جہاں راشد خان کی ٹیم نے مایوسیوں کے بادلوں میں گھرے افغان عوام کو یہ ناقابلِ بیاں مسرت بخشی ہے، وہیں یہ کبیر خان، راشد لطیف اور انضمام الحق کے لیے بھی خوشی کا ساماں ہے کہ ان کے ہاتھوں کا لگایا پودا آج ورلڈ کرکٹ کے چار بڑوں کے بیچ اپنی شاخیں ابھارنے لگا ہے۔
![کرکٹ](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/a691/live/e5c4c440-343a-11ef-a044-9d4367d5b599.jpg)
یہ وہ آئی سی سی ٹرافی ہے کہ ایک دہائی پہلے تک جس پر افغانستان کو نگاہ ڈالنے کی بھی اجازت نہ تھی، مگر جون 2024 میں افغان کرکٹ ٹیم اس کے حصول کے اتنا قریب پہنچنے میں کامیاب رہی کہ فاصلہ صرف دو میچوں کا رہ گیا۔
سننے میں ہی، یہ کوئی مافوق الفطرت سی بات معلوم ہوتی ہے۔ مافوق الفطرت مظاہر تبھی سامنے آتے ہیں جب ان کی تہہ میں چھپے حوادث بھی کچھ ایسے ہی ہوں۔
جس ٹیم کو پہلی بار ورلڈ سٹیج پر کسی مقابلے میں شرکت کا پروانہ ہی 2015 میں ملا، اس نے اتنے کم وقت میں ایسا طویل سفر کیسے طے کر لیا کہ دنیا میں ٹی 20 کرکٹ پر حکمرانی کی دوڑ کے آخری چار دعوے داروں میں کھڑی ہو گئی۔
آئی سی سی ٹورنامنٹس کی پچھلی دو دہائیاں دیکھ لیں، چار سیمی فائنلسٹس کے نام پڑھیے تو وہی پانچ چھ نام ہیں جو گھوم پھر کے سامنے آتے ہیں۔ اس سفر میں، افغانستان کو ان پانچ چھ ممالک کی زرخیز کرکٹ تاریخ اور بھاری بھر کم جیبوں کا مقابلہ کرنا تھا۔
افغان کرکٹ کی خوش قسمتی دیکھیے کہ پیدا تو پاکستان میں ہوئی مگر جوان ہوتے ہی انڈیا کی سرپرستی میں آ گئی۔ سیاسی اور سٹریٹیجک اعتبار سے یہ صائب فیصلہ تھا کہ بہرحال جو کچھ افغان کرکٹ کے لیے بھاری بھر کم انڈین کرکٹ بورڈ کر سکتا تھا، جلا وطنی سے مفلوک الحال پی سی بی بھلا سوچ بھی کہاں سکتا تھا۔
آج افغان کرکٹ چشمِ فلک کے روبرو ہو کر بھی خندہ زن ہو سکتی ہے کہ جس آسٹریلوی کرکٹ بورڈ نے ان کا بائیکاٹ کیا تھا، اسی کی قیمت پر راشد خان کی ٹیم نے سیمی فائنل میں جگہ پائی۔
اس ایک ٹورنامنٹ میں افغان کرکٹ نے وہ کچھ کر دکھایا ہے جو انٹرنیشنل سٹیٹس کی پچھلی ڈیڑھ دہائی میں نہیں ہو پایا۔ انھوں نے نیوزی لینڈ کی ٹیم کو اس خفت سے دو چار کیا جو ہر بار ہی سیمی فائنل کھیلنے کی عادی ٹیم کے لیے ایسا صدمہ ٹھہرا جو وہ اس کے بعد اٹھ ہی نہ پائی۔
اور پھر آسٹریلیا کو بھی وہ ہزیمت چکھائی جو سات ماہ پہلے ون ڈے ورلڈ کپ میں چکھاتے چکھاتے رہ گئے تھے۔
آسٹریلوی ٹیم کے لیے یہ ایسا جھٹکا ثابت ہوا کہ وہ انڈیا کے خلاف بھی اپنے اعصاب سنبھالنے میں ناکام رہ گئے۔ ڈیوڈ وارنر کا فیئر ویل خراب ہو گیا اور عثمان خواجہ کو کہنا پڑ گیا کہ آسٹریلیا کو افغانستان سے دو طرفہ کرکٹ روابط استوار کرنے چاہییں۔
نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کو شکست دے کر افغانستان نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ اب ان کی فتوحات کا دائرہ صرف ایشیائی ٹیموں تک محدود نہیں ہے۔ اس سے پہلے وہ پاکستان، سری لنکا اور بنگلہ دیش کے خلاف بھی سیریز جیت چکے ہیں۔
جنگ زدہ حالات اور بحرانوں کے بوجھ تلے پنپنے والی افغان کرکٹ کی یہ پود دنیا کے سامنے واضح کر رہی ہے کہ دہائیوں پہ محیط جبر اور استحصال بھی اس آہن کو موم نہیں کر پایا اور وہ اپنی مزاحمت کی خُو نہ چھوڑیں گے۔
![rashid](https://ichef.bbci.co.uk/news/raw/cpsprodpb/ffa1/live/bbc58eb0-32e9-11ef-bfb1-5f1679f1f07f.jpg)
پچھلے برس جب پاکستان حکومت نے افغان مہاجرین کو بے دخلی کا سندیس دیا تو ون ڈے ورلڈ کپ میں پاکستان کو ہرا کر رحمان اللہ گرباز نے اپنی جیت ان افغان مہاجرین کے نام کر دی جنہیں دہائیوں بعد وہ ملک چھوڑنا پڑ رہا تھا جہاں وہ سوویت یلغار سے پناہ لینے کو مہاجر کیمپوں میں آئے تھے۔
یہ افغان کرکٹ کی عین وہی جنریشن ہے جس نے اپنے بچپن کے دن پشاور میں کرکٹ کھیلتے گزارے۔ راشد خان اور محمد نبی پریس کانفرنسز میں تب تک اردو بولتے رہے جب تک افغان کرکٹ بورڈ نے سرکاری ممانعت نہ جاری کر دی۔
مگر اپنی جڑیں پاکستان میں رکھنے اور شاخیں انڈیا میں ہونے کے باوجود جو لڑائی کا جذبہ اس افغان ٹیم کے سارے سفر کی روح ہے، وہ اسے نہ تو پی سی بی نے دیا ہے اور نہ ہی بی سی سی آئی دے سکتا تھا۔ یہ اس نسل کے اس کڑوے سفر کا سچ ہے جو انہوں نے جنگ زدہ حالات اور مفلوک الحالی بِتا کر کمایا ہے۔
افغان ٹیم کے سیمی فائنل میں پہنچنے کا جشن افغان عوام نے سڑکوں پر نکل کر منایااس قدر کم وقت میں اتنا لمبا سفر طے کر جانے والی افغان کرکٹ آج اس طویل قامت شاپور زدران اور چست قدم دولت زدران کی بھی ممنون ہے جنہوں نے اپنی اگلی جنریشن میں وہ جوش اٹھایا جو آج فضل حق فاروقی کی شکل میں جھلک رہا ہے۔
یہ سفر اس محمد شہزاد کو بھی کیسے بھول سکتا ہے جن کے بیٹنگ سٹائل نے افغان کرکٹرز کی ایک جنریشن کو انسپائر کیا۔
آج اگر صرف اچھے سپنرز کے لیے معروف افغان ٹیم میں رحمان اللہ گرباز جیسے بلے باز موجود ہیں تو یہ محض اس عزم کی تکمیل ہے جس کی شروعات افغان ڈریسنگ روم کے ہر دلعزیز ’ایم ایس‘ نے کی تھی۔
اور پھر اس سارے سفر کے جو کلیدی کردار تھے وہ تھے اصغر ستانکزئی، جنھیں بعد میں سیاسی شور سے اکتا کر اصغر افغان بننا پڑا۔ ان کی قیادت میں افغان ٹیم نے جیت کی وہ عادت اپنائی کہ وہ ٹی 20 انٹرنیشنل تاریخ کے کامیاب ترین کپتانوں میں آ ٹھہرے۔
گو منزل راشد خان کو آ کر ملی مگر پہلے قدم اٹھانے والوں میں نمایاں ترین نام اصغر افغان کا تھا جنھوں نے افغان کرکٹ میں تدبر کا عنصر پیدا کیا اور محض لڑنے کی بجائے کھیل کا شعور استعمال کر کے جیت کی عادت ڈالی۔
جہاں راشد خان کی ٹیم نے مایوسیوں کے قہر میں گھرے افغان عوام کو یہ ناقابلِ بیاں مسرت بخشی ہے، وہیں یہ کبیر خان، راشد لطیف اور انضمام الحق کے لیے بھی خوشی کا ساماں ہے کہ ان کے ہاتھوں کا لگایا پودا آج ورلڈ کرکٹ کے چار بڑوں کے بیچ اپنی شاخیں ابھارنے لگا ہے۔