’میں نے میرین ڈرائیو پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا‘: ممبئی میں مداحوں نے فاتح انڈین ٹیم کا استقبال کیسے کیا؟

فاتح انڈین کرکٹ ٹیم بالآخر تقریباً ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد وطن واپس آئی جہاں فتح کا ایسا جشن منایا گیا جو اس سے قبل نہیں دیکھا گيا۔
india
EPA

فاتح انڈین کرکٹ ٹیم بالآخر تقریباً ایک ہفتے کی تاخیر کے بعد وطن واپس آئی جہاں فتح کا ایسا جشن منایا گیا جو اس سے قبل نہیں دیکھا گيا۔

جمعرات کی صبح انڈین ٹیم پہلے دارالحکومت دہلی پہنچی جہاں اس نے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور اپنے تجربات شیئر کیے۔

اگر کپتان روہت شرما نے فائنل کے بعد پچ کی گھاس چکھنے کے بارے میں بتایا تو وہیں مین آف دی میچ وراٹ کوہلی نے تکبر یا انا کے بارے میں بات کی کہ وہ کس طرح کھیل کا دشمن ہے۔

مین آف دی سیریز جسپریت بمراہ اور فائنل میں شاندار کیچ لے کر میچ کا رخ بدلنے والے سوریہ کمار یادو نے بھی اپنی کہانی سنائی۔

ان سب پر بعد میں بات کرتے ہیں پہلے انڈین ٹیم کی فتح کے جشن کے بارے میں بات کرتے ہیں جو دہلی کے بجائے ممبئی کے ساحل میرین ڈرائیو سے شروع ہو کر وانکھیڈے سٹیڈیم تک پہنچی۔

بی بی سی نامہ نگار جھانوی مولے وہاں موجود تھیں۔ انھوں نے کہا کہ اس پریڈ کو دیکھنے اور اس میں شرکت کے لیے ہزاروں لوگ میرین ڈرائیو پر پہنچے تھے اور انھوں نے اس سے قبل اتنی بھیڑ وہاں کبھی نہیں دیکھی تھی۔

’میں نے میرین ڈرائیو پر اتنا ہجوم کبھی نہیں دیکھا۔ میں نے میراتھن کے دوران بھی اتنی بھیڑ نہیں دیکھی۔‘

قلعہ چند چوک پر افراتفری تھی۔ یہی صورتحال وانکھیڈے سٹیڈیم کے قریب تھی۔ پولیس بھی ہجوم پر قابو پانے میں مشکلات سے دوچار تھی۔ دوپہر دو بجے سے ہی سٹیڈیم کے گیٹ پر بھیڑ جمع ہونا شروع ہو گئی تھی۔

marine drive
Reuters

'مجھے بتایا گیا کہ شام چار بجے سٹیڈیم میں داخلہ شروع ہو گا اور آدھے گھنٹے میں ہی پورا سٹیڈیم بھر گیا۔ دفتر میں کام کرنے والے بھی اس دن 2-3 بجے تک دفتر سے نکل گئے۔

'صبح سے ہی تیاریاں جاری تھیں۔ بینرز لگائے جا رہے تھے اور درختوں کی شاخیں کاٹی جا رہی تھیں تاکہ بس پر سوار انڈین کھلاڑیوں کو پریشانی نہ ہو۔

'ہم نے ساڑھے چار بجے تک مداحوں سے بات چیت ختم کی اور نیرمن پوائنٹ سے روانہ ہوئے۔ اس وقت تک سڑک کا ایک حصہ گاڑیوں کے لیے بند کر دیا گیا۔

'ہجوم کو دیکھ کر ہم نے گاڑی چھوڑ دی اور پیدل چلنے لگے۔ ہماری حفاظتی تربیت اور ممبئی کی مقامی ٹرینوں میں سفر کرنے کے تجربے نے ہماری مدد کی۔

'جب ہم قلعہ چند چوک پہنچے تو وہاں بہت بڑا ہجوم تھا۔ ہم نے بھیڑ سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور چرچ گیٹ سٹیشن کی طرف چل پڑے اور بالآخر پریس کلب پہنچ گئے جو کہ سٹیڈیم سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم یہیں سے وانکھیڈے میں بھیڑ کی گرج سن سکتے تھے۔‘

جشن
Getty Images

'پولیس اور ریلوے حکام نے چرچ گیٹ سٹیشن پر لوگوں کو واپس جانے کے لیے اعلانات کرنا شروع کر دیے تھے۔ لیکن بہت سے لوگ جو ٹرینوں سے آ رہے تھے، انھیں نہیں معلوم تھا کہ بھیڑ کتنی بڑھ گئی ہے۔

'بالآخر ہمیں رات دیر گئے پتہ چلا کہ 10-12 لوگ زخمی بھی ہوئے ہیں ہیں اور انھیں شہر کے کئی اسپتالوں میں داخل کرایا گیا ہے۔

'چونکہ ممبئی والے بڑے ہجوم کے عادی ہیں اس لیے یہ پریڈ کسی المیہ میں نہیں بدلی اور یہاں کی پولیس کو بھی ایسی صورت حال سے نمٹنے کا کافی تجربہ ہے۔

'ایمبولینس کو ہجوم میں سے گزرتے ہوئے دیکھنا حیرت انگیز تھا۔

'سوشل میڈیا پر اتنی بھیڑ کے جمع ہونے کے لیے الزامات عائد کیے جارہے ہیں کہ کیا واقعی وہاں جانا ضروری تھا؟ بالخصوص شمالی انڈیا کے ہاتھرس میں بھگدڑ کے واقعے کے بعد جہاں 100 سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔

'پہلے تو بہت سے لوگ وہاں اس لیے آئے کہ ان کے خیال میں انھیں سٹیڈیم میں جگہ مل جائے گی کیونکہ داخلہ مفت تھا۔ تو کچھ لوگوں کے لیے وہاں جانا زندگی کا ایک انوکھا تجربہ تھا۔

'پھر میرین ڈرائیو پہنچنے تک زیادہ تر لوگوں کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ وہاں کتنا ہجوم تھا۔ انھوں نے سوچا اب ہم یہاں ہیں، چلو یہیں رہ کر ٹیم کا انتظار کرتے ہیں۔ اور انھوں نے اپنے اس دن کو یادگار بنا لیا۔'

ٹیم انڈیا کے ساتھ وزیر اعظم مودی
Getty Images
ٹیم انڈیا کے ساتھ وزیر اعظم مودی

ٹیم کی وزیر اعظم مودی سے ملاقات اور گپ شپ

گذشتہ سال جب انڈین ٹیم گجرات کے شہر احمدآباد میں ون ڈے ورلڈ کپ کا فائنل آسٹریلیا سے ہار گئی تھی تو وزیر اعظم مودی ان کے ڈریسنگ روم میں ان کی حوصلہ افزائی کے لیے گئے تھے۔

اب جبکہ ٹیم نے ٹی 20 ورلڈ کپ میں فتح حاصل کی ہے تو پوری ٹیم وزیرِ اعظم سے ملنے پہنچی۔ سنہ 1983 میں جب انڈیا نے انگلینڈ میں پہلی بار ورلڈ کپ جیتا تھا تو کپل دیو کی قیادت والی ٹیم اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے ملنے پہنچی تھی جہاں انھیں عشائیہ دیا گیا تھا۔

وزیر اعظم نے کپتان روہت شرما سے پوچھا کہ انھوں نے بارباڈوس کے میدان کی گھاس کیوں چکھی تو روہت نے جواب دیا: ’جہاں ہمیں وہ فتح ملی، مجھے ہمیشہ اس لمحے کو یاد رکھنا تھا اور اس جیت کا مزہ چکھنا تھا کیونکہ ہم اس پچ پر کھیل کر جیتے تھے۔

’ہمیں اس کا طویل عرصے سے انتظار تھا۔ کئی بار ورلڈ کپ ہمارے بہت قریب آیا، لیکن ہم اسے حاصل نہیں کرسکے۔ لیکن اس بار تمام لوگوں کی وجہ سے ہم ٹرافی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ چونکہ جو کچھ بھی ہوا وہ اسی پچ پر ہوا تھا اس لیے 'غیر ارادی طور پر یہ مجھ سے یہ ہوگیا۔'

وراٹ کوہلی کو ٹیم کی جانب سے خراج تحسین
Getty Images
وکٹری مارچ کے بعد وراٹ کوہلی کو وانکھیڈے سٹیڈیم میں ٹیم کی جانب سے خراج تحسین پیش کیا گيا

وراٹ کوہلی کا اعتراف

فائنل کے مین آف دی میچ قرار دیے جانے والے انڈیا کے مایہ ناز کھلاڑی وراٹ کوہلی نے کہا کہ یہ دن ہمیشہ ان کے ذہن میں رہے گا کیونکہ اس پورے ٹورنامنٹ میں وہ اپنا وہ حصہ نہیں ڈال سکے جو چاہتے تھے۔

فائنل سے قبل تک کوہلی نے پورے ٹورنامنٹ میں صرف 75 رنز بنائے تھے۔

کوہلی نے کہا: 'ایک وقت میں نے راہول (ڈراوڑ) بھائی سے بھی کہا کہ میں خود کے اور ٹیم کے ساتھ انصاف نہیں کر رہا تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ انھیں امید ہے کہ جب ضرورت ہو گی، تو تم ضرور اچھا پرفارم کرو گے۔'

کوہلی نے کہا کہ فائنل مین 'جب شروع میں ہی تین وکٹیں گر گئیں تو مجھے لگا کہ مجھے اس زون میں ڈال دیا گیا ہے اور میں نے اسی کے مطابق کھیلنا شروع کر دیا، بعد میں میں سمجھ گیا کہ جو چیز ہونی ہوتی ہے وہ ہو کر رہتی ہے۔

'مجھے خوشی ہے کہ میں نے اتنے بڑے میچ میں ٹیم کے لیے اپنا کردار ادا کیا، میں کبھی نہیں بھول سکتا کہ کس طرح سے ہم جیتے اور وہ پورا دن کیسے گزرا۔'

کوہلی نے کہا کہ 'جب آپ کے اندر انا آ جاتی ہے تو کھیل آپ سے دور ہو جاتا ہے، اسے چھوڑنے کی ضرورت تھی، کھیل کی صورتحال ایسی بن گئی کہ میرے پاس انا کے لیے کوئی گنجائش نہیں بچی اور ٹیم کے لیے اسے پیچھے رکھنا پڑا۔ میں نے کھیل کا احترام کیا تو کھیل نے بھی مجھے عزت بخشی۔'

India
EPA

جسپریت بمراہ کا جواب

مین آف دی ٹورنامنٹ قرار دیے جانے والے انڈین فاسٹ بولر جسپریت بمرا سے جب وزیر اعظم نے پوچھا کہ اڈلی کھا کر بولنگ کرنے جاتے ہو تو انھوں نے کہا کہ ویسٹ انڈیز میں اڈلی کہاں ملتی ہے۔

بمرا نے ٹورنامنٹ میں کل 15 وکٹیں حاصل کیں۔ ٹورنامنٹ میں ایسے کئی مواقع آئے جب بمراہ نے میچ کا رخ بدلنے میں مدد کی۔

انھوں نے کہا کہ ’جب بھی میں انڈیا کے لیے بہت اہم وقت پر بولنگ کرتا ہوں یا جب بھی مشکل حالات میں مجھے بولنگ کرنی پڑتی ہے اور اگر میں ٹیم کی مدد کر سکتا ہوں تو مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ اس ٹورنامنٹ میں کئی ایسے مشکل حالات آئے جب مجھے ٹیم کے لیے بولنگ کرنی پڑی اور میں ٹیم کی مدد کرنے اور میچ جیتنے میں کامیاب رہا۔'

ان کے علاوہ رشبھ پنت اور ہارڈک پانڈیا نے بھی اپنی انجری اور ٹرولنگ کے بارے میں بات کی۔

سوریہ کمار یادو
Getty Images
سوریہ کمار یادو وکٹری پریڈ والی بس پر سوار

سوریہ کمار یادو نے شاندار کیچ پر کیا کہا؟

ٹی20 کرکٹ ورلڈ کپ کے فائنل میچ کے آخری اوور میں سوریہ کمار یادیو نے ملر کا شاندار کیچ لے کر میچ کا رخ پوری طرح سے انڈیا کے حق میں موڑ دیا ورنہ وہ چھکا ہی تھا۔

سوریہ کمار کا یہ کیچ بھی انڈیا کے چیمپئن بننے کی ایک اہم وجہ سمجھا جاتا تھا۔

اس کیچ پر سوریہ کمار نے کہا کہ 'مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیچ پکڑنے میں کامیاب ہو جاؤں گا لیکن میرے ذہن میں یہ تھا کہ میں گیند کو اندر دھکیل دوں گا۔

سوریہ کمار نے کہا کہ ایک بار جب گیند میرے ہاتھ میں آئی تو میں نے اسے روہت بھائی کی طرف پھیکنے کا سوچا لیکن وہ بہت دور تھے۔ پھر میں نے اندر پھینکا اور واپس آکر کیچ پکڑ لیا۔

سوریہ کمار نے بتایا کہ انھوں نے ایسے کیچ پکڑنےکی کافی مشق کی تھی۔ راہل ڈراوڑ نے بتایا کہ سوریہ نے مشق کے دوران اس طرح کی 150-160 کیچز پکڑے تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ محمد سراج نے شروع کے صرف تین میچز کھیلے جبکہ تین ایسے کھلاڑی تھے جنھیں ایک بھی میچ کھیلنے کا موقع نہیں مل سکا لیکن ان کا جوش کبھی بھی کم نہیں ہوا اور بالآخر ایک تاریخی فتح انڈیا کے حصے میں آئی۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
کھیلوں کی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.