انڈیا میں ایک امتحان کے نتائج نے ملک کے تعلیمی شعبے میں جاری بدعنوانی کا پردہ کیسے چاک کیا؟

انڈیا میں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحانات (این ای ای ٹی) میں بے ضابطگیوں اور پرچہ لیک ہونے کی شکایتوں کے بعد 18 جون کو پی ایچ ڈی اور فیلوشپکی اہلیت کے لیے ہونے والے امتحان نیٹ (این ای ٹی) بھی پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے رد کر دیا گیا ہے۔
india
Getty Images

انڈیا میں میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحانات (این ای ای ٹی) میں بے ضابطگیوں اور پرچہ لیک ہونے کی شکایتوں کے بعد 18 جون کو پی ایچ ڈی اور فیلوشپ کی اہلیت کے لیے ہونے والے امتحان نیٹ (این ای ٹی) بھی پرچہ لیک ہونے کی وجہ سے رد کر دیا گیا ہے۔

اس درمیان این ای ای ٹی (پی جی) کا آج یعنی 23 جون بروز اتوار ہونے والا امتحان بھی حفظِ ماتقدم کے طور پر ملتوی کر دیا گیا ہے۔

ان تمام امتحانوں میں بے ضابطگیوں سے لاکھوں طلبہ اور ان کے اہلِ خانہ متاثر ہوئے ہیں اور ان امتحانات کو کروانے والے ادارے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) کی قابلیت پر سوال اٹھایا جانے لگا ہے۔

ہر جانب سے سوال اٹھائے جانے کے بعد حکومت نے این ٹی اے کے سربراہ کو ان کے عہدے سے برخاست کر دیا ہے اور حکومت نے مقابلے کے امتحانات میں اصلاحات کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بدعنوانی کی جانچ انڈیا کے بڑے تفتیشی ادارے سی بی آئی کو سونپی گئی ہے۔

دریں اثنا مرکزی حکومت نے پیپر لیک کے معاملات کو روکنے کے لیے بنائے گئے قانون کو نافذ کر دیا ہے۔ مرکزی حکومت نے جمعہ (21 جون) کی شام اس قانون کا نوٹیفکیشن جاری کیا۔ نئے قانون کے تحت جرم ثابت ہونے پر 10 سال تک کی قید اور ایک کروڑ روپے تک کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی حال ہی میں دوبارہ منتخب ہونے والی حکومت پر دباؤ ڈالتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعتیں اور طلبا گروپوں نے امتحانات میں بے ضابطگیوں کے خلاف ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔

neet exam
Getty Images

میڈیکل کالج میں داخلے کا امتحان این ای ای ٹی

نیشنل ایلیجبلیٹی کم انٹرینس ٹیسٹ (این ای ای ٹی) انڈیا میں میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے کا دروازہ ہے۔ ہر سال لاکھوں طلبہ امتحان میں شامل ہوتے ہیں جن میں سے بہت کم کو کالجوں میں جگہ مل پاتی ہے۔

رواں سال 24 لاکھ بچوں نے رجسٹریشن کروائی جن میں سے 23 لاکھ سے زیادہ طلبہ نے مقابلے کے امتحان میں شرکت کی۔

چار جون کو قبل از وقت نتائج کا اعلان کیا گیا جس میں پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ بچوں کے پورے نمبر آئے جس سے اچھے نمبر حاصل کرنے والوں کا بھی داخلہ مشکل نظر آنے لگا ہے۔

اس کے بعد سے ہی امتحان کے پرچہ میں غلطیوں سے لے کر غیر ضروری گریس مارکس اور دیگر دھاندلیوں کی وجوہات کی بنا پر یہ جانچ کے دائرے میں آ گیا۔

بہر حال وفاقی وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے اعتراف کیا ہے کہ 'کچھ بے ضابطگیاں' سامنے آئی ہیں اور پھر بڑھتے ہوئے دباؤ اور شدید تنقید کے درمیان این ٹی اے کے سربراہ سبودھ کمار سنگھ کو ہفتے کے روز برطرف کر دیا گیا۔

دریں اثنا یہ بات سامنے آئی کہ پی ایچ ڈی فیلوشپس کے لیے کوالیفائنگ امتحان (نیٹ) کا پرچہ ڈارک ویب پر لیک ہوا ہے جس کی وجہ سے اسے منسوخ کر دیا گیا۔

وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان
Getty Images
موجودہ وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان نے بے ضابگیوں کا اعتراف کیا ہے

'مسئلہ پہلے سے تھا روشنی میں اب آیا'

ہم نے اس بابت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ ہندی کے پروفیسر کملانند جھا سے فون پر بات کی تو انھوں نے کہا کہ مقابلہ جاتی داخلے کے امتحانات میں بدعنوانی ایک زمانے سے چلی آ رہی ہے لیکن ابھی یہ سپوٹ لائٹ میں آئی ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کم از کم ایک دہائی سے پرچے لیک ہوتے رہے ہیں لیکن اس طرح کی بدعنوانی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔‘

پروفیسر جھا نے کہا کہ ’مرکز میں حکمراں جماعت بی جے پی کا کرپشن کے خلاف دعویٰ کھوکھلا نکلا۔ ان کا نعرہ رہا ہے کہ ’نہ کھائیں گے اور نہ کھانے دیں گے‘ لیکن تعلیم کے شعبے میں بدعنوانی نے اپنے ڈنک چاروں طرف پھیلا رکھے ہیں۔‘

بہار سے تعلق رکھنے والے کملا نند جھا نے کہا کہ ہماری میتھلی زبان میں ایک کہاوت ہے کہ 'چور بولے زور سے' اور ایسا ہی کچھ حال یہاں نظر آ رہا ہے کہ سارے بلند بانگ دعوے محض دعوے ہی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ 'ابھی کچھ دنوں سے این ای ای ٹی کا معاملہ جاری تھا ہی کہ نیٹ کا معاملہ سامنے آیا اور امتحان رد کر دیا گيا۔ انھوں نے ایسا اس لیے کیا کہ ان سے اپوزیشن سوال کرے گی۔'

ممبئی کی کوچنگ سے منسلک ایک مینٹور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے بس معاملہ کھل گیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’کچھ ایسی بے ضابطگیاں ہوئیں جن کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا ورنہ آپ جانتے ہی ہیں کہ بی جے پی کی حکومت اپنی غلطی تسلیم ہی نہیں کرتی ہے لیکن اس معاملے میں وہ بھی مجبور ہو گئی ہے۔‘

مثال کے طور پر امتحان میں کسی کے یا تو 720 نمبر آئیں گے یا پھر 716 یا 715 آئیں گے۔ 719 یا 718 آ ہی نہیں سکتے کیونکہ ایک سوال چار نمبر کا ہوتا ہے اور اگر آپ نے وہ سوال غلط کیا تو آپ کا مزید ایک نمبر کاٹ لیا جاتا ہے۔

طلبہ
BBC

مقابلہ جاتی امتحانات میں کہیں گریس مارکس دیے جاتے ہیں؟

کملانند جھا نے مزید کہا کہ داخلے کے مقابلہ جاتی امتحانات میں دنیا میں کہیں بھی گریس مارکس نہیں دیے جاتے ہیں۔ لیکن یہاں دیا گیا اور دلیل یہ دی گئی کہ امتحان شروع ہونے میں تاخیر ہوئی تھی۔ تو اس کے لیے اضافی وقت دیا جاتا ہے نہ کہ گریس مارکس۔'

انھوں نے کہا کہ 'اب تو بڑے بڑے رازوں سے پردے اٹھ رہے ہیں۔ ایسا کہیں ہوتا ہے کہ 66-67 بچوں کے پورے کے پورے 720 نمبر آئیں۔ ہریانہ کہ ایک ہی سکول کے چھ بچوں کا معاملہ سامنے آیا ہے اور یہ بھی پتہ چلا ہے کہ وہ سکول کسی بی جے پی کے رہنما کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔'

اس سے قبل گذشتہ سال دو بچوں کو پورے نمبر آئے تھے جبکہ اس سے قبل کوئی بھی پورے نمبر حاصل نہیں کر سکا تھا۔ داخلے کے امتحان کی تاریخ میں پہلی بار پورے نمبر سنہ 2020 میں آئے تھے۔

پروفیسر کملا نند جھا اس سے قبل بہار کی متھلا یونیورسٹی میں بھی پڑھا چکے ہیں۔

انھوں نے امتحان لینے والے ادارے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی (این ٹی اے) پر بھی سوال اٹھایا اور کہا کہ ’جب یہ ادارہ بنایا جا رہا تھا تو ہم لوگوں نے اس کی مخالفت کی تھی کہ آپ سارے ملک کے امتحانات کو کسی ایک ادارے کے حوالے کیسے کر سکتے ہیں۔ پہلے یو جی سی اور دیگر سکاری بورڈ امتحان لیا کرتے تھے اور ان کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہوا کرتی تھی لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘

حکومتی پالیسی ذمہ دار

ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر اس کے لیے کسے ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے تو انھوں نے کہا کہ ’ان ساری بے ضابطگیوں کے لیے حکومت کی پالیسی ذمہ دار ہے اور لاکھوں بچوں پر اس کے معاشی، جسمانی اور ذہنی اثرات پڑ رہے ہیں۔‘

پروفیسر جھا نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں کو دانستہ طور پر کمزور کیا جا رہا ہے تاکہ پرائیوٹ اداروں کو فروغ دیا جا سکے۔

انھوں نے کہا کہ نئی تعلیمی پالیسی میں یہ بات وضاحت کے ساتھ ہے سرکاری سکولوں کا حصہ پرائوٹ سکولوں کو دیا جائے گا۔

معروف مصنف اور کالم نگار تولین سنگھ نے 23 جون کے اپنے ایک مضمون میں لکھا: 'سب سے پہلے، ایک اعتراف۔ مجھے افسوس ہے کہ میں نے اس سے پہلے اعلیٰ تعلیم کی اس خرابی کے بارے میں نہیں لکھا جو حالیہ دنوں میں شرمناک انداز میں سامنے آئی ہے۔۔۔ مجھے یقین ہے کہ اعلیٰ تعلیم میں اصلاحات کی سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ سکول کی تعلیم میں بھی۔

'مجھے مایوسی ہوئی کہ وزیراعظم نے پچھلے دس سالوں میں حقیقی تعلیمی اصلاحات کے لیے کچھ نہیں کیا۔ میری مایوسی اس وقت شروع ہوئی جب انھوں نے سمرتی ایرانی کو اپنا پہلا وزیر تعلیم بنایا۔ مجھے امید تھی کہ وہ ایک ایسا وزیر تلاش کر لیں گے جس میں علمی امور کی کچھ سمجھ ہو۔'

انھوں نے مزید لکھا کہ اعلیٰ تعلیم کو افسروں اور سیاستدانوں کے چنگل سے آزاد کروانا انتہائی ضروری ہے کیونکہ ان کے مشاہدے میں آیا ہے کہ تقریباً ہر بڑے سیاسی رہنما نے اپنا نجی کالج شروع کرنے کی کوشش کی ہے۔'

کوچنگ سینٹرز

کملا نند جھا نے کہا کہ ’روایتی تعلیمی نظام نے کوچنگ سینٹرز کو فروغ دیا ہے اور آج یہ حال ہے کہ ملک میں ہر قصبہ اور شہر کوٹا بن گيا ہے۔‘

خیال رہے کہ کوٹا راجستھان کا ایک شہر ہے جو اپنے کوچنگ سینٹرز کی وجہ سے مشہور ہے جہاں لاکھوں کی تعداد میں ملک بھر سے طلبہ انجینیئرنگ اور میڈیکل کالجوں میں داخلے کے امتحانات کی تیاری کے سلسلے میں پہنچتے ہیں۔

انھوں نے بہار کے اپنے ضلعے مدھوبنی کے چھوٹے سے قبصے چکدہ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’اس چھوٹے سے قصبے میں 100 سے زیادہ کوچنگ انسٹی ٹیوٹ ہیں اور یہ ایسے ہی کھڑے نہیں ہیں۔‘

تعلیم کے شعبے سے منسلک ایک ماہر تعلیم نے کہا کہ ’پورے کھیل کو اس طرح سمجھیے کہ ملک میں سرکاری میڈیکل کالجوں میں کم فیس میں داخلہ مل جاتا ہے اور کم پیسے میں میڈیکل کی ڈگری حاصل ہوتی ہے اور وہاں کا تعلیمی نظام بھی بہتر ہے۔ اس لیے سارے طلبہ کی پہلی کوشش زیادہ نمبر لا کر وہاں جگہ حاصل کرنے کی ہوتی ہے۔

’جبکہ دوسری طرف اتنے ہی پرائیوٹ کالج ہیں جہاں 50 لاکھ سے ایک کروڑ روپے تک فی ڈگری فیس لی جاتی ہے۔‘

جہاں سرکاری کالجوں میں 720 میں سے 650 نمبر لا کر بھی داخلے کی ضمانت نہیں وہیں پرائیوٹ کالجوں میں آپ 150 نمبر لا کر بھی داخلہ حاصل کر سکتے ہیں اگر آپ کے پاس پیسہ ہے تو۔

اس کی وجہ سے ہونہار، محنتی اور با صلاحیت غریب طلبہ اپنے خواب پورے کرنے سے محروم رہ جاتے ہیں جبکہ امیر بچے پرائیوٹ سکولوں سے ڈگریاں لے کر ڈاکٹری کرتے ہیں۔

سبودھ کمار سنگھ
Getty Images
سبودھ کمار سنگھ کو این ٹی اے کے سربراہ کے عہدے سے ہٹا دیا گيا ہے

اس بدعنوانی کو روکنے کا کوئی طریقہ بھی ہے؟

ہم نے پروفیسر کملا نند جھا سے اس کا حل پوچھا تو انھوں نے کہا کہ ’جب تک روایتی سکولوں کے نظام کو درست اور مضبوط نہیں کیا جاتا اور مختلف اداروں کو ذمہ دار نہیں بنایا جاتا تب تک اسے روکنا مشکل ہے۔‘

امتحانات میں بدعنوانی کے خلاف حالیہ قانون کے نفاذ کے بارے میں انھوں نے کہا کہ سزا اور جرمانے مسائل کا حل نہیں ہیں تاہم اس سے ان پر کچھ لگام تو پڑے گی ہی لیکن جب تک پورے نظام کو مضبوط نہیں کیا جاتا اس وقت تک اس میں بہتری کے آثار نہیں۔

انھوں نے اترپردیش کے ہائیر ایجوکیشن کے معاملے کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ٹیچرز کی تقرری کا معاملہ ہائی کورٹ میں گیا تھا اور پھر رفع دفع ہو گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’زبانی دعوؤں اور زمینی حقائق میں فرق ہوتا ہے اس لیے اس ضمن میں ٹھوس اقدام کی ضرورت ہے، مکمل تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.