’تمھارے بچے کو قتل کر کے گوشت تمھیں کھلائیں گے‘: عراق میں دولتِ اسلامیہ کے ظلم کا شکار یزیدی واپس اپنے آبائی علاقے کیوں نہیں جانا چاہتے؟

عراقہ حکومت اب منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں یزیدی برادری کے لیے بنائے گئے کیمپس بند کر دیے جائیں تاکہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا سکیں۔
yazidi women
Getty Images

دس سال قبل نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے شمالی عراق کے علاقے سنجار میں مقیم یزیدی برادری کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کی تھی۔

اس شدت پسند گروہ کے جنگجوؤں نے نہ صرف ہزاروں یزیدی مردوں کو قتل کیا تھا بلکہ خواتین اور لڑکیوں کا ریپ بھی کیا تھا اور انھیں اپنا غلام بنا لیا تھا۔

اس ظلم و بربریت کے باوجود زندہ بچ جانے والے یزیدی برادری کے افراد کو اب ایک نئی پریشانی کا سامنا ہے۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے ظلم سے بچنے کے لیے اس برادری کے ہزاروں افراد اپنا علاقہ چھوڑ کر عراق کے دیگر علاقوں میں منتقل ہو گئے تھے۔

عراقہ حکومت اب منصوبہ بندی کر رہی ہے کہ ملک کے دیگر علاقوں میں یزیدی برادری کے لیے بنائے گئے کیمپس بند کر دیے جائیں تاکہ اس برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے آبائی علاقوں میں واپس جا سکیں۔

یزیدی برادری سے تعلق رکھنے والی وہ متعدد خواتین، جنھیں نہ صرف پناہ گزینوں کے کیمپس میں رہنا پڑا تھا بلکہ نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں کے ہاتھوں انسانیت سوز سلوک کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا، حال ہی میں برطانیہ کے دورے پر گئیں تھیں۔

ان خواتین کے برطانیہ کے دورے کا مقصد اپنے کلچر کو فروغ دینا اور اپنی برادری کو درپیش مسائل کو اُجا گر کرنا تھے۔ اس دورے کے دوران انھوں نے متعدد مقامات پر لوگوں کے سامنے اپنے لوک گیت بھی پیش کیے تھے۔

نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے جنگجوؤں نے سنہ 2014 میں یزیدی برادری کے آبائی علاقے پر قبضہ کیا تھا اور اس دوران انھوں نے یزیدی برادری پر جو ظلم کیا تھا اُسے یاد کر کے آج بھی امیرا کی آنکھوں سے آنسو نکل آتے ہیں۔

اس بات کو ایک دہائی بیت چکی ہے لیکن امیرا کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔

انتباہ: یہ مضمون بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے۔

یزیدی برادری کے مردوں کو گولیاں ماری جا رہی تھیں، خواتین کا ریپ کیا جا رہا تھا اور انھیں غلام بنایا جا رہا تھا، لیکن اس دوران امیرا اپنے آبائی علاقے میں واقع پہاڑوں کی طرف فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔

لیکن ان کی دو بہنوں کو نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے اغوا کر لیا تھا اور انھِیں گروہ کے جنگجوؤں کے گھروں پر کام پر لگا دیا گیا تھا۔ نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے یزیدی برادری کو ’شیطان کی پوجا کرنے والے‘ قرار دیا تھا۔

غلام بنائی گئی دیگر خواتین کی طرح امیرا کی بہنوں کا ریپ نہیں کیا گیا تھا کیونکہ وہ پہلے سے شادی شدہ تھیں۔ تاہم ان کی ایک بہن کے شوہر کو شدت پسندوں نے قتل کردیا تھا اور انھیں (امیر کی بہن کو) بھی روانہ کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جاتا تھا۔

امیرا کی بہن کو ایسی دھمکی بھی دی گئی تھی جسے سُن کر ان کا دل دہل گیا۔

امیرا کہتی ہیں کہ ’اپنے اغوا سے 15 دن پہلے میری بہن نے بچے کو جنم دیا تھا اور انھوں (شدت پسندوں) نے میری بہن کو کہا کہ ہم تمھارے بچے کو قتل کر کے اس کا گوشت تمھیں کھلائیں گے۔‘

امیرا جب اپنی دوسری بہن دلال پر ہونے والے ظلم کی کہانی سنا رہی تھیں تو ان کی آواز سرگوشیوں میں تبدیل ہو گئی۔ اپنے اغوا کے وقت دلال حاملہ تھیں اور ان کی پانچ ماہ کی بیٹی کی جان اس لیے چلی گئی کیونکہ وہ اسے اپنا دودھ نہیں پلا سکیں تھیں۔

اس واقعے کے بعد دلال نے اپنی زندگی ختم کرنے کی کوشش کی لیکن ان کے چار سالہ بیٹے نے انھیں روک لیا۔

امیرا کہتی ہیں کہ: ’دلال کا بیٹا صرف چار برس کا تھا اور اس نے اپنی والدہ کو کہا کہ ہمیں مت ماریں، ہمیں یہاں سے باہر نکلنے دیں۔‘

نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی حراست میں جب ایک مرتبہ دلال نے ریفریجریٹر سے کھانے کے لیے ایک ٹماٹر نکالا تو انھیں سزا کے طور پر دو بچوں کے ہمراہ ایک کمرے میں بند کر دیا گیا تھا۔ اس دوران انھیں کھانے کے لیے کچھ نہیں دیا گیا تھا، صرف ایک پانی کی چھوٹی بوتل اور دودھ کا ڈبہ دیا گیا تھا۔

عراقی حکومت اب ان کیمپوں کو بند کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے جہاں سنہ 2014 سے لاکھوں یزیدی رہ رہے ہیں۔ ان کیمپوں میں یزیدی برادری کے افراد کو جو معمولی سہولیات دی جاتی تھیں اسے بھی جولائی کے مہینے میں ختم کر دیا جائے گا۔

ان کیمپوں کو بند کرنے کے بعد عراقی حکومت یزیدی برادری کے افراد کو کچھ رقم دے گی تاکہ وہ اپنے علاقے سنجار واپس جا سکیں جہاں انھیں ماضی میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کی ظلم و بربریت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

وران داخل عراقی پارلیمان کے واحد یزیدی رُکن ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’صورتحال بہت خطرناک ہے، یہاں بہت سارے مسلح گروہ اب بھی موجود ہیں اور عراقی حکومت کی فورسز کمزور ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ سنجار میں اب بھی کئی علاقے ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہے ہیں۔

’وہاں نہ گھر ہیں، نہ سکول ہیں، نہ ہسپتال ہیں اور نہ کچھ اور ہے۔‘

یزیدی برادری، عراق، دولتِ اسلامیہ
AFP
سنجار میں اب بھی کئی علاقے ملبے کے ڈھیر کا منظر پیش کر رہے ہیں

پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے نے بھی کچھ ایسے ہی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ یزیدی برادری کے لیے قائم کیے گئے کیمپوں کو بند نہیں کیا جانا چاہیے۔

عراق میں اقوامِ متحدہ کے ادارے کی ترجمان فرح بھوئرو کا کہنا ہے کہ ’کسی کو بھی ایسے علاقے میں واپس جانے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے جہاں انھیں خطرہ لاحق ہو یا جہاں پانی، صحت، رہائش اور ملازمتوں جیسی بنیادی سہولیات موجود نہ ہوں۔‘

یزیدی برادری سے تعلق رکھنے والی خواتین کا دورہ برطانیہ امر فاؤنڈیشن نامی فلاحی ادارے کی مدد سے پایہ تکمیل تک پہنچا تھا۔ یزیدی لوک گیت گانے والے خواتین کے اس گروپ میں 28 سالہ ہادیہ بھی شامل ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2014 سے قبل ان کے پاس ’سب کچھ تھا، جس میں ایک بہت بڑا گھر بھی شامل تھا۔‘

لیکن اب وہ اور ان کا خاندان ’قیدیوں کی طرح‘ چار میٹر لمبی اور تین میٹر چوڑی جھونپڑی میں رہتے ہیں۔ یہ جھونپڑی گرمیوں میں انتہائی گرم اور سردیوں میں انتہائی ٹھنڈی ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی وہ وہاں خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں۔

ہادیہ بھی ماضی کی تکیلف دہ یادوں کو بھلانے سے قاصر ہیں۔ ان کی آٹھ سالہ کزن غزل کو اغوا کیا گیا تھا اور دو برس بعد ان کی زبردستی شادی کروا دی گئی تھی۔

ہادیہ کہتی ہیں کہ غزل کو 2020 میں جب بازیاب کروایا گیا تو ان کی عمر 14 سال تھی اور وہ اس وقت اپنے دو بچوں کی پرورش کر رہیں تھیں۔

ان کے مطابق نام نہاد دولتِ اسلامیہ نے ان کی ذہن سازی کر دی تھی کہ یزیدی ’برے لوگ‘ ہیں۔

غزل کی عمر اب 18 برس ہے اور وہ اب بھی اکثر دنیا سے بے پرواہ اور پریشان نظر آتی ہیں۔ ان کی 19 سالہ بڑی بہن آج بھی سینکڑوں یزیدی خواتین اور لڑکیوں کی طرح لاپتہ ہیں۔

امر فاؤنڈیشن کی آفس مینیجر زہرہ امرا کہتی ہیں کہ: ’کوئی بھی ان لڑکیوں کے بارے میں نہیں پوچھ رہا۔‘ زہرہ بھی یزیدی خواتین گلوکاروں کے ساتھ اس وقت برطانیہ میں موجود ہیں جہاں وہ بطور مترجم خدمات انجام دے رہی ہیں۔

’کوئی بھی ہماری بہنوں کو ڈھونڈنے کے لیے ہماری مدد نہیں کر رہا۔ جیلوں سے نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے بہت سارے شدت پسندوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔‘

زہرہ مزید کہتی ہیں کہ ’جب نام نہاد دولتِ اسلامیہ آئی تو کسی نے ہماری مدد نہیں کی اور اب وہ چاہتے ہیں کہ ہم سنجار واپس چلے جائیں۔‘

اگست 2014 میں زہرہ نے اپنی متعدد سہیلیوں اور ہم جماعت لڑکیوں کو کھو دیا تھا۔ ان کی دادی کو اس لیے اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا تھا کیونکہ وہ کمزوری کے باعث پہاڑوں پر چڑھنے سے قاصر تھیں۔

لیکن ان کے لیے سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ انھیں اور ان کی سہیلیوں نے اپنا روشن مستقبل کھو دیا ہے اور انھِیں مجموعی طور پر ایک ایسی تکلیف کا سامنا ہے جو شاید کبھی ختم نہ ہو۔

زہرہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ: ’ہم خود کو محفوظ نہیں سمجھتے، ہم کسی پر اعتماد نہیں کرتے۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.