ہم اکثر چیزوں میں برائی ہی کیوں تلاش کرتے ہیں؟

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دنیا بہتر ہو رہی ہے یا بدترین حالات کی جانب بڑھ رہی ہے؟ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں دُنیا بد تر ہو رہی ہے تو آپ ایسا سوچنے والے اکیلے فرد نہیں۔ بری خبریں تیزی سے پھیلتی ہیں، لیکن کیا ہمارے پاس پرامید ہونے کی زیادہ وجوہات ہیں؟
Cartoon man carries a large cutout of a thumbs-down emoji
Getty Images

کیا آپ کو لگتا ہے کہ دنیا بہتر ہو رہی ہے یا بدترین حالات کی جانب بڑھ رہی ہے؟ اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں دُنیا بد تر ہو رہی ہے تو آپ ایسا سوچنے والے اکیلے فرد نہیں۔

گیلپ ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق گذشتہ دو دہائیوں میں دنیا بھر میں منفی جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ گیلپ کی جانب سے 2022 میں ہونے والے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ دنیا بھر میں ہر 10 میں سے چار بالغوں نے اس بات کا اظہار کیا کہ انھیں بہت زیادہ پریشانی یا تناؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

یہ شاید کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کیونکہ ہمارے مسائل اکثر سنگین اور ناقابل تردید ہوتے ہیں۔ دُنیا میں جاری جنگیں، آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات اور اخراجاتِ زندگی میں ہونے والے اضافے سے ایسا لگتا ہے کہ بس اب دنیا گھٹنے ٹیک رہی ہے یعنی حالات بدتر ہو تے جا رہے ہیں۔

لیکن ساؤل پرلمٹر کے مطابق یہ کہانی کا صرف ایک رخ ہے۔ وہ ایک امریکی ماہر فلکیات ہیں جنھیں 2011 میں طبیعیات میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ وہ سائنسدانوں کی ایک ایسی ٹیم کا حصہ تھے کہ جنھوں نے اس بات کے ثبوت فراہم کیے تھے کہ کائنات تیزی سے پھیل رہی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ لوگ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ ایک ایسے وقت میں جی رہ رہے ہیں کہ جس میں ہم نے زندگی کے بہت سے پہلوؤں کو بہتر بنایا ہے۔‘

Saul Perlmutter
Getty Images

ہم یقینی طور پر ایک طویل سفر طے کر چکے ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مطابق 1900 میں پیدا ہونے والے بچوں کی متوقع اوسط عمر 32 سال تھی جو 2021 تک یہ تعداد دگنی سے بھی زیادہ ہو کر71 ہو گئی۔ بچوں کی شرح اموات میں ڈرامائی طور پر کمی آئی ہے اور ہم نے غربت کو کم کرنے میں بھی بڑی پیش رفت کی ہے۔‘

متعدی بیماری کی روک تھام سے لے کر بڑھتی ہوئی خواندگی تک بہت سارے اعداد و شمار ہیں جو دنیا کی ترقی کو ظاہر کرتے ہیں۔

لیکن امریکہ کی برکلے یونیورسٹی میں تنقیدی سوچ پر ایک کورس تیار کرنے والے پرلمٹر کا کہنا ہے کہ یہ تاثر رائج ہے کہ ’ہر چیز خوفناک اور خطرناک ہے۔‘

اور اس بات کو مانیں یا نہ مانیں اس میں کُچھ الزام ہمارے آباؤ اجداد پر بھی ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

تعصب

ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگی میں ہونے والی اچھی چیزوں سے غافل ہیں بلکہ یہ کہ انسانوں کو ایک ادراکی حالت سے نمٹنا پڑتا ہے جسے تعصب کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ برے تجربات مثبت تجربات کے مقابلے میں زیادہ دیرپا نفسیاتی اثر ڈالتے ہیں۔

یہ سمجھنے کے لیے کہ ایسا کیوں ہے ہمیں اس وقت کی طرف واپس جانا ہو گا کہ جب انسان غاروں میں رہتے تھے۔ اُس وقت کی بات کی جائے تو شاید ہمارے آباؤ اجداد کے لیے منفی معلومات کو برقرار رکھنا زندگی اور موت کا معاملہ ہوسکتا ہے۔

ایک غلط قدم شکاری کو خطرناک صورت حال میں دھکیل سکتا ہے جیسے نامناسب خوراک یا کھانا ہمارے لیے زہر ثابت ہو سکتا ہے جو ہماری جان بھی لے سکتا ہے۔

Painting of a group of caveman running away from a mammoth
Getty Images

امریکہ کی پین سٹیٹ یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر پال روزن کا کہنا ہے کہ ’ہمارے آباؤ اجداد کو ایک ایسی دنیا کا سامنا تھا جس ان کے جان کو خطرات لاحق رہتے تھے۔اب حالات بہت بہتر ہیں لیکن یہ بنیادی چیز اب بھی ہمارے ساتھ ہے۔‘

سنہ 2001 میں انھوں نے اپنے ساتھی پروفیسر ایڈورڈ روئزمین کے ساتھ مل کر ایک بااثر مقالہ لکھا جس میں یہ سامنے آیا کہ ’منفی رجحان یا تاثر مثبت کے مقابلے میں غالب رہتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’منفی واقعات کے اتنے اہم ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ وہ ہماری زندگی میں نسبتا نایاب یا کم ہوتے ہیں۔‘

وہ دلیل دیتے ہیں کہ ٹی وی اور انٹرنیٹ جیسی تکنیکی ترقی نے چیزوں کو بدتر بنا دیا ہے کیونکہ انھوں نے ہمیں معلومات تک زیادہ رسائی دے دی ہے۔ جس میں اچھی اور بری دونوں خبریں شامل ہیں۔

پروفیسر پال روزن کہتے ہیں کہ ’زیادہ تر خبریں منفی ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ آج فلاڈیلفیا میں 480 طیاروں نے بحفاظت اڑان بھری ہے۔ لیکن ایک ہوائی جہاز کو کسی تکنیکی مُشکل کا سامنا کرنا پڑا اور آپ بس اسی کے بارے میں سنتے ہیں کیونکہ یہ نایاب یا منفرد واقعہ ہے۔ طیارے کا بحفاظت اڑان بھرنا کوئی خبر نہیں۔‘

کچھ معاملات میں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ ہمارے دماغ ممکنہ خطرات پر حد سے زیادہ ردعمل ظاہر کرتے ہیں اور روزن کا خیال ہے کہ یہ بنیادی جبلتیں آنے والی نسلوں میں ختم ہوسکتی ہیں۔ لیکن وہ یہ اس جانب بھی اشارہ کرتے ہیں کہ حالیہ واقعات جیسے کورونا کی وبا کُچھ لوگوں کے ذہنوں پر حاوی رہ سکتی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میں کچھ ایسے لوگوں کو بھی جانتا ہوں کہ کورونا کے بعد اب بھی اگر گھر سے باہر نکلتے ہیں تو ماسک پہن کر۔‘

A woman on a dentist's chair looks scared as the dentist approaches her holding a pair of pliers
Getty Images

ساؤل پرلمٹر کا خیال ہے کہ ہمیں ان منفی تصورات کو تبدیل کرنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ وہ پرامید ہیں کہ ہم دنیا کے مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’یہ کوئی ایسی مایوس کن صورتحال نہیں ہے جہاں ہم کچھ کر نہیں سکتے۔‘

انھوں نے ’تھرڈ ملینیم تھنکنگ کریایٹنگ سینس ان ورلڈ آف نانسینس‘ نامی وہ کتاب لکھی ہے میں اس نکتے پر زور دیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ ’ہم نے دوربینیں بنائی ہیں جو آنے والے دمدار ستاروں اور سیارچوں کے آنے سے پہلے ہی ان کا پتہ لگا سکتی ہیں اور ہم نے ایک خلائی جہاز بھیجنے کی مشق کی ہے تاکہ اتنے دور کے سیارچے کے بارے میں جانا جا سکے۔‘

ہم میں سے بہت سے لوگوں کے برے تجربات کے باوجود پرلمٹر کا خیال ہے کہ مستقبل اس سے کہیں زیادہ روشن ہے جتنا ہم اکثر تصور کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’شاید تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب میرے خیال میں یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ہم سب کو کھانا کھلا سکتے ہیں، کپڑے پہن سکتے ہیں، گھر بنا سکتے ہیں اور تعلیم دے سکتے ہیں۔‘

ان کا خیال ہے کہ ہر ایک کے لیے سہولیات فراہم کرنا ممکن ہے ’اگر لوگوں میں اس بات کا احساس پیدا ہو جائے کو ہم سب ایک سے ہیں اور مل جُل کر ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہوئے ایک ساتھ رہ سکتے ہیں، تو یہ رہنے کے لیے ایک حیرت انگیز نسل یا وقت ہو سکتا ہے۔‘

اسی بارے میں


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.