کراچی میں ہیٹ ویو سے ہلاکتیں: ’سڑکوں پر بے ہوش ہوتے لوگ اور لاشوں سے بھرے سرد خانے‘

کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے قریب واقع شہر کے سب سے بڑے سرد خانے میں پچھلے دنوں لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ کراچی میں گرمی کی لہر سے کتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں، اس پر فلاحی اداروں اور حکومت کے اعداد و شمار بہت متضاد ہیں۔ لیکن فلاحی اداروں کے ایمبولینس ڈرائیورز نے سڑکوں پر کیا دیکھا اور کراچی میں ہیٹ ویو کی شدت اتنی زیادہ کیوں ہوتی ہے؟
کراچی
BBC

’اس شدید گرمی میں ہم چھوٹے سے مکان میں رہتے ہیں مگر اب اس گھر کے واحد کفیل اپنی پانچ بیٹیوں اور ایک بیٹے کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہم سے جدا ہو چکے ہیں۔‘

یہ الفاظ کراچی سے تعلق رکھنے والی شبانہ بانو کے تھے جو اپنے شوہر کی لاش وصول کرنے ایدھی سرد خانے آئیں۔

صبح سویرے اپنا آٹو رکشہ لیے ان کے 54 سالہ شوہر ارشاد حسین گھر سے مزدوری کے لیے نکلے تھے۔ رکشہ چلاتے ہوئے لانڈھی کے علاقے میں ان کی طبیعت بگڑ گئی اور پھر وہ سبنھل نہیں سکے۔ کچھ دیر بعد ان کی لاش ایدھی سرد خانے میں لائی گئی۔

شبانہ بانو نے بتایا کہ انھیں لانڈھی تھانے سے فون کال آئی کہ ان کے شوہر فوت ہو گئے ہیں۔ شبانہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے شوہر دل کے عارضے میں بھی مبتلا تھے اور رات کو بھی ان کی طبیعت خراب ہوئی تھی۔

پاکستان میں گزشتہ دنوں قیامت خیز گرمی پڑی جس کے دوران ملک کےکچھ علاقوں میں تو درجہِ حرارت 50 ڈگری سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔ اس دوران کراچی میں بھی گرمی کے ریکارڈ ٹوٹے جہاں ہلاکتوں کی تعداد کا معمہ اب تک حل نہیں ہو سکا۔

Karachi
BBC

کراچی میں ہیٹ ویو اور لاشوں سے بھرے سرد خانے

کراچی میں ’ہیٹ ویو‘ کے دوران ہلاکتوں کی خبریں اس وقت میڈیا کی شہہ سرخیوں میں آئیں جب ایدھی فاؤنڈیشن کے سربراہ فیصل ایدھی نے بتانا شروع کیا کہ ان کے تین سرد خانوں میں لاشوں کی آمد میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔

فیصل ایدھی نے بی بی سی کو بتایا کہ لاشوں کی آمد میں 19 جون سے غیر معمولی اضافہ شروع ہوا، تاہم 21 جون کو ان کے پاس 78 لاشیں آئیں، 25 جون تک کل 568 لاشیں لائیں گئیں۔

ان کے مطابق اگر صورتحال معمول پر ہو تو یومیہ تقریباً 30 تک لاشیں آتی ہیں اور تین روز میں زیادہ سے زیادہ تعداد ڈیڑھ سو بنتی لیکن روزانہ 100 سے زائد میتوں کی آمد ایک غیر معمولی صورتحال کی عکاسی کرتی ہے۔

ان کے مطابق ’یہ عام طور مزدور آبادیوں کے لوگ ہیں، لوئر مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے لوگ جن کی آبادیوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ بہت زیادہ ہو رہی ہے، سرد خانے میں لاش لانے والوں سے پوچھتے ہیں کیسے وفات ہوئی تو جواب ملتا ہے کہ ’ہیٹ ویو‘ بہت زیادہ ہے، گھروں میں بجلی نہیں اس لیے سب کی طبیعت خراب ہو رہی ہے۔‘

لائینز ایریا میں تھانوی مسجد ٹرسٹ کے زیر انتظام سرد خانے کے منتظم احتمام الحق تھانوی نے بی بی سی کو بتایا کہ عام دنوں میں 12 سے 15 میتیں آتی ہیں لیکن حالیہ دنوں یہ تعداد 25 سے 30 ہو گئی ہے جن کی عمریں زیادہ تر 50 سال سے زائد ہیں۔

فلاحی ادارے چھیپا ایمبولینس سروس کے ترجمان شاہد چوہدری کا کہنا تھا کہ اتوار سے ان کے پاس 100 سے زائد لاشیں آئیں جن میں 37 لاوارث تھیں یہ وہ لوگ تھی جو نشے کے عادی تھے اور گرمی برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ’اس کے علاوہ اگر کسی کے طبعی موت ہو رہی ہے تو گرمی کی وجہ سے لوگ میت گھر میں نہیں رکھ رہے اس کو سرد خانے منتقل کر دیتے ہیں۔‘

یہ بات تصدیق سے کہنا قبل از وقت ہو گا کہ انفرادی طور پر اموات کی وجہ کیا تھی۔ تاہم اموات میں اضافہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کراچی میں درجہ حرارت 40 ڈگری سے تجاوز کر گیا تھا اور مختلف رپورٹس کے مطابق نمی کی وجہ سے درجہ حرارت 49 ڈگری تک محسوس کیا گیا۔

پاکستان کے ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق کمشنر کراچی سلیم راجپوت نے شہر میں ہیٹ ویو سے بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کی رپورٹیں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’کراچی میں دو روز کے دوران ہیٹ سٹروک سے 10 افراد کی وفات ہوئی اور فلاحی اداروں سمیت کوئی بھی ادارہ موجودہ صورتحال کے حوالے سے از خود اموات کا ڈیٹا جاری نہ کرے بلکہ حکومت اور انتظامیہ سے پہلے تصدیق کرے۔‘

کراچی میں حالیہ ہیٹ ویو کے دوران کتنے لوگ ہلاک ہوئے حقیقی تعداد سامنے نہیں آ سکی ہے اور اموات کے متعلق جو اعداد و شمار بتائے جا رہے ہیں، ان کی کسی ذریعے سے تصدیق نہیں ہوئی ہے۔

کراچی کی سڑکوں پر بے ہوش ہوتے لوگ

Karachi
BBC

کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ کے قریب واقع شہر کے سب سے بڑے سرد خانے میں پچھلے دنوں لوگوں کا تانتا بندھا رہا۔ کوئی میت رکھوانے آ رہا تھا تو کوئی واپس لے جانے کے لیے۔

کھارادر کپڑا مارکیٹ میں ہاتھ ریڑھی والے 25 سالہ مزدور لیاقت عمارت پر سامان چڑھا رہے تھے کہ اچانک بے ہوش ہو کر گر گئے۔ انھیں فوری طور پر طبی امداد کے لیے پہلے سول ہسپتال اور بعدازاں لیاری جنرل ہسپتال منتقل کیا گیا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکے۔

ان کے ساتھی مرغوب سید نے بتایا کہ لیاقت کا تعلق باجوڑ سے تھا جن کی لاش آبائی علاقے کی طرف روانہ کر دی گئی ہے۔

اس مارکیٹ میں جمعرات کی صبح 11 بجے بھی ہر مزدور پسینے میں شرابور نظر آیا۔ مرغوب نے بتایا کہ ایک اور مزدور بھی گرمی کی شدت کی وجہ سے بے ہوش ہوئے اور وہ اس وقت ہسپتال میں ہیں۔

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر، صنعتی و تجارتی مرکز ہے، جہاں لاکھوں لوگ سڑکوں پر محنت مزدوری کرتے ہیں۔

ایدھی ایمبولینس کے ڈرائیور شبیر زمان نے بتایا کہ انھوں نے ایک مریض ریلوے کالونی سے اٹھایا جو کام کرتے کرتے بے ہوش ہوگیا جس کو انھوں نے ہسپتال پہنچایا۔ یہ ایک نوجوان لڑکا تھا۔

ایدھی رضاکار محمد ندیم نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے حالیہ گرمی کے لہر کے دوران شہر کے علاقوں بہادر آباد، طارق روڈ اور آس پاس سے آٹھ کے قریب لوگوں کو ہسپتال پہنچایا، جو سڑک پر گرمی کی شدت کے باعث بے ہوش ہوگئے تھے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں محکمہ موسمیات نے شدید گرمی کی لہر کے بارے میں پہلے سی ہی شہریوں کو خبردار کیا تھا۔ اس کے پیش نظر نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی ہدایت جاری کی تھی اور اس ضمن میں ہیٹ ویوو گائیڈ لائنز 2024 کے عنوان سے ایک کتابچہ بھی شائع کیا جس میں شدید گرمی کے نقصانات سے بچنے کے لیے سرکاری اور انفرادی سطح پر تدابیر بتائی گئی ہیں۔

گرمی
BBC

ہپستالوں میں گنجائش سے زیادہ مریض

کراچی میں حالیہ ہیٹ ویو کے دوران اموات کے دعوٰؤں کے برعکس صرف سول ہسپتال کے فراہم کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 23 جولائی سے 27 جولائی تک15 افراد ہلاک اور 360 سے زائد زیر علاج رہے۔

ہم کراچی کے سول ہسپتال پہنچے تو شعبہ ایمرجنسی میں آنے والا تقریباً ہر متاثر شخص شدید گرمی کی وجہ سے بیمار تھا۔

مردانہ وارڈ میں ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض موجود تھے اور بعض مریض تیمارداروں کی بینچوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ایک ایک سٹینڈ میں سے تین تین مریضوں کو گلوکوز کی بوتلیں لگی ہوئی تھیں۔

ہپستالوں میں گنجائش سے کہیں زیادہ مریض ہیں جن کی نگہداشت کرنے کے لیے ڈاکٹر اور سٹاف ایک بیڈ سے دوسری کی طرف دوڑتے دکھائی دیے۔

شعبہ ایمرجنسی کے انچارج ڈاکٹر عمران سرور نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی میں ہیٹ ویو کی شدت چل رہی ہے اور ہسپتال میں سنیچر کے روز سے مریضوں کی آمد شروع ہوئی تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے ڈائریا، اسہال، پیٹ میں دردکی شکایات عام ہیں اور ایسے مریض بھی آئے ہیں جو پہلے سے بیمار ہیں اور بلڈ پریشر، ذیابطیس وغیرہ کی بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہیٹ سٹروک کی وجہ سے مریضوں کو شدید بخار ہو رہا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ مریض ایسے ہیں جو سڑک کے بیچ میں گر گئے۔ ان میں خواتین و مرد دونوں شامل ہیں، کچھ افراد گھروں سے لائے گئے ہیں۔‘

زاہدہ خاتون جامع کلاتھ سے آئیں تھی جو ایک بینچ پر بیٹھی تھیں اور ان کے گود میں ایک نوجوان لڑکی سر رکھ کر لیٹی ہوئی تھیں۔ اس کے بازو پر گلوکوز کی بوتل لگی ہوئی تھی۔

گرمی
BBC

زاہدہ خاتون نے بتایا کہ یہ ان کی بہو ہیں اور ان کی شادی کو ابھی 11 دن ہی ہوئے ہیں۔ ’اچانک گرمی لگی، شربت بنا کر دیا تو الٹیاں کرنے لگیں پھر انھیں فوری طور پر ہپستال لایا گیا۔‘

وارڈ میں کئی ایسے مریض موجود تھے جنھیں آکسیجن لگی ہوئی تھی اور بیہوشی کی حالت میں لمبے لمبے سانس لے ہے تھے۔

رضوان نامی نوجوان جن کے بازوں پر گلوکوز ڈرپ لگی ہوئی تھی، ہاتھ میں آکسیجن ماسک لیے پھر رہے تھے۔ ہم نے ان سے بات کی تو انھوں نے بتایا انھیں بخار ہے اورسانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے اور اس وقت آکسیجن کے لیے ہسپتال کے عملےکی تلاش میں ہیں۔

وارڈ میں زیادہ تر بزرگ موجود تھے اور ہماری ٹیم کی موجودگی میں ایک بزرگ کی موت بھی واقع ہوئی تو فوری لاش ہٹا کر چادر تبدیل کرکے دوسرا مریض لایا گیا۔

ایک دوسرے بسترے پر ایک 40،45 سالہ مریض لمبی لمبی سانسیں لے رہے تھے جن کے لواحقین نے ہمیں بتایا کہ انھوں نے گرمی میں بوتل پی جس کے بعد ان کی طبیعت بگڑی اور وہ گر گئے۔

جب انھیں طبی امداد کے لیے قریبی ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹر نے ان کے لواحقین کو بتایا کہ ان کی طبعیت بوتل پینے سے خراب نہیں ہوئی اور انھیں ونٹی لیٹر کی ضرورت ہے لہذا ’فوراً جناحہسپتال لے جائیں ورنہ بچ نہیں پائیں گے۔‘

کراچی میں گرمی کی شدت مختلف کیوں ہوتی ہے؟

ایدھی
BBC

کراچی میں 2015 میں ہیٹ ویو کے نتیجے میں 1200 شہری ہلاک ہوئے تھے جبکہ 50 ہزار افراد بیمار ہو کر ہپستالوں میں داخل ہوئے تھے۔

ان دنوں بحیرہ عرب سے چلنے والی ہوائیں بند ہونے کی وجہ سے درجہ حرارت 44 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا۔

کراچی میں حالیہ دنوں درجہ حرارت 42 ڈگری سینٹی تک جا پہنچا تھا۔چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کا کہنا ہے کہ ’حالیہ ہیٹ ویوز اور 2015 کی ہیٹ ویو میں مماثلت ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’کراچی میں جولائی 2024 کی ہیٹ ویو کا جمعرات کو پانچواں دن تھا اور مسلسل گرمی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ کراچی کے جنوب مشرق میں انڈین گجرات کے شمال مشرق میں ہوا کا کم دباؤ بنا ہوا تھا جس کی وجہ سے سمندری ہوائیں بند تھیں۔ جب بھی سمندری ہوائیں بند ہوتی ہیں تو گرمی کی شدت میں ایسے ہی اضافہ ہوتا ہے۔‘

چیف میٹرولوجسٹ کے مطابق ’سنہ 2015 میں سمندر میں جنوب میں ہوا کا کم دباؤ بنا تھا جو بعد میں ڈپریشن میں بدل گیا تھا اس وقت لو پریشر والی صورتحال رہی۔ اگلی صورت یعنی ڈپریشن میں تبدیلی نہیں ہوئی تھی۔ راجستھان پر یا سمندر پر لو پریشر بن جاتا ہے توسمندر کی ہوائیں کٹ آف ہوجاتی ہیں۔‘

کراچی کے مقابلے میں پاکستان کے دیگر شہروں جیکب آباد، تربت میں حالیہ دنوں درجہ حرارت کراچی سے زیادہ رہا تاہم وہاں صورتحال سنگین نہیں بنی۔

چیف میٹرولوجسٹ سردار سرفراز کہتے ہیں کہ ’جیکب آباد میں درجہ حرارت 48 سینٹی گریڈ تھا لیکن وہاں اتنی گرمی محسوس نہیں ہوتی جو اصل درجہ حرارت ہوتا ہے وہ ہی محسوس ہوتا ہے۔‘

’لیکن اس کے برعکس کراچی سمیت جو ساحلی شہر ہیں وہاں چونکہ نمی بہت زیادہ ہوتی ہے وہاں جو درجہ حرارت ہوتا ہے وہ محسوس زیادہ ہوتا ہے اگر اصل درجہ حرارت 40 سینٹی گریڈ ہے تو اس کے ساتھ ہوا میں نمی 48 فیصد ہے اس کی ہیٹ انڈیکس 50 سے اوپر چلی جاتی ہے۔‘

’اس کا مطلب یہ ہوا کہ آپ کا جسم50 سینٹی گریڈ سے بھی زیادہ شدت برداشت کر رہا ہے اس لیے یہ انسانی نقل و حرکت اور انسانی جسم کے لیے زیادہ خطرناک ہوسکتا ہے اس میں آپ کا پسینہ نکلتا ہے، پانی کی کمی ہوجاتی ہے اور جسم میں تھکن ہوجاتی ہے۔‘

Karachi
BBC

ایک ایک شیلف پر تین تین لاشیں

کراچی میں سنہ 2015 کی صورتحال ابھی تک ایمبولینس ڈرائیوروں کو یاد ہے جب ہسپتالوں نے دروازے بند کردیے اور سردخانوں میں گنجائش ختم ہوگئی تھیں۔ چھیپا سمیت کئی سرد خانے اس کے بعد بنائے گئے۔

فیصل ایدھی کے مطابق انھوں نے اس صورتحال کے بعد ایسے شیلف بنوائے جن پر ایک ایک پر دو دو لاشیں آ سکیں لیکن اس بار انھیں ایک ایک شیلف پر تین تین لاشیں رکھنا پڑ رہی ہیں۔

ایدھی ایمبولینس ڈرائیور شبیر زمان اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’اللہ معاف کرے، وہ انتہائی خطرناک وقت تھا۔ جس گلی یا چوک پر جاتے تھے وہاں کوئی نہ کوئی مرچکا ہوتا تھا یا بے ہوش ہو کر گر جاتا تھا۔‘

’لاشیں اور لوگوں کو اٹھا اٹھا کر تھک گئے تھے۔ نہ سول نہ عباسی اور نہ ہی جناح ہسپتال میں جگہ تھی۔ مردہ خانے بھی بھر چکے تھے۔‘

ان کے مطابق صورتحال اب بھی ایسی ہی ہے۔ ’اس وقت بھی سول اور جناح میں جگہ نہیں تھی، وہ کہتے فلاں جگہ لے جاؤ، وہاں سے جواب آتا کہ کہیں اور لے جاؤ۔‘

ایک دوسرے ڈرائیور محمد ندیمکہتے ہیں کہ سنہ 2015 میں شدت زیادہ تھی۔ ’اس وقت لوگوں میں اتنی آگاہی بھی نہیں تھی کہ جگہ جگہ ہلاکتیں ہو رہی تھیں۔ تاہم اب لوگوں میں کچھ شعور اور آگاہی آئی ہے۔ وہ کچھ قدر خیال بھی کرتے ہیں اور کہیں نے کہیں پینے کا پانی بھی مل جاتا ہے۔‘

ڈرائیور شبیر زمان بتاتے ہیں کہ گرمی کی شدت کی وجہ سے ہر سینٹر پر 10-12 ڈرائیور بھی بیمار ہو چکے ہیں۔

ان کے مطابق ’گھر میں ایسا لگتا تھا کہ جیسے ابھی دل کا دورہ پڑے گا، اس قدر گرمی ہے کہ برداشت سے باہر ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’اب ہم جگہ جگہ سے پانی پیتے ہیں، جس جگہ مریض کو اتارتے ہیں، لیموں پانی لے لیتے ہیں، کوشش کرتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ پانی پی سکیں۔‘

ڈرائیور محمد ندیم کہتے ہیں کہ وہ گرمی میں پسینے سے شرابور ہوجاتے ہیں۔ ’بس ایک جذبہ ہے‘ جو انھیں حوصلہ دے رہا ہوتا ہے۔

کراچی میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کو بھی گرمی میں اضافے کا ایک سبب قرار دیا جاتا ہے۔ بجلی کے ادارے کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ جن علاقوں سے وصولی میں کمی ہے یا چوری زیادہ ہے وہاں دس گھنٹے تک کی لوڈشیڈنگ کی جاتی ہے۔

متاثرہ علاقوں میں غریب آبادی کی بستیاں شامل ہیں جو گنجان علاقوں میں واقع ہیں۔

کمشنر کراچی نے کے الیکٹرک کو ہدایت کی ہے کہ وہ ہیٹ ویو کی صورتحال کے دوران لوڈ شیڈنگ سے گریز کریں۔

شدید گرمی کے ہمارے جسم پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

گرمی
BBC

پاکستان، انڈیا میں گرمی کی لہر کوئی نئی بات نہیں لیکن نئی بات یہ ہے کہ ہر سال درجہ حرارت میں درجہ بہ درجہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

اب جیسے جیسے جسم کا درجہ حرارت گرم ہوتا ہے خون کی نالیاں کھلنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اس سے فشارِ خون میں کمی واقع ہوتی ہے اور دل کو جسم میں خون پہنچانے کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے۔

اس کے باعث جسم پر جلن پیدا کرنے والے نشانات بھی بن سکتے ہیں اور آپ کے پیروں میں سوزش بھی ہو سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پسینہ بہنے کی وجہ سے جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی واقع ہونے کی وجہ سے جسم میں ان کا توازن بدل جاتا ہے۔

ان علامات کے ساتھ کم فشارِ خون کی وجہ سے لو بھی لگ سکتی ہے جس کی علامات یہ ہیں:

  • سر چکرانا
  • بے ہوش ہونا
  • الجھن کا شکار ہونا
  • متلی آنا
  • پٹھوں میں کھچاؤ محسوس کرنا
  • سر میں درد ہونا
  • شدید پسینہ آنا
  • تھکاوٹ محسوس کرنا

اگر فشارِ خون بہت زیادہ حد تک گر جائے تو دل کا دورہ پڑنے کے امکانات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.