نیپال: کروڑوں کا درخت جس کے تحفّظ کے لیے خاردار تاروں اور کیمروں کےعلاوہ پولیس بھی تعینات

نیپال کے ضلعے کاوری پالن چوک میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو سونے اور دیگر قیمتی پتھروں سے بھی مہنگا ہے۔ جہاں اس درخت سے علاقے کے کئی لوگوں کی خوشحال مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں وہیں کچھ عرصے سے اسے سکیورٹی کا مسائل کا بھی سامنا ہے۔

نیپال کے ضلعے کاوری پالن چوک میں ایک ایسا درخت بھی ہے جو سونے اور دیگر قیمتی پتھروں سے بھی مہنگا ہے۔ جہاں اس درخت سے علاقے کے کئی لوگوں کی خوشحال مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں وہیں کچھ عرصے سے اسے سکیورٹی کا مسائل کا بھی سامنا ہے۔

ایسا کیوں ہے اسے سمجھنے کے لیے تقریباً دو ماہ قبل کاوری پالن چوک کے دیہی علاقے روشی میں پیش آنے والے ایک واقعے کے بارے میں جاننا ضروری ہے جہاں ایک درخت کو چور کاٹ کر لے گئے۔

’کاش مجھے کچھ ہوجاتا، درخت کو کیوں کاٹا؟‘

اپنے بودھی چتا درخت کو یاد کرتے ہوئے 42 سالہ دل بہادر تمگ کی آنکھیں نم ہو گئیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’کاش مجھے کچھ ہو جاتا، میرے درخت کو کیوں کاٹا؟‘

اپنے درخت کے چوری ہو جانے کے بعد وہ آبدیدہ ہو کر بتا رہے تھے۔

روشی میں پیدا ہونے والے دل بہادر کی زندگی کبھی آسان نہ تھی۔ انھیں ایک کے بعد ایک مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔

انھوں نے کبھی ریت تو کبھی پتھر اٹھانے کا کام کیا۔ کبھی اپنے دو بچوں کی پرورش کی خاطر قطر کی شدید گرمی میں تعمیراتی شعبے میں مزدوری کی۔

لیکن جب دل بہادر کی تقدیر نے پلٹا کھایا اور ان کے حالات بدلنے کی امید نظر آئی تب ہی کچھ لوگوں نے ان کے تمام خواب چکنا چور کر دیے۔

بودھی چتا کا درخت دل بہادر کی زندگی میں بہار لے کر آیا تھا۔

وہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں لیکن اپنے چھوٹے بھائی شیر بہادر تمانگ اور خاندان کے دیگر افراد کی مدد سے اس درخت سے لاکھوں روپے کی آمدن حاصل ہونے لگی۔

شیر بہادر کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ سالوں سے وہ ایک ہی درخت سے بودھی چتا کے بیج فروخت کر کے آمدن حاصل کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ اس درخت نے نہ صرف ان کے خاندان کے تقریباً 20 سے 22 افراد کی پرورش میں کردار ادا کیا ہے بلکہ ان کا مستقبل بھی روشن نظر آنے لگا تھا۔

سمیپ ترپاٹھی تمانگ ان بیچوں کے خریداروں میں سے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’اگلے پانچ، سات سالوں کے لیے ہم نے ان سے اسی قیمیت پر بیج خریدنے کا معاہدہ کر رکھا تھا۔‘

مسلح گروہ کا حملہ

ترپاٹھی کے مطابق دل بہادر کے گھر موجود درخت شاید علاقے میں موجود سب سے قیمتی درختوں میں سے ایک ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ پورے ضلع میں صرف 9 سے 10 ایسے درخت ہیں جن سے سالانہ 80 سے 90 لاکھ روپے آمدنہوتی ہے۔

اپنی قدر کی وجہ سے دل بہادر تمانگ کا درخت شر پسندوں کا نشانہ سمجھا جاتا تھا۔

ان کو بھی اس کا بخوبی علم تھا۔ انھوں نے اس کے گرد خاردار تاریں، لوہے کا بڑا دروازہ اور گھر کے ساتھ والی زمین پر چاروں سمتوں میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے جہاں بودھی چتا کے کئی چھوٹے بڑے درخت تھے۔

لیکن 14 اپریل کی رات کچھ ایسا ہوا جو دل بہادر سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔

انھوں نے بتایا کہ آدھی رات کو مسلح افراد ان کے گھر آئے اور تالا توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے گھر پر فائرنگ کی گئی اور دروازے کے باہر بم رکھ دیا گیا جس کی وجہ سے وہ باہر نہیں نکل سکتے تھے۔

’ایک گھنٹے کی کوشش کے بعد ملزمان تالا توڑ کر اندر داخل ہوئے اور انھوں نے درخت کو آرے سے کاٹ دیا۔ ہم ابھی تک نہیں جانتے کہ انھوں نے ایسا کیوں کیا۔‘

شیر بہادر تمانگ کی جانب سے بی بی سی کو فراہم کردہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ لوگ بندوق اٹھائے ان کے گھر کے باہر موجود ہیں۔

پولیس کی جانب سے اس واقعے کی تفتیش تاحال جاری ہے۔ کچھ لوگوں کو حراست میں لے کر ان سے پوچھ گچھ کی گئی ہے۔

گاؤں والے خوف میں مبتلا

ماضی میں بھی اسی درخت پر حملے ہوچکے ہیں۔ حکام کا کہنا ہے کہ مقامی سطح پر بودھی چتا کے درختوں سے متعلق لین دین کے معاملات پر تنازعات ہوتے رہتے ہیں۔

روشی میونسپلٹی کے مم بہادر وائبا نے کہا کہ ’دیہی علاقے کی جوڈیشل کمیٹی میں ایک تہائی کیسز بودھی چتا سے متعلق ہیں۔‘

تیمل میونسپلٹی کے دلمن ٹھوکر کو بھی یہی شکایت ہے۔ کاروے ضلعی پولیس دفتر کے مطابق بودھی چتا کی وجہ سے وقتاً فوقتاً چوری اور لڑائی کے واقعات ہوتے رہتے ہیں۔ پولیس ترجمان ڈی سی پی راجکمار شریشتھا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم کیسز کی تحقیقات کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر سکیورٹی دیتے ہیں۔‘

تاہم حکام اس حوالے سے اعداد و شمار نہیں دے سکے کیونکہ اس کا ریکارڈ نہیں رکھا گیا ہے۔

روشی کے اس واقعے نے آس پاس کے دیہی علاقوں میں بھی خوف برپا کر دیا ہے۔ جائے وقوعہ کے قریب رہنے والے نارائن ہوماگی کا خاندان بھی انہی میں سے ایک ہے۔

ہوماگی کا کہنا ہے کہ ’میرے گھر پر دل بہادر نے ہی یہ پودہ لگایا تھا۔ میں اس کے بیج 20 لاکھ روپے میں فروخت کرتا تھا۔ میں نے سوچا تھا اس بار بھی مزید آمدن ہوگی۔ مگر اب جو کچھ ہوا اس سے ہم خوفزدہ ہیں۔‘

واقعے کے بعد انھوں نے درخت کی حفاظت کے لیے گھر کے گرد آٹھ سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’پڑوس میں درخت کٹتا دیکھ کر ہم بھی ڈرے ہوئے ہیں کہ ہمارے ساتھ بھی ایسا نہ ہوجائے۔ لوگ اس بات سے جلتے ہیں۔۔۔ میں نے کل ہی چار لاکھ روپے خرچ کیے تاکہ لوہے کا دروازہ نصب کرا سکوں۔ اس سال میں نے تین لاکھ روپے خرچ کر کے سی سی ٹی وی کیمرے لگائے ہیں اور دیگر انتظامات کیے ہیں۔‘

روشی میں پیش آنے والے اس واقعے کے اثرات تیمل تک محسوس کیے گئے ہیں۔ دلمن ٹھوکر نے کہا کہ ’ظاہر ہے اس سے خوف اور پریشانی بڑھی ہے۔ ہمارے گاؤں میں بھی قیمتی بودھی چتا درخت پر ایک تنازع ہوا ہے۔‘

مقامی استاد دوانگ دورجے لاما نے نو سے 10 بودھی چتا کے پودے لگا رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ایسے واقعات صحیح نہیں خاص کر جب یہ درخت ہر گھرانے میں آمدن کا ذریعہ ہے۔ ریاست کو کچھ کرنا ہوگا۔‘

مقامی لوگوں کو لگتا تھا کہ بودھی چتا اُگانے سے روایتی مکئی کی کاشت پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا مگر اب ایسے واقعات نے ان کی مشکلات بڑھا دی ہیں۔

روشی میونسپلٹی کے دودراج تمانگ نے کہا کہ ’یہ خدا کی طرف سے دیا گیا پرساد ہے۔ ہمیں نہیں معلوم اسے کیسے قبول کرنا ہے۔ ایک گھر میں ہی دو بھائیوں میں لڑائی ہوجاتی ہے۔‘

ادھر بزنس مین ارگن تمانگ نے کہا کہ ’اگر ایک درخت دو لاکھ روپے سے زیادہ مالیت کے بیچ دیتا ہے تو ہمیں خود ہی سکیورٹی اقدام کرنے پڑتے ہیں۔‘

’پچھلے سال میرے پانچ درخت چوری ہوئے۔۔۔ یہ تشویش ہے کہ اس سال چوریاں بڑھ جائیں گی۔‘

درختوں کی حفاظت کے لیے خاردار تاریں اور پولیس کا گشت

تیمل اور روشی گاؤں جانے پر کچھ عجیب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں جیسے بڑے بڑے درختوں کو نظروں کی اوجھل رکھنے کی کوشش۔ اس کے لیے لوہے کے بڑے بڑے دروازے، خاردار تاریں اور حفاظت کرنے والے کتے تک موجود ہیں۔

لوگ ان درختوں کو ژالہ باری اور بارشوں سے بھی بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ باغ کے مالک دیو لاما کہتے ہیں کہ ’لگاتار دو سال تک میرے درختوں کو ژالہ باری سے نقصان پہنچا۔‘

مقامی حکام نے قیمتی درختوں کی حفاظتی کے لیے پولیس کو گشت کا بھی حکم دے رکھا ہے۔ تیمل کے دلمن ٹھوکر نے کہا کہ ہفتے کے دو سے تین دن پولیس گشت کرتی ہے۔

علاقہ مکینوں کے مطابق ایک بار تو ایک بیوپاری نے باحفاظت کاشت کے لیے ہیلی کاپٹر ہی خرید لیا تھا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ ضرورت کے تحت سکیورٹی فراہم کی جائے گی، خاص کر کٹائی کے دوران۔ تاہم درخت اگانے والے کسانوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات ناکافی ثابت ہوں گے اگر مسلح ڈکیت ان پر حملہ آور ہوں۔

بودھی چتا کا درخت اتنا اہم کیوں؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ قیمتی بودھی چتا بیچوں کا ایک ’چینی تعلق‘ ہے۔ یہ درخت پہلے بھی گھروں میں اُگائے جاتے تھے مگر ان کے بیچوں کی اتنی فروخت نہیں ہوتی تھی۔

بودھی چتا کا کاروبار قریب ایک، ڈیڑھ دہائی میں پروان چڑھا ہے۔ چینی تاجر کئی سال سے ان دیہی علاقوں میں آتے ہیں اور انھیں خریدتے ہیں۔

لاما کا کہنا ہے کہ ’گاؤں کے تاجر چینی تاجروں سے رابطہ رکھتے ہیں۔ حکومت اپنی نگرانی میں چین کے علاوہ انڈیا، بھوٹان، منگولیا، سنگاپور، تائیوان اور روس کے ساتھ برآمدات کے لیے سازگار ماحول بنا سکی ہے۔‘

روشی کے کسان نارائن کو چینی دلچسپی پر تعجب ہے۔

اس حوالے سے اعداد و شمار نہیں کہ بودھی چتا سے سالانہ کتنی برآمدات ہوتی ہیں۔ خیال ہے کہ روشی اور تیمل میں اس سے لاکھوں روپے کی آمدن آتی ہے۔

بزنس مین ترپاٹھی نے کہا کہ ’ہم چینی تاجروں کو اپنا مال فروخت کرتے تھے۔ ہمیں نہیں معلوم وہ اپنے ملک کیسے لے جاتے تھے۔ شاید اگر اس پر کسٹم ڈیوٹی وصول کی جائے تو ریاست کو بھی اس کا فائدہ ہو۔‘

کسانوں کا کہنا ہے کہ بودھی چتا کا پودہ لگانے کے تین سال بعد اس سے بیج حاصل ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ اس کے بیجوں سے بدھ مت کے ماننے والے مالائیں بناتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ نیپال میں پایا جانا والا یہ نایاب درخت بہترین معیاری ہے اور بدھ مت کے ماننے والوں کے نزدیک اس کی مذہبی اہمیت بھی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.