کاہان: بلوچستان کا امن اور نمائندگی سے محروم دور دراز علاقہ جہاں 180 سال قبل برطانوی فوج کو بھی سمجھوتہ کرنا پڑا تھا

برطانوی فوجکے جنرل سر جان کین نے کاہان پر قبضے کا حکم تو دیا لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ وہاں پہنچنا اور پھر قبضے کو برقرار رکھنا کتنا مشکل ہوگا۔ مری قبائل اور انگریزوں کے درمیان مجموعی طور پر پانچ بڑی جنگیں ہوئیں جن میں سے دو میں مریوں کو جبکہ تین میں انگریزوں کو شکست ہوئی۔

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات کو اب چار ماہ گزر چکے ہیں مگر صوبہ بلوچستان میں ایک ایسا علاقہ موجود ہے جو اب تک امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے نمائندگی سے محروم ہے۔

ضلع کوہلو کے کاہان نامی اس علاقے میں شورش کوئی نئی بات نہیں۔ جب سنہ 1840 میں برطانوی فوج نے موجودہ بلوچستان کے ضلع کوہلو کے علاقے کاہان پر قبضہ کر لیا تو مری قبیلے کی مزاحمت کی وجہ سے وہ پانچ ماہ سے زیادہ عرصے تک اس قبضے کو برقرار نہ رکھ پائے۔

ڈیفینس آف کاہان نامی کتاب کے مصنف چارلس رینالڈ ویلیم کے بقول ’برطانوی فوج کے جنرل سر جان کین نے کاہان پر قبضے کا حکم تو دیا لیکن انھیں معلوم نہیں تھا کہ وہاں پہنچنا اور پھر قبضے کو برقرار رکھنا کتنا مشکل ہو گا۔‘

برطانوی فوج کے کاہان پر قبضے اور مقامی سطح پر مزاحمت کے 180 سال بعد بھی وہاں کے رہنے والے مسلح کارروائیوں سے پریشان ہیں اور اس بے یقینی میں انتخابی عمل بھی نہیں ہو رپا۔

سکیورٹی کے مسائل کے باعث 26 جون کو الیکشن کمیشن نے کاہان کے علاقے نساؤ میں واقع چار پولنگ سٹیشنوں پر ایک مرتبہ پھر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا لیکن اس مرتبہ پولنگ نساؤ میں نہیں ہوگی بلکہ اس کے چار پولنگ سٹیشنوں کو ضلعی ہیڈکوارٹر کوہلو منتقل کیا گیا ہے۔ نساؤ کے ان حلقوں کے لوگوں کو اندازاً پچاس کلومیٹر دور ووٹ ڈالنے کے لیے جانا پڑے گا۔

تجزیہ کاروں نے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بڑی تعداد میں ووٹروں کو دور لے جانا کیسے ممکن ہو گا۔

سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ یہ فیصلہ الیکشن کمیشن نے کیا اور ضلعی مشینری الیکشن کے انعقاد کے لیے کمیشن کے ماتحت ہو گی۔

بالاچ مری
Getty Images
کوہلو سے تعلق رکھنے والے بالاچ مری مسلح مزاحمت کی قیادت کرتے ہوئے21 نومبر 2007 کو مارے گئے

انتخابی کیمپوں پر حملے اور بارودی سرنگیں

آٹھ فروری کو عام انتخابات میں کوہلو سے بلوچستان اسمبلی کی نشست پر امیدوار تو بہت زیادہ تھے لیکن اصل مقابلہ تین امیدواروں کے درمیان تھا جن میں نواب خیربخش مری کے دو صاحبزادوں چنگیز مری اور گزین مری کے علاوہ پیپلزپارٹی کے میر نصیب اللہ مری شامل تھے۔ چنگیز نواز لیگ کے امیدوار تھے جبکہ گزین مری آزاد حیثیت سے میدان میں تھے۔

ابتدائی طور پر پیپلز پارٹی کے امیدوار نصیب اللہ مری کی کامیابی کا اعلان کیا گیا لیکن حریف کی جانب سے اسے چیلنج کیا گیا۔ یوں کاہان کے علاقے نساؤ کے چار پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ پولنگ کا حکم دیا گیا۔

16 فروری کو چار پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب سے قبل گزین مری اپنے بڑے بھائی چنگیز مری کے حق میں دستبردار ہوگئے اس لیے چنگیز مری اور نصیب اللہ مری کے درمیان یہ مقابلہ ون ٹو ون رہا۔

کوہلو سے تعلق رکھنے والے صحافی ناظم شاہ مری کے مطابق نساؤ میں مدرسہ یار خان میں چار پولنگ سٹیشنوں کے لیے ری پولنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ن لیگ کے چنگیز مری کو کامیاب قرار دیا گیا۔

انھوں نے بتایا کہ پیپلز پارٹی کے امیدوار نصیب اللہ مری نے دھاندلی کے الزامات لگائے اور ان کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے ان چار حلقوں پر انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے 24 اپریل کو نسائو کے چار پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کرانے کا حکم دیا۔

ناظم شاہ مری نے بتایا کہ 23 اپریل کو نساؤ کے انتخابی کیمپ پر حملے کے باعث پیپلز پارٹی کے امیدوار نصیب اللہ مری کا ایک سپورٹر گل خان مری ہلاک ہوا جبکہ 24 اپریل کو پولنگ کے روز بارودی سرنگوں کے باعث عملہ پولنگ سٹیشن تک نہیں پہنچ سکا۔

ان کا کہنا تھا کہ ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں نواز لیگ کے رہنما رب نواز مری کی گاڑی کو شدید نقصان پہنچا تاہم وہ اور گاڑی میں سوار دیگر لوگ محفوظ رہے۔ پولنگ سٹاف کے نہ آنے کی وجہ سے ان چار حلقوں پر انتخاب کو ملتوی کیا گیا۔

ان حملوں کی ذمہ داری کالعدم عسکریت پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی تھی۔

سنہ 2008 اور اس کے بعد سے بلوچستان میں علیحدگی پسند مسلح تنظیمیں نہ صرف لوگوں کو عام انتخابات سے دور رہنے کا کہتی رہیں بلکہ وہ عام انتخابات کو سبوتاژ کرنے کے لیے کاروائیاں بھی کرتی رہیں۔

اسی طرح کی کارروائیاں 2024 کے عام انتخابات میں بھی کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کی جانب سے کوہلو میں کی گئیں جس کے باعث اس کی تحصیل کاہان میں انتخاب کا عمل زیادہ متاثر رہا۔

یہ بھی پڑھیے

چنگیز مری
Getty Images
سنہ 2013 میں عام انتخابات میں کوہلو کی نشست سے نواب خیر بخش مری کے سب سے بڑے صاحبزادے چنگیز مری کامیاب ہوئے

’ووٹروں کو پولنگ سٹیشن لانا ریاست کا نہیں امیدوار کا کام ہے‘

الیکشن کمیشن نے 26 جون کو چوتھی مرتبہ نساؤ کے چار پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا لیکن اس بار یہ انتخابات نساؤ میں نہیں ہوں گے بلکہ چاروں پولنگ سٹیشنوں کو کوہلو شہر منتقل کیا گیا ہے۔

بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشنوں کے قیام کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ آسانی کے ساتھ اپنے قریبی علاقوں میں ہی ووٹ ڈالیں لیکن اس کے برعکس نساؤ کے چار پولنگ سٹیشنوں کو کوہلو شہر منتقل کیا گیا۔

سینیئر تجزیہ کار شہزادہ ذوالفقار کا کہنا ہے کہ پولنگ سٹیشنوں کی منتقلی شاید کسی انتظامی مسئلے کی وجہ سے ہو لیکن یہ فیصلہ کچھ عجیب ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کاہان یا نساؤ میں امن و امان کا مسئلہ آج سے نہیں بلکہ طویل عرصے سے ہے لیکن اس کا حل یہ نہیں ہے کہ چار پولنگ سٹیشنوں کو کوہلو منتقل کیا جائے۔ یہ ایسا ہے کہ جیسے کل کوئٹہ میں کوئی مسئلہ ہو تو یہاں کے پولنگ سٹیشنوں کو کراچی یا کسی اور شہر منتقل کیا جائے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’نساؤ ہی میں چار پولنگ سٹیشنوں پر دوبارہ انتخاب کرانا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ وہاں ایک دن کے لیے فورسز کی بھاری نفری لگا کر انتخاب کرایا جاسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم فرض کریں کہ ان چار پولنگ سٹیشنوں میں 400 ووٹ بھی ہوں تو بھی اتنے مرد اور خواتین کو کس طرح وہاں سے کوہلو تک لے جایا جاسکے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’یہ ہو نہیں سکتا کہ نساؤ کے تمام ووٹروں کو کوہلو لے جایا جاسکے اور اگر لوگ اپنے حق رائے دہی سے محروم رہیں گے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ انتخاب پھر لوگوں کے لیے نہیں ہے۔ ایک فریق نے ویسے ہی جیتنا ہے اور اگر آپ پولنگ سٹیشنوں کو کہیں اور منتقل کریں گے تو دوسرا فریق دھاندلی کا الزام لگاکر نتائج کو تسلیم نہیں کرے گا۔‘

ضلع کوہلو کے ڈپٹی کمشنر اور بلوچستان اسمبلی کے اس حلقے کے ریٹرننگ آفیسر نقیب اللہ کاکڑ کے مطابق نساؤ میں دوبارہ پولنگ کی درخواست پیپلز پارٹی کے امیدوار کی جانب سے دائر کی گئی تھی جس میں یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کاہان میں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں۔

ان کے مطابق اگرچہ مقامی انتظامیہ چاہتی تھی کہ ان پولنگ سٹیشنوں کو کاہان کے علاقے نسائو ہی میں رہنے دیا جائے تاہم الیکشن کمیشن نے 26 جون کو ری پولنگ کے لیے ان حلقوں کی منتقلی کا جوڈیشل آرڈر دیا۔

ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ووٹروں کو پولنگ سٹیشن لانا ریاست کا نہیں بلکہ امیدوار کا کام ہے۔

حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند کا کہنا تھا کہ الیکشن کا انعقاد کیسے ہوگا اور کہاں ہوگا، اس کا فیصلہ الیکشن کمیشن کرتا ہے۔ ’جن افسران کی ذمہ داری ہوتی ہے، وہ الیکشن کے وقت الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوتے ہیں۔ اس لیے اس میں صوبائی حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کرنا، پولنگ کے عمل کو جاری رکھنے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ کی ہے جو کہ الیکشن کمیشن کے ماتحت ہوگا اور سکیورٹی پلان کی منظوری بھی الیکشن کمیشن نے دینی ہے۔

بلوچستان
Getty Images

کاہان میں مسلح شورش کی تاریخ

قیام پاکستان سے لے کر اب تک بلوچستان میں جتنی بھی شورش اور مسلح مزاحمتیں ہوئی ہیں، ان میں کاہان اور کوہلو کو مرکزی حیثیت حاصل رہی ہے۔

سنہ 2005 کے دوران سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں جب کالعدم عسکریت پسند تنظیموں کی مسلح کارروائیوں کے خاتمے کے لیے بلوچستان میں فوجی آپریشن کا آغاز کیا گیا تو کاہان سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے نقل مکانی کی۔ اسی سال کوہلو کے دورے کے دوران فوجی صدر پرویز مشرف پر راکٹ حملے کیے گئے تھے۔

سکیورٹی فورسز نے کاہان میں مری قبیلے کے سربراہ کے قلعے کو اپنی تحویل میں لے لیا تھا۔ یہ قلعہ طویل عرصے تک سکیورٹی فورسز کی تحویل میں رہا لیکن کچھ عرصہ قبل اسے نواب خیر بخش مری کے صاحبزادے نوابزادہ گزین مری کے حوالے کیا گیا۔

کاہان میں مری قبائل کی مزاحمت کا تحریری ریکارڈ انگریزوں کی آمد سے ملتا ہے اور 1840 میں برطانوی فوج نے بھی کاہان کے قلعے پر قبضہ کیا تھا۔ تاریخ دان شاہ محمد مری کے مطابق مری قبیلے اور انگریزوں کے درمیان پانچ بڑی جنگیں ہوئیں جن میں دو میں مریوں کو شکست ہوئی جبکہ تین میں انگریزوں کو شکست ہوئی۔

بی بی سی بات کرتے ہوئے پروفیسر ڈاکٹر شاہ محمد مری نے بتایا کہ درّہِ بولان کے راستے افغانستان جانے والے برطانوی فوجی دستوں پر مری قبائل نے بہت سارے حملے کیے جن میں ان کو جانی اور مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑا۔

ان حملوں کی وجہ سے انگریزوں نے قلات اور ضلع کوہلو میں کاہان پر حملہ کیا۔ قلات پر حملے میں خان قلات میر محراب خان خود انگریزوں سے لڑتے ہوئے مارے گئے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’انگریزوں کے دور میں اس خطے میں جتنے بھی بادشاہ تھے۔ ان میں سے کوئی اور بادشاہ مقابلہ کرتے ہوئے نہیں مارا گیا۔ ’بلوچوں کے بادشاہ‘ محراب خان وہ واحد بادشاہ تھے جو مقابلہ کرتے ہوئے مارے گئے۔‘

وہ تاریخی حوالوں کی روشنی میں بتاتے ہیں کہ انگریزوں نے مری قبیلے کو ’سزا دینے کے لیے ان کے دارالحکومت کاہان پر حملہ کیا‘ جو کہ مری قبیلے کا بڑا شہر تصور ہوتا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جدید اسلحے سے لیس انگریزوں سے مقابلے کے لیے مری قبیلے کے پاس اپنی جنگی حکمت عملی کے سوا کچھ نہ تھا۔

بلوچستان
Getty Images

مری قبیلے نے انگریزوں کا ’بہادری سے مقابلہ کیا تھا‘

تاریخ دان شاہ محمد مری کا کہنا ہے کہ بہادری سے لڑنے پر مری قبائل کے لوگ انگریزوں کے ہاتھوں پر بھی سرخ دھاگے باندھا کرتے تھے۔

کمانڈر لیوس برائون کے مطابق ان کا بھائی انگریزوں کے ایک فوجی دستے کے ساتھ کاہان آتے ہوئے مارا گیا تھا اور ان کی تلوار اس وقت کے مری قبیلے کے سردار دودا خان کے بیٹے نے یہ کہہ کر واپس بھجوائی کہ وہ ’مریوں کے ساتھ بہادری سے لڑا تھا۔‘

ڈیفینس آف کاہان نامی کتابچہ دراصل ان روزنامچوں کا مجموعہ ہے جسے کاہان میں قلعے پر قبضے کے بعد برطانوی فوج کے کمانڈر کیپٹن لیوس برائون نے تاریخ وار مرتب کیا۔

کتاب کے مندرجات کے مطابق مارچ 1840 میں برطانوی افواج کے جنرل سر جان کین نے بمبئی واپس جاتے ہوئے سوچا کہ بلوچستان میں فصیل والے شہر کاہان پر حملہ کر کے اس پر قبضہ کیا جائے تاہم انھوں نے یہ نہیں سوچا کہ کاہان تک رسائی کتنی مشکل ہوگی اور قبضے کے بعد اسے برقرار رکھنا کتنا مشکل ہوگا۔

مصنف کے مطابق لیوس براؤن نے اس وقت تک پسپائی کا نہ سوچا جب تک انھیں یہ حکم نہیں ملا کہ وہ کن شرائط پر واپس جاسکتے ہیں۔

بلوچستان کے معروف دانشور پروفیسر عبداللہ جمالدینی برطانیہ سے یہ دستاویزات لائے اور ان کا اردو ترجمہ کیا۔ اس کے تعارف میں انھوں نے لکھا کہ ’اسے کاہان کا دفاع نہیں کہا جا سکتا۔۔۔ کاہان محصور ہو کر رہ گیا تھا اور یہ حصار اس وقت ٹوٹا جب مری سردار سے سمجھوتہ ہوا۔‘

کمانڈر لیوس براؤن کے مطابق ’اب یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔ بیماروں کی بڑی تعداد اور بقیہ لوگوں کی زبوں حالی ہمیں رات کو بھاگنے کی اجازت نہیں دے گی۔ پھر میرے خیال میں شاید اس صوتحال میں ایسی شرائط بھی پیش نہیں کرسکتا کہ مری رضامند ہو جائیں۔

’اس مسئلے کو بہتر حل کرنے کے لیے چوتھائی راشن پر گزارا کرنا ہوگا۔ اس طرح ہم 15 اکتوبر تک گزارا کرسکیں۔یہ وقت حاصل کر کے شاید ہم کسی باعزت سمجھوتے تک پہنچ پائیں۔‘

مری قبیلے کے سردار دودا نے معاہدے کے لیے اپنے بھتیجے کو بھیجا اور ان کے ساتھ معاہدہ ہونے کے بعد پانچ طویل مہینوں تک ایک دوسرے کے جانی دشمن رہنے والے ایک ہی گھنٹے میں بہترین دوست بن گئے۔

کتاب کے مطابق ’اس میں کوئی شک نہیں کہ انھیں ہم سے نجات پا کر خوشی ہو رہی تھی۔ ہمیں بھی اپنی آزادی پا کر بہت مسرت ملی تھی۔‘

کتابچے میں میجر کلبرن نامی انگریز فوجی آفیسر کا خط بھی شامل ہے جس کے مطابق ’ہمارے دشمنوں کو وحشی، ظالم اور ڈاکو کہنا ایک رواج سا بن گیا۔ مری نہ صرف پہاڑوں کی ایک عمدہ نسل ہے بلکہ وہ بہادر اور شجاع دشمن ہے۔‘

پروفیسر عبداللہ جمال دینی کے مطابق ’برطانوی محصور کمانڈر کو یہ یقین نہیں تھا کہ کاہان کے قلعے سے جانے کے بعد بلوچ انھیں واپس شکارپور خیریت سے پہنچنے دیں گے لیکن وہ دیکھ کر حیران ہوئے کہ بلوچ واقعی اپنے قول کے پابند تھے۔

’واپسی پر کسی نے ان پر ہاتھ نہیں اٹھایا۔ البتہ انگریزوں نے مریوں کو دھوکہ دیا اور وہ معاہدہ بھول گئے جو کاہان سے نکل جانے کے بعد مریوں اور انگریزوں کے مابین ہوا تھا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.