’عشق و محبت کے ملک‘ اٹلی کے شہری سیاحوں سے نالاں: ’ہم سیاحت کی وجہ سے مرنا نہیں چاہتے‘

چونکہ اٹلی کو عشق و محبت کا ملک سمجھا جاتا ہے اور سترھویں صدی میں شروع ہوئے گرینڈ ٹوئر جس میں زیادہ تر یورپی نوجوان شامل تھے، تب سے سیاحوں کی نظر میں یہ دنیا کی سب سے پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس طرح کی پابندیوں سے شاید اٹلی سیاحوں کو کوئی اشارہ دے رہا ہے۔ شاید اس کا دل بدل سا گیا ہے۔
italy
Getty Images

اٹلی اور اس کے چاہنے والوں کا صدیوں پرانا دل کا رشتہ اب ایک نئے موڑ پر آ کھڑا ہے۔ اس رشتے پر سیاحوں کی تعداد میں اضافے کا بوجھ کافی بڑھ گیا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ اٹلی نے جیسے ’انکار‘ کی ایک نئی رسم بنا لی ہو۔ ساحلی علاقے پورتوفینو میں سیلفی بنانے پر پابندی، کروز جہازوں کی وینس داخلے پر پابندی، ایک دن کے لیے آنے والے سیاحوں کا مفت داخلہ بند، املفی کے ساحلی علاقے میں سیاحوں کی بسوں پر پابندی، یورپ کے سب سے لمبے اور چوڑے ’سپینش سٹیپس‘ نامی زینے پر بیٹھنے پر ممانعت۔ ضرورت سے زیادہ بڑھتی ہوئی سیاحت کی روک تھام کے لیے اقدامات کی فہرست لمبی بھی ہے اور تخلیقی بھی۔

مثال کے طور پر اٹلی کے مشہور ساحلی علاقے چنکوئے تیرے کے پانچ گاؤں جہاں کینچی چپلیں پہننے پر ڈھائی سو یورو تک جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔

اٹلی کو عشق و محبت کا ملک سمجھا جاتا ہے اور 17ویں صدی میں شروع ہوئے گرینڈ ٹوئر میں زیادہ تر یورپی نوجوان شامل تھے۔ تب سے سیاحوں کی نظر میں یہ دنیا کی سب سے پسندیدہ جگہوں میں سے ایک ہے۔

تاہم اس طرح کی پابندیوں سے شاید اٹلی سیاحوں کو کوئی اشارہ دے رہا ہے، شاید اس کا دل بدل سا گیا ہے۔

ڈرامائی انداز میں کہا جائے تو کیا اٹلی آپ سے رشتہ توڑ رہا ہے؟ اور یہاں آپ سے مراد سیاح ہیں۔ ہم اطالوی لوگوں پر ظاہر ہے کہ ہمارا اِل بیل پائیس یعنی ’خوبصورت ملک‘ اپنے معشوقوں کے ساتھ کچھ حدود اختیار کرنا چاہ رہا ہے۔

’امریکی ہم سے پوچھتے ہیں وینس کس وقت بند ہوتا ہے جیسے کہ یہ کوئی عجائب گھر ہو‘ ایک ناراض شہری اور کارکن مارکو گاسپرینیٹی نے کہا۔ گاسپرینیٹی وینس سے تعلق رکھتے ہیں اور اس شہر کے حساس وجود جو پانی اور خشکی دونوں میں ہے، اس کی خاص حفاظت کے لیے کوشاں ہیں۔

گسپرینیٹی کے مطابق وینس کے50 ہزار شہری روزانہ آنے والے ایک لاکھ چالیس ہزار سیاحوں سے سخت پریشان ہیں۔ شہر میں شہری کم اور سیاح زیادہ ہو گئے ہیں۔

’ہم سیاحت کے ساتھ اور اس کی وجہ سے زندہ رہ سکتے ہیں لیکن اس کی وجہ سے مرنا نہیں چاہتے۔‘

انھوں نے دونوں باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ سیاحت سے ایک قابل ذکر مالی فائدہ تو ہوتا ہے لیکن اس کا ماحول پر، معیارِ زندگی پر اور روز مرّہ کے اخراجات پر کافی منفی اثر پڑتا ہے۔

مئی کے اوائل میں ایک اکتائی ہوئی خاتون جن کے پاس ایک بچّہ بھی تھا، نے واپوراتو یعنی پانی میں چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ پر سوار سیاحوں پر دھاوا بول دیا۔

مقامی اخبارات میں یہ خبر سرخی کے طور پر شائع ہوئی تھی۔ کچھ دو ہفتے قبل، شہری سڑکوں پر نکل آئے تھے اور وینس میں پانچ یورو کے انٹری ٹکٹ کے خلاف احتجاج کیا تھا۔ یہ اقدام وینس شہر کی مقامی حکومت نے 29 دنوں کے لیے بطور تجربہ اٹھایا تھا۔ یہ اینٹری ٹکٹ ہر اس شخص کو خریدنا ہوتا تھا جو شام پانچ بجے سے پہلے وینس میں داخل ہو رہا تھا۔ شہریوں نے اس اقدام کو تنقید کا نشانہ بنایا۔

ماحولیاتی سائنسدان اور کارکن جین دا موستو نے اس اقدام کو ’غلط فہمی‘ قرار دیا۔ جیسے اس سے مسئلہ ہو جائے گا جو کہ نہیں ہو گا۔ مصنّف مارکو ڈی ارامو نے اسے ’بیکار‘ اقدام قرار دیا۔

’پانچ یورو؟ یہ تو صرف ایک کافی کے کپ کی قیمت ہے۔‘ گاسپرینیٹی کے مطابق اس اقدام نے شہر کو ایک سستے چڑیا گھر جیسا بنا دیا ہے۔

italy
Getty Images

مرینہ لالی جو اٹلی کی نیشنل فیڈریشن آف ٹریول اینڈ ٹورزم انڈسٹری کی صدر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ کووڈ کے بعد سے سیاحت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اگر اسسے ایک منظم طریقے سے نہ نمٹا گیا تو ایک عجیب سا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔

وہ وینس کے ساتھ ساتھ دیگر ملک کی صورتحال پر کہتی ہیں کہ ’یہ یہاں کے باسیوں اور سیاحوں دنوں کے لیے ایک مایوس کن صورتحال ہے، کیونکہ اس سے نہ تو سیاح آزادانہ طور پر اپنے دورے سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں اور نہ ہی یہاں کے رہائشی کیونکہ ان کے لیے ضروریات زندگی کی قیمتیں بہت بڑھ گئیں ہے اور ان کے لیے یہاں گھر ڈھونڈنا ایک سنجیدہ مسئلہ بن گیا ہے۔

مثال کے طور پر گذشتہ برس چالیس لاکھ سیاحوں نے اٹلی کے مشہور سنکی ٹیری نیشنل پارک کا دورہ کیا تھا جبکہ سنہ 2022 کے مقابلے میں 30 لاکھ سیاح یہاں آئے تھے۔

سنکی ٹیری میں ایک دلکش گاؤں ورنازہ کے میئر فرانسیسکو ولا کا کہنا ہے کہ وہ یومیہ 2500 سیاحوں کو خوش آمدید کرنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ اس گاؤں کی مجموعی آبادی 750 افراد ہے اور سیاحت نے یہاں کے باسیوں کو امیر بنا دیا ہے۔

لیکن وہ اس بات کا اعتراف بھی کرتے ہیں کہ دوپہر دو بجے سے شام پانچ بجے تک بہت کم مقامی افراد اپنے گھروں سے باہر نکل سکتے ہیں۔

’ہم پھر بھی کھیتوں کی جانب یا اپنے باغیچے میں چہل قدمی کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ بہترین نہیں ہوتا لیکن ہمیں یہ قبول ہے کیونکہ اس ایک تکلیف کے علاوہ ہمیں اس کے اور بہت سے فائدے ہیں۔

ورنازہ کے خوبصورت قصبے میں بھی ہر رہائشی سالانہ اوسطاً دو ٹن کچرا پھینکتا ہے اور یہ تعداد بڑھ رہی ہے۔

اٹلی کی وزیر سیاحت ڈینیلا سانتانچے کہتی ہیں کہ ’اطالوی حکومت کی ترجیحات میں سے ایک سیاحت کو مزید فروغ دینا اور ہمارے ورثے کو آمدنی میں تبدیل کرنا‘ ہے۔

لیکن وہ یہ نہیں سوچتی کہ یہاں پہلے ہی بہت زیادہ سیاح ہیں۔ اس کی بجائے انھیں سیاحت کے شعبے کو بہتر طریقے سے منظم اور زیادہ منافع بخش بنانے کی ضرورت ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اٹلی میں اکثر چیزیں مفت یا بہت کم قیمتوں پر ملتی ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’نیو یارک میوزیم آف نیچرل ہسٹری کے مقابلے میں اٹلی کا کولوسیئم صرف ایک چوتھائی منافع کماتا ہے۔‘ ان کا یہ بھی خیال ہے کہ اٹلی کو اپنے چھوٹے قصبوں کو فروغ دینے اور موسم کی قید سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے تاکہ سیاح صرف گرمیوں میں ہی نہیں بلکہ سال بھر آئیں۔

اس سے یہ سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ آیا ورنازہ کے مستقبل کے رہائشی کبھی بھی اپنے گھر چھوڑ سکیں گے؟ اور درحقیقت، ملک کو ایک تھیم پارک میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔

اس بارے میں وہ کہتی ہیں کہ ’جو لوگ یہ باتیں کہتے ہیں وہ ہمارے ملک کے حسن اور خوبصورتی سے صرف حسد کرتے ہیں۔‘

سانتانچے کہتی ہیں کہ ’ہم اوپن ایئر میوزیم ہیں، ہمارے پاس دنیا کی سب سے اہم یونیسکو کے ثقافتی ورثہ سے متعلق مقامات ہیں۔‘

وزیر سیاحت نے اٹلی کی بے مثال ثقافت، منفرد خوراک، شاندار فطرت اور 5,600 چھوٹی بورگھی (دلکش تاریخی دیہات) کا بھی ذکر یہ کہتے ہوئے کیا کہ ’دنیا اٹلی کو بہت چاہتی ہے۔‘

Italy
Getty Images

بطور اطالوی شہریوزیر قانون کا دنیا کے بارے میں یہ بیان کہ دنیا میرے ملک کو اتنا پسند کرتی ہے مجھے قدرے پریشان کر دیتا ہے۔ لیکن میں یہ بھی جانتی ہوں کہ خوبصورت اٹلی اور اس کے مداحوں کے درمیان صدیوں پر محیط تعلق میں طلاق کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

اس کی بنیادی طور پر وجہ یہ ہے کہ اٹلی اسے برداشت نہیں کر سکتا۔

سنتانچے کی ٹیم کے مطابق، سیاحت ملک کے جی ڈی پی میں 13 فیصد حصہ ڈالتی ہے (جس میں بالواسطہ اور بلاواسطہ اثرات، جیسے ہوٹل اور کرایہ، اور اس سے فائدہ اٹھانے والے تمام کاروباروں پر اثرات شامل ہیں)۔

چونکہ ہم اطالویوں کے پاس سیاحوں کے ساتھ اس رشتے کو بچانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے، اس لیے بہت سی تجاویز زیر غور ہیں۔ پہلا اور سب سے عام خیال یہ ہے کہ سیاحوں کی آمد و رفت کو منظم کیا جائے اور انھیں ری ڈائریکٹ کیا جائے تاکہ وہ تمام ایک ساتھ وینس، فلورنس، سنک ٹیرے اور روم میں نہ ہوں۔

مرینہ لالی کہتی ہیں کہ اگرچہ یہ کچھ مشکل ہے کیونکہ ’آپ کسی ایسے شخص کو جو وینس جانا چاہتا ہے یہ نہیں کہہ سکتے کہ اب انھیں اس کے بجائے ٹریویزو جانا پڑے گا۔‘ اور اگر حکومت تقریبات یا کانفرنسز کے لیے سیاحوں کو چھوٹے علاقوں کی طرف بھیجنا چاہتی ہیں تو اسے وہاں ان کے استقبال کے لیے بنیادی سہولیات کے انفراسٹرکچر کو بنانا چاہیے۔

اشیا کی قیمتوں کا تعین بھی اکثر ایک حل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جس کی تائید اس نظریہ سے ہوتی ہے کہ اعلیٰ درجے کے، امیر سیاح پیسہ خرچ کرتے ہیں اور وہ قدیم گرجا گھروں کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر نہ کھانا کھاتے اور نہ ہی ان کے ستونوں کے پیچھے پنینی سینڈوچ کے ڈبے اور پانی کی خالی بوتلیں پھینک کر جاتے ہیں۔ بلکہ یہ کام نوجوان اور عام سیاح کرتے ہیں۔ اگلے سال جوبلی کے موقع پر روم میں 32 ملین سیاحوں کی آمد متوقع ہےاور ایسے میں ضروری نہیں کہ وہ امیر ہوں۔

مرینہلالی کا کہنا ہے کہ ’نوجوان سیاحوں کو کھو دینا پاگل پن کی بات ہو گی، ہم خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماریں گے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’نوجوان یہاں آتے ہیں اور اٹلی اور اس کے طرز زندگی سے پیار کرتے ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو طویل عرصے میں ہماری برآمدات، بیرون ملک ہماری مصنوعات کے لیے فائدہ مند ہے۔‘

Italy
Getty Images

میرے آبائی شہر، وینس نے بتدریج تجرباتی انداز اپنایا ہے اور وہ اس بات سے آگاہ ہے کہ یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔

1964 کی ایک دستاویزی فلم میں، سٹی کونسلر سیمون وینتورینی بتاتی ہیں لوگ سیاحت کے بارے میں پہلے ہی گھبرائے ہوئے تھے۔ ہماری انتظامیہ واحد ہے جس نے سب سے پہلے اس کے بارے میں کچھ اقدام اٹھایا۔

انھوں نے نہ صرف شہر کے لیے داخلہ فیس مقرر کی بلکہ وہ شہر کے محافظوں کی بھی حمایت کرتی ہیں۔ شہر کے محافظ وہ مقامی شہریوں کا ایک گروہ تھا جو سان مارکو اور ریالٹو پل کے مصروف علاقوں میں گھومتے رہتے اور سیاحوں کو بتاتے ہیں کہ شہر میں کس طرح کا برتاؤ کرنا ہے اور مختلف پابندیوں کا احترام کرنا ہے، جس میں کبوتروں کو کھانا نہ کھلانا، پلوں پر یا یادگاروں کی سیڑھیوں پر کھانا یا بیٹھنے کی ممانعت، اور نہ ہی سیڑھیوں سے بھرے شہر میں آمدو رفت کے لیے سائیکل استعمال کرنا شامل تھا۔

وینس ٹھیلوں اور پتھاروں پر بھی پابندی لگانے کا سوچ رہا ہے۔ یہ چھوٹی دکانیں کارنیول کے چھوٹے چھوٹے ماسک اور پلاسٹک کے تحائف فروخت کرتے ہیں جو میری دادی کے جمالیاتی احساس کو ٹھیس پہنچاتے تھے۔ لیکن یہ ان اکیلی کی سوچ نہیں تھی۔

دا موسٹو کہتے ہیں کہ ’آپ کوڑا بیچتے ہیں، اور مکھیوں کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔‘ ان کا ماننا ہے کہ شہر کو اپنے رہائشیوں اور آنے والوں کے لیے بہتر معیار کی خدمات پیش کرنی چاہیے۔

اور ایک اور چیز تیراکی کرنا ہے جس کو یہاں منع کیا جا رہا ہے۔ اس پابندی سے تو میرے بھی چہرے پر مسکراہٹ ہے کیونکہ وینس کے باسیوں کا کہنا ہے کہ ’وینس ایک آرٹ سٹی ہے نہ کہ ساحل۔‘

کبھی وینس کے بچے یہاں کی نہروں میں تیراکی کرتے تھے۔آپ انھیں مختصر فلم آئی نوا (وہ تیرتے ہیں) میں دیکھ سکتے ہیں جس نے 1950 کے وینس فلم فیسٹیول میں ایوارڈ جیتا تھا۔

جس میں ان بچوں کا ایک جھنڈ خوشی سے ’یہاں تیراکی منع ہے‘ کے نشان کا مذاق اڑا رہا ہے اور صاف پانی میں غوطہ لگا رہا ہے۔اس وقت یہ پانی اتنا ہی صاف و شفاف تھا جیسا کووڈ کے دوران ہوا تھا۔

اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے کہ وینس میں 1950 میں 147,000 رہائشی تھے اور وہ بچوں سے بھرا ہوا تھا۔ اب آبادی دو تہائی کم ہو گئی ہے اور اپنے مستقبل کے بارے میں فکر نہ کرنا مشکل ہے۔

دی ورلڈ ان اے سیلفی کے مصنف ڈی ایرامو کہتے ہیں کہ مسئلہ یہ ہے کہ ایک شہر سیاحت پر انحصار اس وقت کرتا ہے جب اس کے پاس کوئی اور چیز باقی نہیں رہتی ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ اگر تاریخی مقامات پر لندن اور پیرس کی طرح دیگر سرگرمیاں اور کاروبار ہوں تو سیاحت کو اتنا اہم نہیں سمجھا جائے گا۔ یہ زندگی کا صرف ایک حصہ ہو گا اور رہائشییوں جو ان کی جگہ چھینے جانے یا انھیں دھکیلے جانے کا احساس نہیں ہو گا۔

گیسپارنیٹی اس سے اتفاق کرتے ہوئے ایک بہت ہی موزوں استعارہ پیش کرتےہیں۔ ’وینس میں، ہمارے پاس ایک بہت مشہور مشروب ہے جسے اسپرٹز کہا جاتا ہے، جس میں ایک تہائی (شراب)، ایک تہائی (اپیرول) اور ایک تہائی (سپارکلنگ واٹر) سے بنتا ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’سیاحت کے لیے بھی ایسا ہی فارمولہ ہونا چاہیے، جیسا کہ سپرٹز فارمولہ۔‘

Italy
Getty Images

چونکہ ہم نے بلآخر اٹلی میں سیاحت کو کاک ٹیلوں سے تشبیہ دینے تک پہنچا دیا، اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ سخت سوالات پوچھیں۔ خاص طور پر، ہمیں اس کے بارے میں بات کرنے کی ضرورت ہے کہ اٹلی کا سب سے مستحکم بوائے فرینڈ کون رہا ہے، وہ امریکی سیاح، جس کے ساتھ اٹلی نے بہت طویل اور اکثر سنیماٹوگرافک محبت کی کہانی شیئر کی ہے، دی ٹیلنٹڈ مسٹر رپلے سے لے کر انیتا ایکبرگ کی ٹریوی فاؤنٹین میں تیراکی کرنے تک اور جھیل کومو پر جارج کلونی کے گھر تک۔

مرینہ لالی کو اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ’اٹلی کا امریکی سیاح کے ساتھ محبت کا رشتہ برقرار ہے۔ یہ ایک خیالی بات محسوس ہوتی ہے، لیکن یہ حقیقت بھی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’یہ وہ سیاح ہے جو بہت سارے پیسے لاتا ہے، جو خرچ کرتا ہے، جو چھٹی کے دن تفریح کرنا چاہتا ہے اور اس لیے ہمارے لیے بہت اہم ہے۔‘

وزیر سیاحت سنتانچے اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر اسے ایک بے لگام رشتہ قرار دیتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’اٹلی آؤ، کیونکہ میں جانتی ہوں کہ آپ ہماری قوم، ہمارے طرزِ زندگی، ہمارے کھانے، ہماری ثقافت، ہماری خوبصورتی سے کتنی محبت کرتے ہیں۔ میں تمام امریکیوں کا شکریہ ادا کرتی ہوں، کیونکہ اگر سیاحت نے پچھلے سال فروغ پایا تو اس کے لیے ہم امریکہ اور اس کے شہریوں کے بہت زیادہ شکرگزار ہیں۔‘

مجھے امید ہے کہ یہ پڑھنے والے امریکی سیاح ابھی شرما رہے ہیں۔ لیکن اٹلی کے دیگر تمام سیاحوں کا کیا؟ اس صورت میں، ایک ہی سوال عملی، نفسیاتی اور رومانوی جوابات دیتا ہے۔ ڈی ایرامو تجویز پیش کرتے ہیں کہ سیاحت کو کسی بھی دوسری بھاری صنعت کی طرح منظم اور سنبھالا جانا چاہئے، کیونکہ اس میں بنیادی ڈھانچہ، نقل و حمل شامل ہے اور اس کا ماحول پر اثر پڑتا ہے۔

مرینہ لالی کہتی ہیں کہ اگر اطالوی شہری بہت زیادہ سیاحت کے مسئلے پر احتجاجاً سڑکوں پر نہیں نکلے ہیں جیسا کہ ایک ماہ قبل کینری جزائر کے لوگوں نے کیا تھا، تو اس کی وجہ یہ ہے کہ اطالوی تاریخی طور پر نامکمل چیزوں کے کے عادی ہیں، اور اس لیے ان کی ایک مختلف ذہنیت بن گئی ہے کہ ’وہ احتجاج کم کریں، اوراس کے حل کرنے کے طریقے تلاش کریں۔‘

اور آخر میں گیسپاریٹی کہتے ہیں کہ سیاح صرف یادگاروں کو دیکھنے ہی نہ آئیں، بلکہ حقیقت میں سمجھنے، احترام کرنے اور بالآخر ا شہر کی روح اور ثقافت سے پیار کرنے کی کوشش کریں۔

اگرچہ ان میں سے کوئی بھی سیاحوں سے منھ موڑنے کا ذکر نہیں کرتا ہے اور ایسی صورت میں اکثر یہ ہی بہتر ہوتا ہے کہ دوبارہ نہ پوچھا جائے۔ تو جب تک اٹلی کا سیاحوں سے رشتہ قائم ہے یہاں کا دورہ کرتے رہیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.