حالات میں معالجکے مشورے سے کیفین کا استعمال کم کرنا مناسب ہوگا۔‘

کیفین
Getty Images

کیفین کی کتنی مقدار لینا بہت زیادہ کہلائے گا؟

برطانیہ میں خاص طور پر کوئی رہنما اصول نہیں ہیں لیکن یورپی فوڈ سیفٹی اتھارٹی ای ایف ایس اے صحت مند افراد کو مشورہ دیتی ہے کہ وہ روزانہ 400 ملی گرام سے زیادہ نہ پئیں اور ایک مشروب میں اس کی مقدار 200 ملی گرام سے زیادہ نہ ہو۔

بیلی کہتے ہیں کہ عام طور پر اس بات پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ روزانہ 200 سے 300 ملی گرام کافی پینا بہتر ہے۔ لیکن جب ہم یہ نہیں جانتے کہ کسی بھی مشروب میں کیفین کی کتنی مقدار ہے تو یہ سفارشات بے کار ہوسکتی ہیں۔

اگر ہم فرض کریں کہ ایک کپ کافی میں 100 ملی گرام ہے توروزانہ چار کپ کافی400 ملی گرام ہے لیکن بیلی کا کہنا ہے فلیٹ وائٹ کافی کے چار کپ میں کیفین 400ملی گرام کی حد سے زیادہ ہو گی۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ بیجوں کی مختلف اقسام کافی کی مقدار اور مشروب کی تیاری ان سب کا اثر پڑ سکتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انھیں علم نہیں ہے کہ وہ آپ کو کتنی کیفین دے رہے ہیں۔‘

ایک ایسپریسو میں 250 ملی گرام سے 700 ملی گرام کیفین ہوسکتی ہے اور کچھ انرجی ڈرنکس 500 یا 600 ملی گرام ہوسکتی ہیں۔

بیلی کہتے ہیں کہ ’کیفین زیادہ ہو جانا آسان ہے اور آپ کواس کا پتہ بھی چل جاتا ہے کیونکہ آپ کو متلی اور چڑچڑا محسوس ہوسکتا ہے اور سر دردبھی ہوسکتا ہے۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ ’آپ کے دل کی دھڑکنیں تیز ہو سکتی کیونکہ دل کے پیس میکر متاثر جاتے ہیں۔‘

جیکبسن کا کہنا ہے کہ روزانہ تقریبا دو یا تین کپ کافی کا معتدل استعمال صحت مند افراد میں کسی بھی سنگین منفی ضمنی اثرات سے منسلک نہیں ہے۔ ان کا مشورہ ہے کہ جو لوگ کیفین کا استعمال بند کرنا چاہتے ہیں وہ کچھ دنوں میں آہستہ آہستہ ایسا کریں۔ اگر آپ مسلسل زیادہ مقدار میں کیفین پیتے ہیں تو اس کا استعمال اچانک بند کرنے کے بعد اسے دوبارہ شروع کرنے کا زیادہ امکان رہتا ہے۔

کارنیلس کہتے ہیں ’وہ لوگ جو طویل عرصے تک بہت زیادہ کیفین کا استعمال کرتے ہیں وہ اس کے عادی ہو جاتےہیں کیونکہ ایڈینوسین ریسیپٹرز کئی گنا بڑھ جاتے ہیں جس کی وجہ سے کیفین کی غیر موجودگی میں بھی یہ ایڈینوسین اپنا اثر دکھاتے رہتے ہیں۔‘

کیفین
Getty Images

انفرادی فرق

محقق الیکس رونی کا کہنا ہے کہ کم از کم آٹھ جینز ایسے ہیں جو ہمیں وراثت میں ملے ہیں جو کیفین کے استعمال سے وابستہ ہیں جن میں وہ بھی شامل ہیں جو اعصابی محرک، دماغ پر کافی کے نفسیاتی اثرات، ہم کافی کو کتنی تیزی سے میٹابولائز کرتے ہیں، ہم کتنا برداشت کرسکتے ہیں اور ہم اس سے کتنا لطف اندوز ہوتے ہیں ان سب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

کارنیلس کا کہنا ہے کہ ہم جو کیفین کھاتے ہیں اس میں سے نصف کو میٹابولائیز کرنے میں دو گھنٹے سے بھی کم وقت لگ سکتا ہے، لیکن کچھ لوگوں کو اس میں 12 گھنٹے سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

کارنیلس کا کہنا ہے کہ یہ فرق بڑی حد تک ہمارے جسم میں سی وائی پی 1 اے 2 انزائم میں جینیاتی تغیرات کی وجہ سے ہے جو کیفین میٹابولزم کے 90 فیصد سے زیادہ کی نمائندگی کرتا ہے۔

لوگوں کی دو اقسامہوتی ہیں کیفینپر ردِ عمل دینے والے ردِ عمل نہ دینے والے۔ ممکن ہے کہ آپ کو علم ہو کہ آپ کس زمرے میں آتے ہیں۔

کارنیلس کا کہنا ہے کہ زیادہ تر لوگوں کی کافی پینے کی عادات ان کے جینیاتی رجحان سے مطابقت رکھتی ہیں کیونکہ ہم یہ معلوم کرسکتے کہ ہم کتنی کافی برداشت کرسکتے ہیں اور ہم اپنی انفرادی حد کے اندر رہتے ہیں۔

لیکن یہاں کیفین سے وابستہطبی فوائد زیادہ پیچیدہ ہوجاتے ہیں۔

کارنیلس کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ کافی کو جلدی میٹابولائز کرتے ہیں انھیں طبی فوائد حاصل کرنے کے لیے اس کےزیادہ استعمال کرنے کی ضرورت ہوسکتی ہے ، کیونکہ یہ بہت جلدی ختم ہوجاتی ہے۔‘

ہمارے جینیاتی فرق اس حد کو بھی متاثر کرسکتے ہیں کہ کافی کا عادی استعمال طبی فوائد کو کس حد تک فروغ دے سکتا ہے۔

رونی کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ کیفین والے مشروبات پینے سے ہائی بلڈ پریشر کا شکار ہو سکتے ہیں کچھ لوگ نہیں ہوتے۔ کچھ لوگ کیفین کی دل کو محفوظ بنانے والی خوبیوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اور کچھ نہیں کرتے‘۔

آپ کو کیفین کا استعمال کیسے کرنا چاہیے؟

کیفین ایک انوکھی دوا ہے کیونکہ یہ بہت آسانی سے دستیاب ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کا معتدل استعمال کرنا زیادہ اہم ہو جاتا ہے۔

بیلی کا کہنا ہے کہ اگر آپ بے آرام ہیں اور بے چینی محسوس کر رہے ہیں توممکن ہے کہ آپنےاپنی کیفین کی مقررہ حدپوری کر لی ہے۔ لیکن اس کیاصل علامت، رات کو سونے میں مشکل پیش آنا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں ’ہمیشہ شام کے کھانے کے اختتام پر کافی سے انکار کریں، نیند دماغ کے لیے بہت ضروری ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.