پاکستان عوامی مسلم لیگ: ’ناراض‘ بنگالی رہنماؤں کو ایک نئی سیاسی جماعت قائم کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی

23 جون سنہ 1949 کی سہ پہر معروف شہر ڈھاکہ میں ’کے ایم داس لین‘ کے ’روز گارڈن‘ میں ایک نئی سیاسی جماعت ’مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ کی بنیاد ڈالی گئی۔ بعد میں اس پارٹی کا نام تبدیل کر کے بنگلہ دیش عوامی لیگ رکھ دیا گیا۔

وہ جون کی تپتی سہ پہر تھی جب مشرقی پاکستان میں ڈھاکہ کے روز گارڈن میں تقریبا 250 سے 300 افراد جمع تھے۔

اس اجتماع میں پاکستان کی کئی نامور شخصیات موجود تھیں جنھوں نے دو ہی سال قبل مسلم لیگ کے پلیٹ فارم تلے ایک نئے ملک کے قیام میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

لیکن مشرقی پاکستان کے یہ رہنما اب مرکز سمیت مسلم لیگی قیادت سے بھی خائف تھے اور انھوں نے مل کر اس اجلاس میں ایک ایسا فیصلہ لیا جس نے بعد میں پاکستان سے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی بنیاد رکھی۔

یہ فیصلہ ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کا تھا جس کا نام مولانا عبدالحمید بھاشانی نے ’پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ تجویز کیا۔ 1949 میں قائم ہونے والی یہ جماعت بعد میں صرف ’عوامی لیگ‘ کے نام سے مشہور ہوئی جس کی سربراہی کرتے ہوئے شیخ مجیب الرحمان نے 1970 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی لیکن انھیں اقتدار نہ مل سکا اور یوں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا آغاز ہوا۔

لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کیا وجوہات تھیں جن کی بنا پر مسلم لیگ میں تقسیم پیدا ہوئی اور بنگالی رہنماوں کو آخر ایک الگ اور نئی مسلم لیگ کے قیام کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

عوامی لیگ کیسے بنی؟

مصنف اور سیاسی مبصر محی الدین احمد نے عوامی لیگ کے قیام اور عروج پر کتاب تحریر کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ مولانا اکرم خان اور خواجہ ناظم الدین جیسے قدآور رہنما سنہ 1947 میں قیام پاکستان کے بعد ڈھاکہ میں مسلم لیگ کی سیاست کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے تھے۔

’تاہم حسین شہید سہروردی، جو بعد میں پاکستان کے وزیرت اعظم بھی بنے، سمیت چند بنگالی صوبائی مسلم لیگ کے ترقی پسند رہنماؤں کو محسوس ہوتا تھا کہ انھیں نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ ‘

ان رہنماؤں نے ہی ایک نئی سیاسی جماعت کی تخلیق پر غور کرنا شروع کیا جن میں شیخ مجیب الرحمن بھی شریک تھے۔

اس سے قبل مولانا عبدالحمید خان بھاشانی ضمنی انتخاب میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو شکست دے چکے تھے لیکن الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دے دیا تھا۔

اس پیش رفت کے بعد ہی انھوں نے دیگر ہم خیال بنگالی مسلم لیگی کارکنوں کے ساتھ مل کر ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کے لیے مشاورت کا آغاز کیا اور ایک اجلاس طلب کیا گیا۔

اس اجلاس کے انعقاد کے لیے انھیں کوئی آڈیٹوریمدستیاب نہیں تھا۔ بالآخر قاضی ہمایوں رشید نے اجلاس کے لیے اپنا ’روز گارڈن‘ پیش کیا۔

مولانا عبدالحمید خان بھسانی
BBC
عوامی لیگ کے بانی صدر مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کا جلسہ عام سے خطاب

23 جون کی سہ پہر 250 سے 300 لوگوں کی موجودگی میں روز گارڈن میں ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ کیا گیا اور مولانا عبدالحمید خان بھاشانی کی تجویز کے مطابق اس جماعت کا نام ’مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ رکھا گیا۔

اس کے ساتھ ہی پورے پاکستان کے لیے تنظیم کا نام ’نکھل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ یعنی ’کل پاکستان عوامی مسلم لیگ‘ رکھا گیا جس کے صدر کے طور پر حسین شہید سہروردی کو منتخب کیا گیا۔

نئی بننے والی سیاسی جماعت کے رہنما کون تھے؟

نئی جماعت کی تشکیل کے بعد مولانا بھاشانی کو ایگزیکٹو کمیٹی بنانے کی ذمہ داری سونپی گئی جنھوں نے دیگر رہنماؤں سے مشاورت کے بعد کمیٹی کا اعلان کر دیا۔

مصنف محی الدین احمد کہتے ہیں کہ ’قراردار پاکستان پیش کرنے والے اے کے فضل الحق بھی روز گارڈن کے اس اجلاس میں کچھ دیر کے لیے شریک تھے، جو اس وقت مشرقی پاکستان کی حکومت کے ایڈووکیٹ جنرل یا اٹارنی جنرل تھے، لیکن بعد میں وہ اپنے سرکاری عہدے کی وجہ سے وہاں سے چلے گئے۔‘

مولانا بھاشانی خود اس نئی کمیٹی کے صدر منتخب ہوئے جبکہ شیخ مجیب الرحمن، جو اس وقت جیل میں نظر بند تھے، کو جوائنٹ جنرل سیکرٹری کا عہدہ سونپا گیا۔

اس طرح نئی پارٹی کی 40 افراد پر مشتمل پہلی کمیٹی بنی۔

اس اجلاس کے اگلے ہی دن 24 جون کو ارمانی ٹولا میدان میں ایک جلسہ عام بلایا گیا لیکن مخالف مسلم لیگی کارکنوں نے اس اجلاس پر حملہ کر دیا۔

عوامی لیگ کے نام سے لفظ ’مسلم‘ کیوں نکلا؟

مصنف محی الدین احمد کہتے ہیں کہ پارٹی کے نام کے ساتھ لفظ ’مسلم‘ لگانے پر کچھ لوگوں نے بعد میں اعتراض کیا اور اس کے متعلق پارٹی میں کافی تنازع رہا کہ لفظ مسلم ہونا چاہیے یا نہیں۔

’اسی دوران ہندو اور مسلم حلقوں میں الگ الگ الیکشن ہوئے لیکن پھر سنہ 1954 کے عام انتخابات کے دوران ایک سمجھوتہ طے پایا کہ یہ نئی پارٹی ایک غیر فرقہ وارانہ جماعت ہوگی۔‘

اس الیکشن میں 237 نشستوں میں سے 223 نشستیں متحدہ محاذ نے حاصل کیں جس میں مسلم لیگ کیخلاف پاکستان عوامی مسلم لیگ، کرشک مزدور پارٹی، پاکستان ڈیموکریٹک پارٹی، پاکستان خلافت پارٹی اور نظام اسلامی پارٹی نے اتحاد بنایا تھا۔ عوامی مسلم لیگ کو 143 نشستیں ملیں۔

اس متحدہ محاذ کے تین اہم رہنما مولانا بھاشانی، اے کے فضل الحق اور حسین شہید سہروردی تھے۔

مصنف محی الدین احمد نے کہا کہ ’جب مولانا بھاشانی پارٹی کو سیکولر بنانے کے لیے لفظ مسلم کو ختم کرنے پر اصرار کر رہے تھے، حسین شہید سہروردی چاہتے تھے کہ لفظ مسلم قائم رہے کیونکہ وہ ڈرتے تھے کہ کہیں مغربی پاکستان میں ان کی پارٹی کی مقبولیت کم نہ ہو جائے۔‘

بہر حال 1954 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد 1955 میں عوامی مسلم لیگ کی کونسل بنائی گئی اور پارٹی کے نام سے لفظ مسلم نکال دیا گیا جس کے نتیجے میں غیر مسلموں کو بھی اس گروپ میں شامل ہونے کا موقع ملا۔

پھر سنہ 1971 میں بنگلہ دیش کی آزادی کے وقت مشرقی پاکستان کا لفظ بھی نکال دیا گیا اور ’بنگلہ دیش عوامی لیگ‘ کا نام تمام دستاویزات میں استعمال ہوتا رہا۔

عوامی لیگ میں پہلی پھوٹ

محی الدین احمد کہتے ہیں: ’1952 میں جب عوامی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری شمس الحق بیمار ہوئے تو شیخ مجیب الرحمن کو قائم مقام جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اگلے سال مشرقی پاکستان عوامی مسلم لیگ کی ڈھاکہ میں منعقدہ جنرل کانفرنس میں انھیں جنرل سیکرٹری منتخب کیا گیا۔‘

اس انتخاب کے بعد وہ سنہ 1966 تک جنرل سیکرٹری رہے۔

تاہم خارجہ پالیسی پر اختلاف رائے کی وجہ سے یہ سیاسی جماعت سنہ 1957 میں تقسیم ہو گئی۔

مصنف محی الدین احمد کہتے ہیں: ’اس وقت مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کی حکومت تھی لیکن اس وقت پاکستان کی مرکزی حکومت نے امریکہ کے ساتھ کئی فوجی معاہدے کیے تھے اور پاکستان سیٹو (ساؤتھ ایشین ٹریٹی آرگنائزیشن) اور سینٹو (سینٹرل ٹریٹی آرگنائزیشن) جیسے فوجی اتحاد کا رکن تھا۔‘

’مولانا بھاشانی اور پارٹی کے اندر بائیں بازو کے لوگ عوامی لیگ پر زور دے رہے تھے کہ وہ امریکی فوجی اتحاد سے دستبردار ہو جائے لیکن حسین شہید سہروردی کو امریکی معاہدے کا حامی سمجھا جاتا تھا۔‘

’مولانا بھاشانی پاک امریکہ فوجی معاہدے کی منسوخی کا مطالبہ کر رہے تھے لیکن وزیر اعظم سہروردی اس پر راضی نہیں ہوئے۔‘

پھر مولانا بھاشانی نے 18 مارچ کو مشرقی پاکستان عوامی لیگ کے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

اسی سال 25 جولائی کو انھوں نے ڈھاکہ کے روپ محل سینما ہال میں نیشنل عوامی پارٹی (این اے پی) بنائی اور کئی رہنما عوامی لیگ چھوڑ کر ان کی نئی پارٹی میں شامل ہوئے۔

عوامی لیگ اور بنگلہ دیش

سنہ 1964 میں حسین شہید سہروردی کی وفات کے بعد عوامی لیگ دوبارہ منظم ہوئی۔

مصنف محی الدین احمد کہتے ہیں کہ 1966 میں شیخ مجیب کی جانب سے چھ نکات کا اعلان کیا گیا تو ایک بار پھر پارٹی کے اندر اختلافات پیدا ہوئے اور اس وقت جماعت کے سربراہ سمیت بہت سے لوگوں نے اس پروگرام کی مخالفت کی۔

’تاہم اسی سال مارچ میں عوامی لیگ کی کونسل میٹنگ میں شیخ مجیب الرحمان کو عوامی لیگ کا پہلا صدر منتخب کیا گیا جبکہ تاج الدین احمد جنرل سیکرٹری قرار پائے۔‘

’ایسے میں شیخ مجیب الرحمان کے چھ نکاتی پروگرام کی مخالفت کرنے والے کئی رہنما عوامی لیگ چھوڑ چکے تھے جبکہ ایک نئی قیادت سامنے آئی۔‘

مسٹر احمد کہتے ہیں کہ ’مشرقی پاکستان اسی قیادت کے ہاتھوں آزاد ہو کر بنگلہ دیش بنا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.