کراچی میں عزاداروں کے مسیحی محافظ: ’یونیفارم پہن کر دل میں گھر والوں کو خدا حافظ کہتے ہیں، پتا نہیں واپس آ سکیں یا نہیں‘

پاکستان کرسچن سکاؤٹس میں شامل نوجوان اور سینیئر زیادہ تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے مذہبی عقائد اور سماجی ذمہ داری کے نظریے کے تحت یہ فرض سر انجام دے رہے ہیں۔
محرم کا جولس
BBC

’ہم الگ مذہب، الگ فرقہ اور الگ قوم سے ہیں۔ ہم تیس چالیس نوجوان جان ہتھیلی پر لے کر یہاں موجود ہوتے ہیں۔ یہ ہمارے لیے سربلندی کا مقام ہوتا ہے۔‘

عرفان الیاس کا تعلق نہ تو سنی مسلک سے ہے اور نہ ہی شیعہ برادری سے۔ لیکن پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گذشتہ 12 سال سے وہ لگاتار محرم الحرام میں رضاکارانہ ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔

عرفان مسیحی مذہب سے تعلق رکھتے ہیں اور پاکستان کرسچن سکاؤٹس میں شامل ہیں۔

نجی شعبے میں ملازمت کرنے والے عرفان بتاتے ہیں کہ شروع میں ان کے اہلخانہ انھیں اس رضاکارانہ کام سے روکا کرتے تھے۔ یہ وہ وقت تھا جب 2009 میں دس محرم کے ایک جلوس پر خودکش حملہ ہوا جس میں چار سکاؤٹس ہلاک ہوئے تھے۔

عرفان کہتے ہیں کہ گھر والے کہتے تھے کہ ’مت جاؤ!‘ کیوںکہ وہ واقعہ انھی دنوں میں ہوا تھا۔

لیکن وہ بتاتے ہیں کہ آہستہ آہستہ ان کے گھر والے ان کے رضاکارانہ خدمت کے جذبے کے آگے ہار مان گئے۔ لیکن ان کے لیے خطرات اب بھی ویسے ہی ہیں۔

عرفان کہتے ہیں کہ ’جب ہم سکاؤٹ کا یونیفارم پہن لیتے ہیں تو گھر والوں کو دل میں خدا حافظ کہہ کر آتے ہیں۔ پتہ نہیں کہ واپس آ سکیں یا نہ آ سکیں۔ زندگی اور موت بے شک خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کب موت آ جائے، کسی کو معلوم نہیں۔‘

محرم کا جلوس
BBC

پُرخطر ذمہ داری

پاکستان میں سکاؤٹنگ ایک رضاکارانہ فریضہ ہے جس میں کوئی معاوضہ نہیں ملتا۔

پاکستان کرسچن سکاؤٹس میں شامل نوجوان اور سینیئر زیادہ تر غریب خاندانوں سے تعلق رکھتے ہیں جو اپنے مذہبی عقائد اور سماجی ذمہ داری کے نظریے کے تحت یہ فرض سر انجام دے رہے ہیں۔

عرفان الیاس کے مطابق ہر مہینے انھیں 15 سے 16 گھنٹے دینے ہی ہوتے ہیں۔

یاد رہے کہ کراچی میں 2009 کو دس محرم کے جلوس پر خودکش حملے میں چار سکاؤٹ ہلاک ہوئے تھے جس کے بعد 2011 میں بھی نمائش چورنگی پر سکاؤٹس کے کیمپ پر فائرنگ میں دو سکاؤٹ ہلاک ہوئے تھے۔ اسی لیے یہاں سکاؤٹنگ کو ایک پُرخطر ذمہ داری سمجھا جاتا ہے۔

پرویز آفتاب پاکستان کرسچن سکاؤٹ کے گروپ ہیڈ ہیں۔ وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ لے چکے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ عاشورہ کے اس دھماکے میں ان کے دو ساتھی زخمی ہو گئے تھے۔

پاکستان کرسچن سکاؤٹس ان 200 سکاؤٹ گروپس میں شامل ہے جو محرم الحرام کے دوران مجالس اور ماتمی جلوسوں میں رضاکارانہ ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں۔

ان کے فرائض میں لوگوں کی تلاشی، ٹریفک کا کنٹرول، گاڑیوں کی پارکنگ میں مدد فراہم کرنا اور ابتدائی طبی امداد فراہم کرنا شامل ہے۔

پاکستان کرسچن سکاؤٹس کا قیام 12 دسمبر 1984 کو ہوا تھا۔

سکاؤٹس
BBC

اس کے بانی رکن پادری جارج گل کہتے ہیں کہ کرسچن سکاؤٹس کے قیام سے پہلے ہی وہ محرم میں رضاکارانہ فرائض سر انجام دینے پہنچ گئے تھے۔

ان کے بقول دو دہائی قبل وہ نمائش چورنگی پر طبی کیمپ بھی لگاتے تھے۔ اس وقت ان کے رضاکاروں میں پیرا میڈیکس بھی شامل تھے لیکن آہستہ آہستہ ان کی مصروفیات کی وجہ سے وہ اس کیمپ کو جاری نہیں رکھ سکے۔

سندھ بوائز سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکرٹری اختر میر بتاتے ہیں کہ کراچی میں 30 ہزار سے زیادہ سکاؤٹس ہیں جن میں سکولوں سے لے کر جامعات تک کے طالب علم شامل ہیں۔

اس کے علاوہ اسماعیلی اور بوہری کمیونٹی کے بھی سکاؤٹس موجود ہیں۔

کراچی میں نمائش کے علاقے میں امام بارگاہ شاہ خراساں اور نشتر پارک میں 10 روزہ مجلس کے دوران لوگوں کی معاونت اور نگرانی بھی سکاؤٹس کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔

تاہم اختر میر کا کہنا ہے کہ سکیورٹی کی فراہمی سکاؤٹس کی ذمہ داری نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سکاؤٹس سکیورٹی فراہم کرنے والے اداروں کی معاونت کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ مجالس، امام بارگاہوں اور ماتمی جلوسوں کے داخلی راستوں پر لوگوں کی تلاشی لیتے ہیں کیونکہ لوگ ’سکاؤٹس پر زیادہ اعتبار کرتے ہیں، اسی لیے باآسانی باڈی سرچ کراتے ہیں۔‘

کراچی کی مرکزی شاہراہ ایم اے جناح روڈ ماتمی جلوسوں کی روایتی گزر گاہ ہے۔

آٹھ محرم سے 10 محرم تک نشتر پارک سے جلوس برآمد ہوتے ہیں جو حسینیاں ایرانیاں امام بارگاہ کھارادر پر اختتام پذیر ہوتے ہیں۔

اس دوران پولیس اور رینجرز کے علاوہ غیر مسلح سکاؤٹس اس کا ہراول دستہ ہوتے ہیں۔ پاکستان کرسچن سکاؤٹس نو اور دس محرم کو باغ جناح میں پارکنگ میں بھی معاونت کرتے ہیں اور یہاں شرکا کی جسمانی تلاشی لی جاتی ہے۔

مرکزی جلوس میں شامل ہونے کے لیے یہ پہلا گیٹ بھی ہے جس کی ذمہ داری ان کے پاس ہوتی ہے۔

سکاؤٹ
BBC
سندھ بوائز سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے صوبائی سیکرٹری اختر میر بتاتے ہیں کہ کراچی میں 30 ہزار سے زیادہ سکاؤٹس ہیں جن میں سکولوں سے لے کر جامعات تک کے طالب علم شامل ہیں

’سکاؤٹ، سکاؤٹ کا بھائی‘

محرم الحرام میں نمائش چورنگی پر خاکی، سفید، سیاہ اور ملائیشیائی لباس میں ملبوس سکاؤٹس واضح طور پر لوگوں کی رہنمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ان رضاکاروں میں کرسچن سکاؤٹس بھی ہر وقت موجود رہتے ہیں۔

نوجوان عرفان الیاس بتاتے ہیں کہ ’ایک سکاؤٹ ہمیشہ وفادار ہوتا ہے اور ایک سکاؤٹ دوسرے سکاؤٹ کا بھائی ہوتا ہے۔‘

’پھر چاہے ان کا کسی بھی فرقے سے تعلق ہو، جیسے امامیہ سکاؤٹس والے ہمارے بھائی ہیں۔ جو خدمات وہ سر انجام دے رہے ہوتے ہیں، ہم بھی ان کے ساتھ وہی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔‘

پرویز آفتاب 1984 سے سکاؤٹنگ سے وابستہ ہیں۔ ان کے بقول سکاؤٹ مذہب سے بالاتر ہو کر انسانیت کی خدمت کرتا ہے اور مذہبی ہم آہنگی کا پیغام دیتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ’ہم بلاتفریق، بلاامتیاز، ہر مسلک، ہر فرقے میں اپنی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ نو اور دس محرم کے علاوہ عید میلاد النبی، ہندوؤں کے تہواروں دیوالی اور ہولی میں اپنے ہندو بہن بھائیوں کے ساتھ ہوتے ہیں جبکہ کرسمس اور ایسٹر کے تہواروں پر گرجا گھروں میں تعینات رہتے ہیں۔‘

مجالس
BBC

’امام حسین نے عظیم قربانی دی‘

پادری جارج گل بھی پاکستان سکاؤٹس کے ایک سینیئر رکن ہیں۔

وہ بتاتے ہیں کہ وہ امام حسین کو پرسہ دینے اور اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرنے بھی آتے ہیں کیونکہ ان کے بقول ’امام حسین نے انسانیت کے لیے قربانی دی تھی۔‘

پرویز آفتاب کے مطابق امام حسین نے ’عظیم قربانی دی‘ اور ’ظالم کے سامنے ڈٹ کے بے مثال مقابلہ کیا۔‘

’ہم یہ سوچ کر محرم الحرام میں لوگوں کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ لوگ اس امام کے عقیدت مند ہیں۔‘


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.