پاکستان کی قومی اسمبلی میں فنانس بل منظور: آپ کو اپنی تنخواہ پر کتنا ٹیکس ادا کرنا ہوگا؟

پاکستان کی قومی اسمبلی نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کے مزید بوجھ پر اعتراضات کے باوجود مالی سال 25-2024 کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔
tax
Getty Images

پاکستان کی قومی اسمبلی نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکسز کے مزید بوجھ پر اعتراضات کے باوجود مالی سال 25-2024 کے بجٹ کی منظوری دے دی ہے۔

12 جون 2024 کو حکومت کی جانب سے بجٹ پیش کیے جانے کے بعد اس پر اپوزیشن کے علاوہ بزنس کمیونٹی اور تنخواہ دار طبقے کی جانب سے اعتراضات اٹھائے گئے تھے۔ اس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح کو بڑھایا گیا ہے۔

اس بجٹ کی منظوری سے قبل اس میں ایک تبدیلی یہ کی گئی ہے کہ ماہانہ ایک کروڑ سے زیادہ آمدن کمانے والے افراد پر سرچارج لگایا گیا ہے۔ یعنی ایسے افراد جن کی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ایک کروڑ ہو انھیں 45 فیصد نارمل ٹیکس کے علاوہ دس فیصد سر چارج بھی ادا کرنا پڑے گا۔

ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے صحافی تنویر ملک کو بتایا کہ ’چونکہ یہ بجٹ انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کی زیر نگرانی بنا ہے، اس لیے یہ توقع تھی کہ جو فنانس بل 12 جون کو پیش کیا گیا تھا وہی قومی اسمبلی پاس کرے گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’اس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح وہی ہے جو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد تجویز کیے گئے تھے۔‘

حکومت کی جانب سے بجٹ پاس کرتے وقت پیٹرول اور ڈیزل پر آئندہ مالی سال میں پٹرولیم لیوی کی شرح کو ساٹھ روپے فی لیٹر سے 80 روپے فی لیٹر تک بڑھانے کی تجویز دی گئی تھی تاہم منظور شدہ فنانس بل میں اس کی شرح 70 روپے فی لیٹر مقرر کی گئی ہے جو آئندہ مالی سال میں پیٹرول و ڈیزل کے صارفین سے وصول کی جائے گی۔

یہ فنانس بل ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا ہے کہ جب پاکستان بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے چھ سے آٹھ ارب ڈالر کے پروگرام کے لیے مزید مذاکرات کرنے جا رہا ہے۔

بجٹ میں ٹیکس کی وصولی کا ہدف بڑھایا گیا ہے جس میں براہ راست ٹیکسز پر 48 فیصد جبکہ بلاواسطہ ٹیسکز میں 35 فیصد اضافہ کیا گیا۔

سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت تحریک انصاف کے رہنماؤں سمیت حزب اختلاف نے اس بجٹ کی شدید مخالفت کی تھی۔

پاکستانی حکومت نے آئندہ مالی سال کے دوران پیداوار کی شرح 3.6 فیصد رکھی ہے جبکہ افراطِ زر یا مہنگائی کی شرح 12 فیصد رہنے کا امکان ہے۔

تنخواہ دار طبقے کے نئے سلیبز کیا ہیں؟

یکم جولائی 2024 سے شروع ہونے والے مالی سال کے بجٹ میں کُل ٹیکس سلیب سات ہیں:

  • پہلا سلیب: تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ
  • دوسرا سلیب: تنخواہ چھ لاکھ سے 12 لاکھ سالانہ
  • تیسرا سلیب: تنخواہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 12-24 لاکھ تھا)
  • چوتھا سلیب: تنخواہ 22 لاکھ سے 32 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 24-36 لاکھ تھا)
  • پانچواں سلیب: تنخواہ 32 لاکھ سے 41 لاکھ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 36-60 لاکھ تھا)
  • چھٹا سلیب: تنخواہ 41 لاکھ سے زیادہ (یہ سلیب رواں مالی سال میں 60 لاکھ سے زیادہ تنخواہ والے افراد کے لیے تھا)
  • ساتواں سلیب: تنخواہ 12 کروڑ سالانہ
tax
Getty Images

تنخواہوں پر ٹیکس کے نئے ریٹس کیا ہیں؟

تنخواہوں کے نئے سلیب کا جائزہ لینے کے بعد آئیے جانتے ہیں کہ نئے ریٹس کیا ہیں۔ اس سال پانچ سلیبز کے ریٹس میں تبدیلی تجویز کی گئی ہے۔

  • پہلے سلیب میں ایسے افراد شامل ہیں جن کی تنخواہ چھ لاکھ روپے سالانہ ہے اور ان پر کوئی انکم ٹیکس لاگو نہیں ہوتا۔
  • دوسرا سلیب ایسے افراد کا ہے، جن کی سالانہ آمدن چھ لاکھ سے زیادہ مگر 12 لاکھ تک ہے۔ ایسے افراد کو چھ لاکھ سے زیادہ آمدن پر پانچ فیصد ٹیکس دینا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ڈھائی فیصد تھا)
  • تیسرا سلیب سالانہ 12 لاکھ سے 22 لاکھ کی آمدن والے افراد کے لیے ہے۔ ان کے لیے 30 ہزار فکسڈ ٹیکس ہو گا جبکہ اس کے علاوہ 12 لاکھ سے زائد کی آمدن پر 15 فیصد ٹیکس لگے گا۔ (یہ رواں مالی سال میں 15 ہزار فکسڈ اور 12 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 12.5 فیصد تھا)
  • چوتھا سلیب ان افراد کے لیے ہے جن کی سالانہ تنخواہ 22 لاکھ سے زیادہ اور 32 لاکھ تک ہے۔ انھیں سالانہ ایک لاکھ 80 ہزار فکسڈ اور 22 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 25 فیصد کے حساب سے ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔ (یہ رواں مالی سال میں ایک لاکھ 65 ہزار فکسڈ اور 24 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 22.5 فیصد تھا)
  • پانچواں سلیب 32 لاکھ سے 41 لاکھ کی سالانہ آمدن والے افراد کے لیے ہے، جنھیں چار لاکھ 30 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 32 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 30 فیصد ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔(یہ پہلے چار لاکھ 35 ہزار فکسڈ ٹیکس اور 36 لاکھ سے زیادہ آمدن پر 27.5 فیصد تھا)
  • چھٹا سلیب 41 لاکھ سے زائد آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر سات لاکھ فکسڈ انکم ٹیکس اور 41 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد ٹیکس لاگو ہو گا۔ (یہ پہلے دس لاکھ 95 ہزار فکسڈ اور 60 لاکھ سے زائد آمدن پر 35 فیصد تھا)
  • ساتواں سلیب میں ایسے افراد یا ایسوسی ایشن آف پرسنز ہیں جن کی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ایک کروڑ یعنی بارہ کروڑ ماہانہ ہو۔ انھیں 45 فیصد نارمل ٹیکس کے علاوہ دس فیصد سر چارج بھی ادا کرنا پڑے گا۔
govt
Getty Images

آپ کا ٹیکس کتنا بڑھے گا؟

  • اگر آپ کی آمدن پچاس ہزار روپے ماہانہ ہے تو آپ کو کوئی انکم ٹیکس نہیں دینا ہو گا۔ تاہم اگر یہ آمدن 50 ہزار اور ایک لاکھ روپے ماہانہ کے درمیان ہے یعنی مثال کے طور پر80 ہزار ہے تو آپ کو ماہانہ چار ہزار روپے ٹیکس دینا پڑے گا جو گذشتہ برس دو ہزار تھا۔
  • ماہانہ ڈیڑھ لاکھ روپے آمدن کی صورت میں گذشتہ برس آپ کو 7500 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرنا ہوتا تھا، تاہم اب یہ رقم بڑھ کر 10 ہزار روپے ماہانہ ہو جائے گی۔
  • دو لاکھ روپے ماہانہ کمانے والوں کو گذشتہ برس تک 13750 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑتا تھا، تاہم اب ان کا سلیب تبدیل ہو گیا ہے اور انھیں 19,166 روپے ماہانہ ٹیکس دینا پڑے گا۔
  • ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن ڈھائی لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 25 ہزار روپے ماہانہ ٹیکس کی مد میں دیا کرتے تھے، اب یہ 31666 روپے ماہانہ انکم ٹیکس دیں گے۔
  • تین لاکھ ماہانہ کمانے والے افراد پہلے ماہانہ 36250 روپے انکم ٹیکس دیتے تھے اور اب اس رقم پر ان کا ماہانہ ٹیکس 45833 روپے بنے گا۔
  • ساڑھے تین لاکھ کمانے والوں کا ماضی میں ماہانہ انکم ٹیکس 50 ہزار روپے تھا، جو اب بڑھ کر 61250 روپے ہو جائے گا۔
  • ایسے افراد جن کی ماہانہ آمدن چار لاکھ روپے ہے وہ اس سے قبل 63750 روپے ماہانہ ٹیکس ادا کرتے تھے، اب یہ رقم بڑھ کر 78750 روپے ہو جائے گی۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

ماہر ٹیکس امور ڈاکٹر اکرام الحق نے قومی اسمبلی سے منظور کیے جانے والے فنانس بل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس میں کچھ معمولی تبدیلیاں کی گئی ہیں اور حکومت کی جانب سے بارہ جون کو جو فنانس بل پیش کیا گیا اس میں بہت کم ترامیم کی گئی ہیں۔

انھوں نے کہا کہ چونکہ یہ بجٹ آئی ایم ایف کی زیر نگرانی بنا ہے، اس لیے یہ توقع تھی کہ جو فنانس بل بارہ جون کو پیش کیا گیا تھا وہی قومی اسمبلی پاس کرے گی۔

منظور شدہ فنانس بل پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر اکرام نے کہا اس میں تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح وہی ہے جو قومی اسمبلی میں پیش کیے جانے کے بعد تجویز کیے گئے تھے۔

انھوں نے کہا کہ اس میں صرف ایک تبدیلی کی گئی ہے جس میں ایک ایسے افراد یا ایسوسی ایشن اف پرسنز جن کی ماہانہ تنخواہ یا آمدن ایک کروڑ یعنی بارہ کروڑ ماہانہ ہو انھیں 45 فیصد نارمل ٹیکس کے علاوہ دس فیصد سر چارج بھی ادا کرنا پڑے گا۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے سر چارج پندرہ کروڑ سالانہ پر لگتا تھا جسے منظور شدہ فنانس بل میں بارہ کروڑ کر دیا گیا ہے۔

ماہر ٹیکس امور ذیشان مرچنٹ نے صحافی تنویر ملک سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ٹیکس کی شرح کو عام فہم انداز میں سمجھا جائے تو ایک فرد جو ماہانہ 75000 روپے کما رہا ہے وہ سال بھر میں 900000 روپے کماتا ہے۔

’وہ موجودہ مالی سال میں ڈھائی فیصد کی شرح سے سالانہ 7500 روپے حکومت کے خزانے میں جمع کرواتا ہے اگلے مالی سال میں پانچ فیصد کی شرح سے 15000 روپے جمع کرانا ہوں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس کی شرح بڑھا کر ظلم کیا ہے کیونکہ یہی شعبہ ٹیکس دیتا ہے اور اسے سب سے زیادہ ٹیکس کا سامنا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’حکومت نے نان فائلرز کو ٹیکس نیٹ لانے میں ناکامی کے بعد اس شعبے پر ٹیکس کا زیادہ نفاذ کر دیا جو پہلے سے ٹیکس دے رہا تھا۔

’جو شرح بڑھائی گئی ہے اس کے بعد تنخواہ دار طبقے کی جیب پر زیادہ بوجھ پڑے گا۔‘

ماہر معاشیات عمار خان نے اس حوالے سے تبصرہ کرتے ہوئے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر پوسٹ کیا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ جس نے بھی یہ سلیب بنائیں ہیں انھوں نے یہ حساب لگایا ہے کہ ان کے نتیجے میں ٹیکس میں اضافہ کتنا زیادہ ہو گا۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.