جولین اسانج: امریکی راز افشا کرنے والے وکی لیکس بانی ’معاہدے کے تحت‘ برطانوی جیل سے رہا

کئی برس پر محیط قانونی جنگ کے بعد برطانیہ میں قید وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو رہا کر دیا گیا ہے اور وکی لیکس کے مطابق اب وہ امریکی حکام سے ایک معاہدہ کے تحت اعتراف جرم کریں گے لیکن انھیں سزا نہیں دی جائے گی۔
جولین اسانج
Getty Images

کئی برس پر محیط قانونی جنگ کے بعد برطانیہ میں قید وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو رہا کر دیا گیا ہے اور وکی لیکس کے مطابق اب وہ امریکی حکام سے ایک معاہدہ کے تحت اعتراف جرم کریں گے لیکن انھیں سزا نہیں دی جائے گی۔

باون سالہ جولین اسانج 2010 اور 2011 میں ہزاروں خفیہ دستاویزات کو شائع کرنے کے الزام میں امریکہ کو مطلوب تھے۔ امریکہ کا سرکاری موقف یہ تھا کہ وکی لیکس فائل کے ذریعے عراق اور افغانستان جنگ کے بارے میں خفیہ معلومات عام کرنے سے کئی زندگیوں کو خطرے میں ڈالا گیا۔

گزشتہ پانچ سال سے جولین اسانج برطانیہ کی ایک جیل میں قید تھے اور امریکہ حوالگی کے خلاف قانونی جنگ لڑ رہے تھے۔ بی بی سی کے امریکی پارٹنر ادارے سی بی ایس نیوز کے مطابق معاہدے کے تحت جولین اسانج کو امریکہ میں حراست میں نہیں رکھا جائے گا اور برطانیہ میں ان کی قید کو بطور سزا شامل کیا جائے گا۔

محکمہ انصاف کے ایک خط کے مطابق جولین اسانج آسٹریلیا واپس لوٹ جائیں گے۔

دوسری جانب وکی لیکس نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر بیان دیا ہے کہ ایک چھوٹے سے سیل میں تقریبا 1900 دن قید کاٹنے کے بعد اسانج برطانیہ کی بیلمارش جیل سے رہا ہو گئے ہیں۔

وکی لیکس نے بتایا ہے کہ اسانج کو برطانیہ کے سٹانسٹیڈ ایئر پورٹ پر لے جا کر رہا کیا گیا جہاں سے وہ ایک جہاز میں بیٹھ کر آسٹریلیا لوٹیں گے۔

وکی لیکس کی جانب سے ایک ویڈیو بھی جاری کی گئی ہے جس میں ایک جینز اور نیلے رنگ کی شرٹ میں ملبوس اسانج کو ایئر پورٹ پر ایک جہاز میں بیٹھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ بی بی سی اس ویڈیو کی آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر پایا۔

اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے بھی ایکس پر ان کے حامیوں کا شکریہ ادا کیا ہے ’جنھوں نے کئی سال تک اس موقع کے لیے محنت کی۔‘

اسانج اور امریکہ کا معاہدہ کیا ہے؟

جولین اسانج اور امریکہ کے درمیان معاہدے کے تحت وکی لیکس کے بانی اپنے اوپر عائد ایک الزام میں اعتراف جرم کریں گے اور امکان ہے کہ 26 جون کو ناردرن ماریانا آئی لینڈز کی ایک عدالت میں فیصلہ سنایا جائے گا۔

یہ جزیرہ آسٹریلیا کے قریب ہی موجود ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق آسٹریلیا کی حکومت کے ایک ترجمان نے بتایا کہ ’یہ مقدمہ بہت زیادہ طویل ہو چکا تھا۔‘

جولین اسانج کے وکیل رچرڈ ملر نے سی بی ایس کی جانب سے رابطہ کیے جانے پر ردعمل دینے سے انکار کیا۔ بی بی سی نے اسانج کے امریکہ میں موجود وکیل سے بھی رابطہ کیا ہے۔

جولین اسانج اور ان کے وکلا نے ہمیشہ یہ موقف اپنایا ہے کہ ان کے خلاف درج مقدمہ سیاسی وجوہات پر بنایا گیا۔

یاد رہے کہ اپریل میں امریکی صدر جو بائیڈن نے کہا تھا کہ وہ آسٹریلیا کی اس درخواست پر غور کر رہے ہیں کہ اسانج کے خلاف مقدمہ بند کر دیا جائے۔

اگلے ہی ماہ برطانیہ کی ہائی کورٹ نے فیصلہ سنایا کہ اسانج امریکہ حوالگی کے خلاف نئی درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

اس فیصلے کے بعد اسانج کی اہلیہ سٹیلا نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’بائیڈن انتظامیہ کو اس شرمناک مقدمے سے دوری اختیار کر لینی چاہیے۔‘

امریکی حکام وکی لیکس کے بانی پر 18 الزامات کے تحت مقدمہ چلانے کے خواہش مند تھے جن میں سے اکثریت افغانستان اور عراق جنگ کے بارے میں خفیہ امریکی عسکری ریکارڈ اور سفارتی پیغامات کو جاری کرنے پر جاسوسی کے قوانین کے تحت بنے تھے۔

جولین اسانج کون ہیں؟

اسانج 1971 میں آسٹریلیا کے شہر کوینز لینڈ میں پیدا ہوئےجہاں ان کے والدین اپنی تھیٹر کمپنی کے ساتھ شہروں شہروں گھومتے رہتے تھے۔

لیکن اسانج کو تھیئٹر کا زیادہ شوق نہیں تھا بلکہ نوجوانی سے ہی کمپیوٹر کا جنون طاری تھا۔ اُن پر 1995 میں درجنوں ویب سائٹس کو ہیک کرنے کا جرم ثابت ہوا، جس کے بعد انھیں عدالت سے تنبیہ کی گئی اور جرمانہ بھرنا پڑا۔

جولین اسانج نے نوجوانی میں ایک ماہر تعلیم سولیٹ ڈریفس کے ساتھ تین برس تک کام کیا تھا۔ سولیٹ اُس وقت ابھرتے ہوئے انٹرنیٹ کی انقلابی جہتوں ہر تحقیق کررہی تھی۔ اسانژ نے اُن کے ساتھ مل کر ’انڈر گراؤنڈ‘ یعنی ’روپوش‘ نامی ایک کتاب لکھی جو کمپیوٹراستعمال کرنے والوں کی برادری میں ’بیسٹ سیلر‘ یعنی انتہائی مقبول قرار پائی۔

چند ہم خیال دوستوں کے ساتھ مل کر اسانج 2006 میں وکی لیکس ویب سائٹ کی بنیاد سویڈن میں ڈالی۔ بی بی سی سے اپنی ایک گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے کام میں بہت مہارت حاصل کر چکے ہیں، ہم معلومات کہاں سے اور کیسے حاصل کرتے ہیں کسی کو پتہ نہیں چلنے دیتے، ہم نے آج تک اپنے کسی ذریعے کو ظاہر نہیں کیا۔ ہم 20 مختلف ویب سائٹس کے ذریعے مواد شائع کرتے ہیں، ہمیں بند کرنے کے لیے ملکوں کو اپنی ویب سائٹس بند کرنی ہوں گی۔‘

سنہ 2010 میں وکی لیکس نے امریکہ کے ایک جنگی ہیلی کاپٹر سے بنائی گئی ویڈیو نشر کی جس میں عراق کے شہر بغداد میں شہریوں کو ہلاک کرتے ہوئے دیکھایا گیا تھا۔

اس ویڈیو میں ایک آواز سنی جا سکتی ہے جس میں پائلٹس کو اکسایا جا رہا ہے کہ ان سب کو مار دو اور اس کے بعد ہیلی کاپٹر سے گلیوں میں موجود شہریوں پر فائرنگ کی جاتی ہے۔

اس کے بعد جب ایک گاڑی جائے حادثہ سے زخمیوں کو اٹھانے کے لیے آتی ہے تو اس پر بھی فائرنگ کی جاتی ہے۔ خبر رساں ادارے رائٹرز سے منسلک فوٹو گرافر نمیر نور الدین اور ان کے معاون سعید چماغ بھی اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔

وکی لیکس نے ان ہزار ہا دستاویزات کو بھی شائع کیا جو سابقہ امریکی انٹیلیجینس تجزیہ کار چیلسی میننگ نے ان کو فراہم کیں۔ افغانستان میں جنگ سے متعلقہ دستاویزات کے ذریعے یہ راز فاش ہوا کہ کیسے امریکی فوج نے سیکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور یہ واقعات رپورٹ نہ ہو پائے۔

عراق جنگ سے متعلق دستاویزات سے یہ پتا چلا کہ 66 ہزار شہریوں کو ہلاک کیا گیا۔ یہ تعداد اس سے کم ہے جو رپورٹ ہوئی تھی۔ دستاویزات سے ظاہر ہوا کہ عراقی فورسز نے قیدیوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔

ان لیکس میں وہ دو لاکھ 50 ہزار پیغامات بھی شامل تھے جو امریکی سفارت کاروں کی جانب سے بھیجے گئے تھے۔ ان سے معلوم ہوا کہ امریکہ اقوام متحدہ کے کلیدی عہدیداروں کے بائیو گرافک اور بائیو میٹرک معلومات جیسا کہ ڈی این اے اور فنگر پرنٹس حاصل کرنا چاہتا تھا۔

امریکی استغاثہ کا موقف ہے کہ جولین اسانج نے ان خفیہ معلومات کو افشا کر کے انسانی زندگیوں کو خطرات لاحق کیے ہیں تاہم جولین اسانج کا موقف ہے کہ انھوں نے صرف امریکی فوج کی زیادتیوں کو آشکار کیا ہے۔

جولین اسانج نے سات برس تک لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لے رکھی تھی۔ ایکواڈور کے سفارت خانے سے نکلنے کے بعد ضمانت کی شرائط کو پورا نہ کرنے کے جرم میں انھیں قید کی سزا ہوئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
سائنس اور ٹیکنالوجی
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.