’مبارک ہو، ورلڈ کپ ہوا ہے‘: سمیع چوہدری کی تحریر

انڈین ٹیم یہ بھی ٹورنامنٹ سے ہفتوں پہلے جانتی تھی کہ اگر وہ سیمی فائنل میں پہنچ گئی تو وہ میچ بھی کس وینیو پہ اور کب ہو گا

چار ہفتوں پہ پھیلی وہ محفل جو آئی سی سی نے 'سجنا' کے لیے سجائی تھی، بالآخر سجنا کی جیت پہ ہی تمام ہوئی۔ آئی سی سی کو مبارک ہو کہ ایونٹ کامیاب رہا اور بی سی سی آئی کے ہاں ایک اور ورلڈ کپ ہوا۔

کرکٹ اپنی کمائی کا ایک خطیر حصہ براڈکاسٹنگ رائٹس کی فروخت سے کماتی ہے۔ اب جو براڈکاسٹرز اس قدر پیسہ بھرتے ہیں، وہ پھر اپنے انداز سے کھیل پہ اثر انداز بھی ہوتے ہیں۔ یہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

آئی سی سی ایونٹس کی براڈکاسٹ کمائی کا سب سے بڑا حصہ انڈین مارکیٹ پیدا کرتی ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ میچز ایسے اوقات میں ہوں جب زیادہ سے زیادہ آڈینس دستیاب ہو۔ انڈین آڈینس کی سہولت کو جواز بنا کر آئی سی سی نے انڈیا کو وہ پلئینگ کنڈیشنز فراہم کی جو بقول اینڈی فلاور منصفانہ نہیں تھیں۔

انڈین آڈینس کا پرائم ٹائم جہاں پڑتا ہے، کریبئین جزائر میں اس وقت سورج طلوع ہوتا ہے۔ یوں انڈیا کو ٹورنامنٹ میں داخل ہونے سے بھی کافی پہلے معلوم ہو گیا تھا کہ اس ٹرافی تک رسائی کے لیے انھیں کوئی نائٹ میچ نہیں کھیلنا پڑے گا۔

یہی نہیں، انڈین ٹیم یہ بھی ٹورنامنٹ سے ہفتوں پہلے جانتی تھی کہ اگر وہ سیمی فائنل میں پہنچ گئی تو وہ میچ بھی کس وینیو پہ اور کب ہو گا۔ سکواڈ طے کرنے سے پہلے ہی کوچ راہول ڈریوڈ اور کپتان روہت شرما جانتے تھے کہ گیانا میں سپنرز زیادہ موثر ہوں گے اور امریکی کنڈیشنز سے نکلنے کے بعد انھیں کس طرح کی پچز کے لیے کیسی الیون چاہیے ہو گی۔

یہ وہ تمام عوامل تھے جنھوں نے پہلی بار کئی سابقہ و موجودہ کرکٹرز کو یہ سوال اٹھانے پہ مجبور کر دیا کہ کیا آئی سی سی نے یہ سارا میلہ فقط انڈین کرکٹ اور انڈین مارکیٹ کو لبھانے کے لیے سجایا ہے؟ سابق انگلش کپتان مائیکل وان نے بھی اس ساری شیڈولنگ کو آئی سی سی کی زیادتی پہ محمول کیا۔

لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ یہ سب رعایتیں نہ ملنے پہ روہت شرما کی ٹیم ٹرافی نہیں اٹھا سکتی تھی۔ یہ ٹیم بلا شبہ اس قابل ہے اور یہی اس کے پچھلے دو برس میں بارہا آئی سی سی ٹائٹل کے قریب پہنچنے کا سبب بھی ہے مگر ہر بار یہ ٹیم ٹائٹل کے عین پاس آ کر چکرا جاتی تھی۔

کیشو مہاراج نے جب پاور پلے میں اوپر تلے دو بڑے برج گرائے تو انڈین بیٹنگ اچانک دباؤ میں آ گئی اور کوہلی کو فوری اپنے اس اسلوب سے ہٹنا پڑا جس سے انہوں نے مارکو یئنسن کے خلاف شروعات کی تھی۔ یہاں کوہلی نے اپنی انا کو برطرف رکھ دیا اور اپنی اننگز کا گئیر یکسر بدل دیا۔

ایڈن مارکرم غالباً گذشتہ ایک دہائی کے بہترین جنوبی افریقی کپتان ہیں۔ جب کوہلی نے پہلے اوور میں یئنسن کا پیچھا کیا تو مارکرم نے مہاراج کے سپیل اور اپنے اکلوتے اوور سے منہ زور انڈین بیٹنگ کو لگام ڈال دی۔ اس کے بعد کوہلی کی اننگز رینگنے لگی۔

کوہلی کی یہ اننگز اس قدر سست روی کا شکار ہوئی کہ اننگز بریک پہ بہت سارے ماہرین شماریات کوہلی کے سٹرائیک ریٹ کی بحث میں ڈوب گئے اور یہ دلیل لائی گئی کہ جس قدر گیندیں کوہلی کی اس اننگز کی تعمیر میں خرچ ہوئیں، وہ انڈین اننگز کا نصف تھیں، جس کا سٹرائیک ریٹ 130 سے کم رہا۔

کیشو مہاراج کا بھی کچھ ایسا ہی خیال تھا کہ یہ پچ اب بیٹنگ کے لیے مزید سازگار ہو چکی ہے اور یہاں انڈین اننگز کا یہ مجموعہ کم پڑنے والا تھا۔

کریبئین پچز سپن کی تائید کرتی ہیں اور انڈین ٹیم تین ورلڈ کلاس سپنرز سے لیس تھی جو جنوبی افریقی بلے بازوں کی زندگی مشکل کر سکتے تھے۔ لیکن جنوبی افریقی تھنک ٹینک کی سٹریٹیجی خوب موثر تھی کہ جس کے تحت ڈی کوک نے شروع میں اٹیک سے گریز کیا۔

اور پھر جب انڈین سپنرز اٹیک میں آئے تو ڈی کوک نے انھیں آڑے ہاتھوں لیا۔ روہت شرما کے پلان بکھرنے لگے۔ ڈی کوک کے بعد کلاسن نے جو یلغار کی، اس نے انڈین کیمپ کے کندھے ہی گرا دئیے کہ سپن کے آخری اوور سے حاصل شدہ 24 رنز نے پورے میچ کو وہاں لا کھڑا کیا جہاں چھ وکٹوں کی سہولت کے ہمراہ باقی ماندہ ہدف ایک رن فی گیند رہ گیا تھا۔

انڈیا یہ میچ ہار چکا تھا۔ کلاسن اور ملر جو سلوک انڈین بولنگ کا کر چکے تھے، گمان بھی نہیں تھا کہ یہ میچ آخری اوور تک جائے گا۔

مگر پھر رشبھ پنت کو کچھ ویسی ہی انجری ہو گئی جیسی کچھ روز پہلے بنگلہ دیش کے خلاف گلبدین نائب کو ہوئی تھی۔ گو، کہنے کو اتنے معمولی سے تعطل سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر یہاں انڈیا کی یہ چال کچھ ایسی تھی کہ کمنٹری باکس سے روی شاستری نے اسے انڈیا کی 'فرسٹریشن' سے تعبیر کیا جسے کلاسن نے میچ سے اس قدر باہر کر دیا تھا کہ اب اس میں واپس رینگنے کے لیے اسے ایسے تاخیری حربے تک استعمال کرنا پڑ رہے تھے۔

اس غیر متوقع وقفے میں کلاسن کا فلو یوں توقف کا شکار ہوا کہ اس کے بعد آنے والی پانڈیا کی پہلی گیند ہی ان کے اندازوں کو دغا دے گئی۔ اب انڈیا کو میچ میں واپسی کی پہلی امید تو پیدا ہوئی مگر ڈیوڈ ملر ابھی بھی کریز پہ تھے۔

لیکن اس کے بعد جو ہوا، وہ سپر سٹار جسپریت بمراہ اور ارشدیپ سنگھ کا ایسا جادو تھا جس نے ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ جنوبی افریقہ پہلی بار فائنل تک پہنچنے کی ہمت تو کر پایا مگر ٹرافی عین رسائی میں ہونے کے باوجود حوصلہ ہار گیا۔

گو مارکرم کی یہ خواہش تو نہ تھی مگر اب اگلے آئی سی سی ایونٹ تک ان کی ٹیم کو ایک بار پھر وہی لفظ سننا پڑے گا جو انھیں ہرگز پسند نہیں مگر اب جنوبی افریقی کرکٹ کے نام کے ساتھ جڑ چکا ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.