پاکستان میں ’ماں کے دودھ والا پہلا بینک‘ شروع ہونے سے پہلے ہی متنازع کیوں ہو گیا؟

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد نومولود بچوں کی صحت اور دیکھ بھال ہے جس میں انسانی دودھ کے بینک کا قیام بھی شامل تھا۔
breast milk
Getty Images

’میری بچی انتہائی نگہداشت وارڈ میں انکیوبیٹر میں تھی۔ اس کی پیدائش ساتویں مہینے میں ہوئی تھی۔ ماں کا دودھ نہیں آرہا تھا، فارمولا دودھ دے نہیں سکتے تھے، میری پوری کوشش تھی کہ کچھ بھی کر لوں اپنی بیٹی کی جان بچا لوں۔‘

’ایک خاتون سے درخواست کی جس کا نومولود بیٹا فوت ہو گیا تھا تو اس نے اپنا دودھ دینے کی حامی بھری اور میری بیٹی بچ گئی۔‘

یہ کہنا ہے رحیم شاہ کا جن کی قبل از وقت پیدا ہونے والی نومولود بیٹی کو کسی اور ماں کے دودھ نے زندگی بخشی ہے۔

رحیم شاہ بتاتے ہیں کہ بیٹی کے قبل از وقت پیدائش کے بعد ’ڈاکٹر نے کہا کہ ہم اسے فارمولا دودھ نہیں دے سکتے، آپ کسی طرح بھی اس کے لیے ڈونر تلاش کریں یا آپ اگر آپ کے رشتہ داروں میں کوئی بریسٹ فیڈنگ مائیں ہیں تو ان سے رابطہ کرکے آپ اپنی بچی کے لیے دودھ کا انتظام کریں۔‘

رحیم شاہ کا تعلق پاکستان کے شمالی علاقے سے ہے اور وہ کراچی میں ملازمت کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا خاندان کراچی سے بہت دور تھا اور ان کے پاس وقت کم تھا۔

یہ ان کی دوسری اولاد تھی۔ اس سے قبل ان کا ایک بیٹا گاؤں میں پیدائش کے وقت ہی فوت ہو گیا تھا۔

وہ جانتے تھے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں انفیکشن کے خطرات زیادہ ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان کی بچی انکیوبیٹر میں تھی۔

وہ اس پیچیدہ صورتحال پر کہتے ہیں کہ ’بچی کی اپنی قوت مدافعت کے لیے ماں کے دودھ کی اشد ضرورت تھی، ڈاکٹروں نے بھی مجھے قائل کیا کہ آپ کسی طرح بھی قدرتی دوودھ کا بندوست کریں۔‘

’مجھے وہاں ایک ماں ملی جس کے بیٹے کی موت ہو گئی تھی، وہ بہت دکھ میں تھی، ان کو میں نے درخواست کی تو اس نے میرے ساتھ تعاون کیا اور بریسٹ فیڈنگ کا ذمہ لے لیا۔‘

پاکستان کے پہلے ’ماں کے دودھ بینک‘ کا قیام اور تنازع

پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نومولود بچوں کی شرح اموات سب سے زیادہ ہے۔ اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ہزار نومولود بچوں میں سے 54 بچے فوت ہوجاتے ہیں۔ ایس جی ڈی گول کے مطابق پاکستان نے یہ شرح کم کرکے 12 بچوں تک لانے کا وعدہ کیا ہوا ہے۔

عالمی ادارہ صحت تجویز کرتی ہے کہ تمام بچوں کو پہلے چھ ماہ تک خصوصی طور پر ماں کا دودھ پلایا جائے اور دو سال کی عمر تک تکمیلی خوراک کے ساتھ دودھ پلانا جاری رکھا جائے۔

اسی صورتحال کے مد نظر پاکستان میں سندھ میں پہلا ’شرعی ملک بینک‘ قائم کیا گیا جس کی معاونت یونیسف نے کی تھی۔

مگر یہ منصوبہ ابتدا سے ہی متنازع ہو گیا جب کراچی میں دارالعلوم کورنگی کے مفتی تقی عثمانی نے اس بینک کو ’غیر شرعی‘ قرار دیتے ہوئے ایک فتویٰ جاری کیا۔

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد نومولود بچوں کی صحت اور دیکھ بھال ہے جس میں انسانی دودھ کے بینک کا قیام بھی شامل تھا۔

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی نے ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ دارالعلوم کراچی سے ایک فتویٰ لینے کے بعد یہ بینک قائم کیا گیا تھا۔

ادارے کا کہنا ہے کہ ’فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ 34 ہفتوں سے کم عمر کے وہ بچے جو قبل از وقت پیدا ہوجاتے ہیں ان کا وزن دو کلو گرام سے بھی کم ہوتا ہے، ماں کا دودھ کبھی کبھار اتنا نہیں ہوتا کہ ان کی نشوونما اچھے طریقے سے ہو سکے جبکہ ماں کے دودھ کے علاوہ کوئی اور دودھ صحت کی پیچیدگیوں اور انفیکشن کے ساتھ اموات کا خدشات پیدا کر سکتا ہے لہذا ان نو مولود بچوں کی زندگیاں بچانے کے لیے ضروری ہے کہ انھیں ماں کا دودھ فراہم کیا جائے۔‘

ادارے کے مطابق ’دارالعلوم کراچی کے فتویٰ میں کہا گیا تھا کہ جو بھی خواتین زیادہ مقدار میں دودھ فراہم کر رہی ہیں ان کا ڈیٹا رکھا جائے گا اور انھیں ان بچوں کی ماؤں سے شیئر کیا جائے گا جو دودھ پی رہے ہیں تاکہ ان کا ریکارڈ موجود رہے، ان فیملیز کو اس رشتے داری کے بارے میں آگاہ کیا جائے گا۔‘

’فتویٰ میں یہ بھی کہا گیا کہ یہ سروس بلا کسی معاوضے کی فراہم کی جائے گیاس کی خرید و فروخت کا کوئی تصور نہیں ہوگا۔‘

’مسلم بچوں کو صرف مسلم ماؤں کا ہی دودھ فراہم کیا جائے گا، یہ دودھ بیکٹریا سے پاک ہوگا اور صحت مند ماؤں سے لیا جائے گا، یہ دوودھ صرف 34 ہفتوں سے کم عمر والے بچے کو دیا جائے گا جن کی ماؤں کے پاس اتنا دوودھ نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو پلا سکیں۔‘

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی کا کہنا ہے کہ دودھ بینک کے قیام میں فتویٰ میں مشروط تمام نکات کو مد نظر رکھا گیا تھا تاہم دارالعلوم کی جانب سے ایک نظر ثانی فتویٰ جاری کیا گیا جس کی وجہ سے انھوں نے انسانی ملک بینک کو غیر فعال کردیا ہے۔

مفتی تقی عثمانی اور مفتی سید حسین احمد عفااللہ کی دستخط سے جاری ہونے والے نظرثانی فتویٰ میں کہا گیا ہے کہ مجمع الفقہ الاسلامی جدہ نے بھی ملک بینک کی ممانعت کی قرار داد پاس کی ہے۔

دارالعلوم کو اپنے فتوے میں نظر ثانی کی ضرورت کیوں پیش آئی؟

یہ سوال بی بی سی اردو نے مفتی تقی عثمانی تک ان کے سیکریٹری کے ذریعے پہنچایا جو اس وقت ترکی کے دورے پر ہیں لیکن تاحال ان کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

سندھ حکومت کا کیا کہنا ہے؟

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے بی بی سی کو بتایا کہ انھوں نے اسلامی نظریاتی کونسل کو ایک خط بھیج دیا ہے اور موقف اختیار کیا ہے کہ قرآن اور سنت کی روشنی میں کوئی عورت بچوں کو دودھ پلا سکتی ہے۔

’جو خواتین دودھ عطیہ کریں گی ان کا ریکارڈ رکھا جائے گا جو ان بچوں کے والدین سے شیئر کیا جائے گا جس کو ٹریک بھی کیا جاسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس سلسلے میں نادرا سے بھی مدد لی جا سکتی ہے، ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ لڑکے کی ماں صرف لڑکے کو دودھ فراہم کرے اور جو لڑکی کی ماں ہے وہ صرف لڑکی کو دودھ فراہم کرے۔‘

صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا کا کہنا ہے کہ ’ملک بینک سے خواتین نے بچوں کو ڈائریکٹ بریسٹ فیڈنگ نہیں کرانی تھی۔ وہ دودھ لے کر ہم نے اس کو بیکٹریا سے صاف کرکے فریز کرنا تھا اور اس کے بعد بچوں کو ٹیوب یا سرنج کے ذریعے فراہم کرنا تھا کیونکہ سات ماہ کے کمزور بچے خود سے پی نہیں سکتے ہیں۔‘

ڈاکٹر عذرا پیچوھو کہتی ہیں کہ ’میں نے تو تجویز کیا ہے جو ڈونر مائیں ہیں، انھیں معاوضہ بھی فراہم کیا جائے۔ یہ مذہب میں بھی حکم ہے ملک میں اتنی غربت ہے، خواتین عطیہ کرنے کے لیے تیار ہوجائیں گی۔‘

’اسلامی نظریاتی کونسل فیصلہ کرے گی‘

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی کا کہنا ہے کہ وہ دارالعلوم کراچی اور اسلامی نطریاتی کونسل سے مزید رہنمائی چاہتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر راغب نعیمی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب ملک بینک کا معاملہ آیا تو انھوں نے پہلے سے ہی اپنے ریسرچ ونگ کو اس پر کام کرنے کی ہدایت کردی تھی کیونکہ ’ضروری نہیں ہے کہ کوئی ایسے معاملے ان کو ریفر کریں، کونسل اپنے طور پر بھی ان کا جائزہ لے سکتی ہے۔‘

بقول ان کے 2013 اور 2014 میں بھی یہ معاملہ زیر بحث آچکا ہے۔

کونسل اب اگلے اجلاس، جو امکان ہے کہ اگست میں ہوگا، میں اس بارے میں گفتگو کرے گی جبکہ اس کے علاوہ علما اور نیوٹریشنسٹ سے بھی نشست ہوگی ’کہ جب کئی کمپنیاں نومولود بچوں کے لیے دودھ بنانے کا دعویٰ کر رہی ہیں تو اس صورت میں بھی کیا اس ماں کے دودھ کی ضرورت پڑ سکتی ہے اور دودھ پلانے سے جو نصب کا تعلق قائم ہوجاتا ہے اس کو کیسے دیکھا جائے گا۔‘

کراچی میں مدر فیڈنگ کا انتظام

رحیم شاہ کے مطابق کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ایک غیر رسمی نظام موجود ہے جس میں وہ مائیں جن کے بچے بدقسمتی سے زندہ نہیں رہتے اپنا دودھ عطیہ کرتی ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ تعلیم یافتہ فیملیز ہیں اور انھیں اس بات کا اندازہ ہوتا ہے انسانی جان کی کیا قیمت ہوتی ہے لہذا وہ اپنا دودھ ضائع کرنے کے بجائے عطیہ کردیتے ہیں۔‘

’یہ مائیں اپنا دودھ اس طرح کے کمزور بچے کو دے دیتی ہیں یا اپنے گھر سے دودھ لاتی ہیں اور ہسپتال میں محفوظ کرنے کے لیے رکھتی ہیں تاکہ ضرورت مند کو مل سکے۔‘

کراچی میں نومولود بچوں کے سرکاری ہپستال کے ایک سربراہ نے بتایا کہ یہ طریقہ کار ان کے ہسپتال میں بھی موجود ہے جس میں ’ماؤں کو درخواست کی جاتی ہے کہ وہ ضرورت مند بچوں کو دودھ فراہم کردیں اور اکثر ایسی مائیں دوسری ماؤں کی مدد کرنے کے لیے تیار ہوجاتی ہیں۔‘

breast milk
Getty Images

اسلامی ممالک میں منقسم رائے

اسلامی دنیا کے ممالک ماؤں کے دودھ والے بینک پر تقسیم نظر آتے ہیں۔ ترکی میں 2013 میں ازمیر میں ملک بینک قائم کیا گیا تھا جس کی منظوری حکومت کے زیر انتظام مذہبی اتھارٹی نے دی تھی۔

اسی طرحمسلمانوں کی اکثریتی آبادی والے ملک ملائیشا میں ملک بینک کامیابی سے کام کر رہا ہے اور میڈیا اس کا مثبت رخ اور کہانیاں بیان کرتا ہے۔

’ہیومن ملک فار ہیومن بیبیز‘ کے نام سے فیس بیک پیج بھی بنایا گیا جو ضرورت مند ماؤں اور عطیہ کرنے والی ماؤں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنتا ہے اور دنیا کے 52 ممالک میں پھیل چکا ہے، یہاں شرعی ملک بینک بھی موجود ہے۔

ایران میں 2022 سے بریسٹ ملک بینک کام کر رہے ہیں اس وقت 20 کے قریب بینک موجود ہیں۔

بنگلہ دیش میں 2019 میں ملک بینک قائم کیا گیا تھا لیکن مذہبی جماعتوں کے احتجاج کے بعد ایک مہینے کے اندر ہی یہ بینک بند کردیا گیا۔

امریکہ اور یورپ میں بھی ملک بینک موجود ہیں۔ تاہم امریکی اکیڈمی آف پیڈیا ٹرک کے ایک تحقیقی مقالے کے مطابق ’مغربی دنیا میں مسلم خاندان عطیہ دہندگان کی گمنامی اور کثرت کے پیش نظر انسانی دودھ کے بینکوں سے دودھ استعمال کرنے سے گریزاں ہیں۔‘

اس مقالے میں بتایا گیا ہے کہ ’عطیہ دہندگان کا نام ظاہر نہ کرنے کی وجہ سے مسلم خاندانوں کو تشویش لاحق ہوتی ہے کیونکہ اسلام میں دودھ کی رشتہ داری ایک مذہبی عقیدہ ہے۔‘

ماں کے دودھ کی غذائی اہمیت کیا ہے؟

سندھ انسٹیٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ نیوناٹولوجی کے سربراہ پروفیسر جمال رضا کہتے ہیں کہ جن بچوں کی پیدائش قبل از وقت ہوتی ہے ’یعنی ساتویں مہینے میں، ان کے لیے ماں کے دودھ کی ضرورت ہوتی ہے اور انھیں فارمولا دودھ نہیں دیا جاسکتا ہے کیونکہ ان بچوں میں انفیکشن ہونے کے زیادہ خطرات ہوتے ہیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’ایک آسانی سے ہضم ہونے والی خوراک ہونے کے علاوہ، جو بچے کی تمام ضروریات کو پورا کرتا ہے، AS میں اینٹی باڈیز اور خلیات ہوتے ہیں جو مدافعتی نظام کو مضبوط کرتے ہیں۔‘

’کوئی فارمولہ دودھ اس طرح اینٹی باڈیز اور مدافعتی خلیات پر مشتمل نہیں ہوتا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.