بنگلہ دیش میں کرفیو: فوج بلانے کے انتہائی اقدام کی ضرورت کیوں پڑی؟

یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین احتجاجی مظاہرے ہیں جن میں اتنے کم عرصے میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ کئی روز سے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں کے درمیان جھڑپیں جاری ہیں۔
بنگلہ دیش، احتجاج، کرفیو
BBC

بنگلہ دیش میں سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور حکمران سیاسی جماعت کے کارکنوں کے درمیان ہونے والی جھڑپیں تھمنے کا نام نہیں لے رہیں۔

یہ بنگلہ دیش کی تاریخ کے بدترین مظاہرے ہیں جن میں اتنے کم عرصے میں ایک سو سے زیادہ لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔

اس ملک میں سیاسی حالات پر قابو پانے کے لیے کرفیو لگانا یا پرتشدد مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ جب جب تشدد بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تب تب حکومت کرفیو کو آخری حربہ تصور کرتی آئی ہے۔

ملک میں آخری کرفیو 2007 میں نگراں حکومت کے دورِ میں لگایا گیا تھا اور اس وقت بھی وہ بھی طلبہ کے احتجاج پر قابو پانے کے لیے تھا۔

ملک بھر میں جاری حالیہ مظاہرے مزید شدت اختیار کر گئے ہیں اور مرنے والوں کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔

مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پہلے دن صرف پولیس کو تعینات کیا گیا تھا لیکن ایک موقع پر بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کو بھی ان کی مدد کے لیے بلایا گیا۔ اس کے باوجود حالات قابو میں نہیں آ سکے اور اب کرفیو لگا کر فوج کو تعینات کر دیا گیا ہے۔

حکمران جماعت عوامی لیگ کے جنرل سکریٹری عبیدالقادر کے مطابق ’یہ یقینی طور پر کرفیو ہے جس میں قواعد پر عمل کیا جائے گا اور ضرورت پڑنے پر دیکھتے ہی گولی مارنے کے احکامات دیے گئے ہیں۔‘

ڈھاکہ میں 14 جماعتوں کے اجلاس کے بعد کرفیو نافذ کرنے اور فوج کی تعیناتی کے فیصلے کے بارے میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’مختلف مقامات پر حملے کئے گئے ہیں اور اہم ریاستی ڈھانچوں کو تباہ کر دیا گیا۔‘

بنگلہ دیش، کرفیو، احتجاج
Reuters

کرفیو کیوں لگایا گیا؟

کرفیو ایک ایسے وقت میں لگایا گیا ہے جب مظاہرین کی پولیس، ریپڈ ایکشن بٹالین آر اے بی اور بارڈر گارڈ فورس بی جی بی کے ساتھ مسلسل چار دنوں سے جھڑپیں جاری ہیں۔

تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے ہیں؟

ایک لحاظ سے ایسا ہی ہوا ہے جب مظاہرین نے بنگلہ دیش ٹیلی ویژن کی عمارت پر قبضہ کر لیا۔

سابق پولیس چیف اے کے ایم شاہد الحق نے بی بی سی بنگلہکو بتایا کہ ’پولیس، بی جی بی اسے روک نہیں سکی۔ میرے خیال میں یہ ایک بہت بڑی غلطی ہے۔‘

تاہم وزیر قانون انیس الحق کا خیال ہے کہ امن و امان قائم کرنے والی فورسز ناکام نہیں ہوئی ہیں۔ انھوں نے بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ حکومت ملک میں جاری تشدد کو روکنے اوراہم ریاستی اداروں کے تحفظ کے لیے کرفیو لگانے پر مجبور ہوئی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ایسا سول انتظامیہ کی مدد کے لیے کیا گیا ہے۔

وزیر قانون کا کہنا تھا ’انھوں نے پی آئی (اہم انفراسٹرکچر) کو تباہ کر دیا ہے اور وہ بنگلہ دیش کی ترقی کے لیے عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنائے گئے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہم اس کی حفاظت کے لیے کرفیو لگانے پر مجبور ہیں۔‘

وزیر قانون کا کہنا ہے کہ جو لوگ کوٹے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں وہ اس تشدد میں ملوث نہیں ہیں۔

ان کا دعویٰ ہے کہ یہ کچھ سیاسی جماعتوں کے دہشت گرد ہیں جو عوام کو اکسارہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے تشدد کو روکنے اور لوگوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے وہ کیا ہے جو ہمیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم کرفیو سے اس مسئلے کو حل کرنے کی امید کر رہے ہیں۔‘

ریٹائرڈ بریگیڈیئر ایم سخاوت حسین کا خیال ہے کہ گذشتہ چند دنوں نے ثابت کیا ہے کہ حکومت کا کنٹرول کمزور ہو گیا ہے۔

انھوں نے کہا ’میرے خیال میں کرفیو اس لیے لگایا گیا ہے کہ حکومت اتنی زیادہ پولیس، آر اے بی اور بی جی بی لانے کے بعد بھی مظاہرین کنٹرول نہیں کر پائی۔‘

بنگلہ دیش، احتجاج
BBC

ڈھاکہ کی فضا میں ہیلی کاپٹروں سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے

کوٹہ مخالف تحریک زور پکڑتی جا رہی ہے۔ سیکورٹی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تشدد کچھ جگہوں تک محدود ہو جائے تو پولیس کے لیے حالات پر قابو پانا ممکن ہوتا ہے لیکن جب یہ تنازع مختلف علاقوں میں پھیل جائے تو پولیس کے لیے اس سے نمٹنا مشکل ہو سکتا ہے۔

سابق آئی جی پی اے کے ایم شاہد الحق کا کہنا ہے کہ ’کون سی جگہ ہے جہاں تشدد نہیں ہو رہا؟ پولیس پورے شہر میں مظاہرین پر کیسے قابو پا سکتی ہے؟ اتنی پولیس کہاں سے لائیں؟ پولیس کی تعداد محدود ہے۔‘

جمعہ کو ڈھاکہ کی فضا میں ہیلی کاپٹر مسلسل چکر لگاتے رہے۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ جہاں مظاہرے زیادہ شدید تھے ان علاقوں میں ہیلی کاپٹروں سے آنسو گیس کے شیل فائر کیے گئے۔

بریگیڈیئر سخاوت حسین اس واقعے کو غیر معمولی قرار دیتے ہیں۔

وہ پوچھتے ہیں کہ ’ہیلی کاپٹر سے آنسو گیس کے شیل داغے گئے۔ کیا یہ عام بات ہے؟ جب حکومت کو دستیاب تمام وسائل کے باوجود بھی حالات قابو میں نہ آئے تو کرفیو لگا دیا گیا اور فوج کو سڑکوں پر لے آئے۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا کرفیو آخری حل ہے؟

وزیر قانون انیس الحق کا کہنا ہے کہ ’ہمیں امید ہے کہ کرفیو سے یہ مسئلہ حل ہو جائے گا۔‘

مبصرین کا خیال ہے کہ کرفیو لگا کر فوج کو لانا احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لیے آخری اقدام ہے۔ اس کے بعد کسی اور کارروائی کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

سابق پولیس چیف شاہد الحق کہتے ہیں ’یہ آخری حربہ ہے۔ کرفیو نافذ کرنے کا مطلب لوگوں کو یہ کہنا کہ 'گھر میں رہیں اور غیر ضروری طور پر باہر نہ نکلیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’کرفیو قانون کی پاسداری کرنے والوں کو اندر رکھے گا اور کرفیو کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔‘

’بس یہ آخری حل ہے۔ اس کے علاوہ اور کیا کرنا ہے؟ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ نہیں بچا۔‘

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ایسے حالات میں فوج کی تعیناتی سے تشدد کا سہارا لینے والوں پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے۔

کرفیو بہت کم مدت کے لیے لگایا جاتا ہے۔بنگلہ دیش میں ماضی میں مختلف اوقات میں کرفیو دو سے تین دن سے زیادہ نہیں رہا۔

بنگلہ دیش، احتجاج
BBC

سیاسی تشدد کے تناظر میں 11 جنوری 2007 کو اس وقت کرفیو نافذ کیا گیا تھا جب فوج کی حمایت سے ایک نئی نگران حکومت قائم ہوئی تھی۔ اس وقت کرفیو دو دن تک نافذ رہا۔

سخاوت حسین کہتے ہیں کہ ’تب کرفیو سے مسئلہ حل ہوا تھا اور عوام نے بھی ساتھ دیا تھا۔ اس کے ذریعے حالات معمول پر آگئے تھے۔‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت کوٹہ اصلاحات پر اس احتجاج سے پریشان ہے۔

جب سے عوامی لیگ 2008 میں اقتدار میں آئی ہے کسی بھی احتجاج یا تشدد پر قابو پانے کے لیے کرفیو نہیں لگایا گیا۔

ماضی میں جب کرفیو لگانے سے حالات میں بہتری آئی اور اسے بتدریج واپس لے لیا گیا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ شدید تنازعات کے وقت کرفیو لگانے سے عام لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا ہوتا ہے لیکن اس بار صورتحال اس بات پر منحصر ہے کہ عام لوگ اس معاملے کو کس طرح دیکھتے ہیں۔

کرفیو کے دوران ایمرجنسی سروسز سے متعلقہ دفاتر کے علاوہ ہر چیز بند ہے۔ جیسے جیسے کرفیو کا دورانیہ بڑھتا ہے ویسے ہیملک کامعاشی نقصان بھی بڑھتا جاتا ہے۔

سابق پولیس چیف شاہد الحق نے کہا کہ سب کچھ بند ہے۔ اگر کرفیو کو طول دیا گیا تو حکومت کو اس سے نقصان ہو گا۔

وزیر قانون انیس الحق، وزیر تعلیم محب الحسن چودھری اور وزیر مملکت برائے اطلاعات محمد علی عرفات نے کرفیو کے نفاذ کے چند گھنٹوں کے اندر سنیچر کے روز کوٹہ مخالف مظاہرین سے ملاقات کی ہے۔

وزیر قانون انیس الحق نے سنیچر کی صبح بی بی سی بنگلہ کو بتایا کہ کوٹہ مخالف تحریک کے کچھ منتظمین کے ساتھ رات کے اوائل میں کوئی بات چیت نہیں ہوئی۔ انھوں نے بتایا کہ مظاہرین اپنے مطالبات پیش کرنے آئے تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’انھوں نے ہمیں مطالبات پیش کیے ہیں۔ ہم نے کوٹہ اصلاحات اور ان کے مطالبات دیکھے ہیں اور ہمیں محسوس ہوا کہ فوری طور پر حل نکالنا ممکن ہے۔‘

کرفیو کے نفاذ اور فوج کی تعیناتی کے بعد سنیچر کی دوپہر تک صورتحال کافی حد تک قابو میں رہی۔ اگرچہ ڈھاکہ میں بعض مقامات پر پولیس کے ساتھ جھڑپوں کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ لیکن یہ جھڑپیں جمعرات اور جمعہ کی طرح شدید نہیں تھیں۔

اب جبکہ کرفیو لگ چکا ہے تو کیا حالات معمول پر آ جائیں گے؟ سیکورٹی تجزیہ کار سخاوت حسین کا کہنا ہے کہ ’عارضی ریلیف مل سکتا ہے لیکن یہ مسئلہ اب طلبہ کی تحریک تک محدود نہیں رہا۔‘

اس دوران پولیس عوام کب کرفیو توڑنے کی سزا کے بارے میں یاد دہانی کروا رہی ہے۔

ڈھاکہ میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق جو کوئی بھی کرفیو کے قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے اور فوری ضرورت کے بغیر باہر نکلتا ہے اسے ایک سال تک جیل ہو سکتی ہے۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.