’سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں‘: انڈیا کی وہ فلم انڈسٹری جہاں اداکاروں کو کام کے لیے ’سمجھوتہ‘ کرنا پڑتا ہے

233 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کیرالہ کی ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ ہونے والے غیر منصفانہ رویے اور ان کے جنسی استحصال کی تفصیلات موجود ہیں
سیکس
Getty Images
سیکس کے بدلے فلموں میں کام دینے کی باتیں دنیا کی مختلف فلم انڈسٹریز میں سامنے آئی ہیں

’پراجیکٹ شروع ہونے سے قبل ہدایتکار نے کہا فلم میں کچھ قربت کے مناظر ہوں گے۔ شوٹنگ سے قبل ایک دن ڈائریکٹر نے کہا کہ فلم میں برہنہ اور بوس و کنار کا سین بھی ہو گا، جسم کے بہت سے حصے دکھائے جائیں گے۔ دوسرے دن کہا گيا کہ برہنہ اور باتھ ٹب والی شوٹنگ کی جائے گی۔‘

یہ الفاظ انڈیا کی کیرالہ فلم انڈسٹری میں کام کرنے والی ایک اداکارہ کے ہیں جو حال ہی میں منظر عام پر آنے والی ایک رپورٹ میں سامنے آئے۔ ہیما رپورٹ نے انڈیا کی اس فلم انڈسٹری میں اداکاروں کے ساتھ جنسی استحصال اور کاسٹنگ کاؤچ سکینڈل سے پردہ اٹھایا ہے۔

233 صفحات پر مشتمل اس رپورٹ میں کیرالہ کی ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ ہونے والے غیر منصفانہ رویے اور ان کے جنسی استحصال کی تفصیلات موجود ہیں جس کی ایک کاپی بی بی سی کے پاس بھی موجود ہے۔

رپورٹ کے مطابق ’مختلف گواہوں کے بیانات سے یہ بات سامنے آئی کہ جب کوئی خاتون سینیما میں موقع کی تلاش کے لیے کسی سے رابطہ کرتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ ایڈجسٹمنٹ اور سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔‘

’رپورٹ کے مطابق سمجھوتہ اور ایڈجسٹمنٹ دو ایسی اصطلاحات ہیں جن سے ملیالم فلم انڈسٹری میں کام کرنے خواتین مانوس ہو چکی ہیں اور ان کا مطلب یہ ہے کہ وہ سیکس کے لیے خود کو دستیاب رکھیں۔‘

واضح رہے کہ سنہ 2017 میں ایک چلتی کار میں ایک معروف اداکارہ کے اغوا اور ریپ کے بعد کیرالہ کی ریاستی حکومت نے تین رکنی ہیما کمیٹی تشکیل دی تھی۔ کانگریس کے رہنما ششی تھرور نے وزیر اعلی پنارائی وجین کو تاخیر سے رپورٹ جاری کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے جبکہ صحافی ندھی سوریش نے رپورٹ کے جاری کیے جانے کو تاریخی قرار دیا ہے۔

ہیما رپورٹ میں کیا ہے؟

جسٹس ہیما کی رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ ’جیسے جیسے فلم انڈسٹری میں خواتین کو درپیش مسائل کے بارے میں جانچ آگے بڑھی یہ انکشاف ہونا شروع ہو گیا کہ انڈسٹری میں گلیمر صرف ایک بیرونی چمک ہے جس پر منڈلاتے ہوئے مصیبت اور مسلسل اذیت کے سیاہ بادل بیرونی دنیا سے پوشیدہ ہیں۔‘

’ہم نے نہ صرف خواتین بلکہ مردوں کی بھی مایوس کن سسکیوں والی بہت سی کہانیاں سنیں بلکہ یہ پایا کہ حیران کن طور پر انڈسٹری میں انھیں خاموش کر دیا جاتا ہے۔ ان کی پریشانی اور اذیت انڈسٹری کے اندر ہی دم توڑ جاتی ہے، ان کا حل تلاش کرنے کے لیے کوئی فورم نہیں، حالانکہ ان کے مسائل بے پناہ ہیں۔‘

کاسٹنگ کاؤچ کے حوالے سے رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’خواتین کے مطابق سینیما میں ہراسانی شروع ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ مختلف گواہوں کے بیانات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ پروڈکشن کنٹرولر یا جو کوئی بھی پہلے سینما میں کردار کی پیشکش کرتا ہے، وہ خاتون/لڑکی سے رابطہ کرتا ہے یا کوئی خاتون سینیما میں موقع کی تلاش کے لیے جب کسی شخص سے رابطہ کرتی ہے تو بتایا جاتا ہے کہ سینما میں لینے کے لیے 'ایڈجسٹمنٹ' اور 'سمجھوتہ' کرنا پڑے گا۔‘

رپورٹ میں بتایا گيا کہ ’خواتین کے لیے کسی دوسرے شعبے میں نوکری حاصل کرنے کے لیے سیکس کوئی شرط نہیں ہے لیکن کاسٹنگ کاؤچ فلم انڈسٹری میں کام کرنے کو دوسری ملازمتوں سے مختلف بناتا ہے۔‘

اس رپورٹ میں اداکاراؤں سمیت پیشہ ور خواتین کی خوفناک کہانیاں ہیں جنھیں جنسی تسکین کے لیے بلایا جاتا ہے اور انھیں جہاں ٹھہرایا جاتا ہے وہاں انھیں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ لیکن رپورٹ کے مطابق کوئی بھی بدلے کے خوف یا انڈسٹری میں نظر انداز کیے جانے کے خوف سے شکایت کرنے کی جرأت نہیں کرتا۔

رپورٹ میں ایک بہت سینیئر آرٹسٹ کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ’خواتین اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کے بارے میں بات کرنے کی زحمت نہیں کرتیں۔ وہ اس خوف سے ایسا نہیں کرتی کہ ان کی بدنامی ہوگی اور انھیں مستقبل میں اس کے ناتئج بھگتنے ہوں گے۔‘

خواتین پیشہ ور افراد نے کمیٹی کو غیر مساوی اجرت، تنخواہوں سے من مانی کٹوتیوں، کام کے خراب حالات اور بعض مقامات پر واش رومز کی کمی کی شکایت بھی کی ہے۔

کیرالہ خواتین کمیشن کی چیئرپرسن پی ستھی دیوی نے اس پر افسوس اور صدمے کا اظہار کیا ہے اور نامہ نگاروں کو بتایا ہے کہ ’ایک عورت کو فلم میں کام کرنے کے موقع کے بدلے جنسی فیور کی شرائط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کیرالہ کے معاشرے کو فلم انڈسٹری میں اس زوال پذیر ثقافت پر بات کرنے کی ضرورت ہے۔‘

انھوں نے تمام ریاستی ایجنسیوں سے سخت کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’سینیما انڈسٹری میں مجرموں کا راج ہے جو کہ بذات خود مرد کی بالادستی والا شعبہ ہے۔‘

ایک واقعہ

ایک خاتون نے کمیٹی کے سامنے اپنے بیان میں کہا کہ ایک فلم میں وہ ایک چھوٹا سا کردار ادا کر رہی تھیں۔ ’پروجیکٹ کے شروع ہونے سے قبل ہدایتکار نے کہا کہ فلم میں کچھ قربت کے مناظر ہوں گے۔‘ ان کے بار بار اصرار کے باوجود ہدایت کار نے اس کی تفصیل نہیں بتائی۔ ’انھوں نے بس اتنا کہا کہ ڈرنے کی کوئی بات نہیں وہ اتنا ہی کریں گے جتنی ان (اداکارہ) کی مرضی ہوگی۔‘

انھوں نے بتایا کہ تین ماہ بعد فلم کی شوٹنگ کی تیاری کے بعد ایک دن ڈائریکٹر نے کہا کہ فلم میں نیوڈیٹی اور لپ لاک (بوسے) کا سین ہوگا اور جسم کے بہت سارے حصے کو دکھایا جائے گا۔ انھیں بوس و کنار کے مناظر کرنے پر مجبور کیا گیا اور ان کی پشت کو برہنہ دکھایا گيا۔

وہ اس فلم کو مزید جاری رکھنے کو تیار نہیں تھیں۔ دوسرے دن ان سے کہا گيا کہ ان کی برہنہ اور باتھ ٹب والی شوٹنگ کی جائے گی۔ لیکن جب انھوں نے فلم چھوڑ دی تو انھوں نے جو تین مہینے کام کیے تھے اس کی اجرت بھی نہیں لی۔

’بعد میں انھوں نے ہدایتکار کو ایک میسیج بھیجا کہ انھیں ان پر اعتبار نہیں رہا اور وہ فلم کو جاری نہیں رکھ سکتیں۔ لیکن وہ زور دیتے رہے کہ جب تک وہ ان سے ذاتی طور پر کوچی آ کر نہیں ملتیں وہ ان کے قربتوں کے مناظر کو ڈیلیٹ نہیں کریں گے۔‘

انھوں نے یہ بات فلم ساز کو بتائی تو انھوں نے کہا کہ وہ ڈائریکٹر سے بات کر لیں گے۔ ’انھیں پتا تھا کہ ڈائریکٹر انھیں بلیک میل کر رہا تھا۔ اگر کوئی تحریری معاہدہ ہوتا تو اس طرح کی صورت حال سے بچا جا سکتا تھا۔‘

ندھی سوریش، جنھوں نے 2017 میں کیرالہ میں پیش آنے والے واقعے پر 55 صفحات کی ایک مفصل رپورٹ تیار کی تھی، نے بی بی سی سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ کیرالہ کی فلم انڈسٹری میں خواتین کے ساتھ استحصال وسیع پیمانے پر موجود ہے۔

انھوں نے بتایا کہ ہاروی وائن سٹیئن کے خلاف ہالی وڈ کی ’می ٹو‘ تحریک سے کوئی چھ ماہ قبل کیرالہ میں اسی طرح کی تحریک نے زور پکڑا تھا لیکن اسے وہ حمایت نہیں مل سکی جو ہالی وڈ کی تحریک کو ملی اور لوگ سامنے آئے۔

اگر دیکھا جائے تو بالی وڈ میں بھی کاسٹنگ کاؤچ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اداکارہ سمیرہ ریڈی نے سنہ 2012 میں کہا تھا کہ انھیں کاسٹنگ کاؤچ کی وجہ سے فلمیں چھوڑنی پڑیں جبکہ سابق رکن پارلیمان رینوکا چودھری نے کہا تھا کہ اس سے پارلیمان بھی محفوظ نہیں ہے۔

ندھی سوریش کے مطابق ہیما کمیٹی نے ملیالم فلم انڈسٹری میں تقریبا 40 خواتین سے بات کی اور پھر پانچ ہزار صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ سنہ 2019 میں حکومت کو پیش کی جسے اصولی طور پر چھ ماہ کے اندر اسمبلی میں پیش کیا جانا چاہیے تھا لیکن تقریبا پانچ سال کی تاخیر کے بعد اسے بالآخر سوموار کو پیش کر دیا گيا۔

’یہ وہ کیرالہ نہیں جس کے لیے کیرالہ مشہور ہے‘

کانگریس پارٹی کے کیرالہ ریاست سے رکن پارلیمان اور معروف مصنف ششی تھرور نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ انتہائی شرمناک اور چونکا دینے والی بات ہے کہ حکومت تقریباً پانچ سال تک اس رپورٹ پر بیٹھی رہی اور اب انھیں مجبوراً اسے جاری کرنا پڑا۔ وہ نتائج کا سامنا کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ انھیں اس کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔ ریاستی حکومت کو شرم آنی چاہیے۔ کیرالہ فلم انڈسٹری ملک گیر سطح پر اور دنیا بھر میں نامور ہدایت کاروں اور اداکاروں کی وجہ سے انتہائی قابل احترام صنعت ہے۔‘

ششی تھرور نے مزید کہا کہ ’ایسی صنعت میں خواتین کے لیے کام کرنے کا غیر محفوظ ماحول پیدا کرنا اور انھیں ڈرانا، بلیک میل کرنا اور ان کے ساتھ اس سے بدتر چیزیں کرنا ناقابل معافی ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جس کے بارے میں کیرالہ کو جانا جاتا ہے۔ ہمیں ایک ایسی ریاست ہونے پر فخر ہے جہاں 200 سال سے زیادہ عرصے سے پرائمری سطح پر لڑکیوں کو تعلیم دی جا رہی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس رپورٹ کو مکمل طور پر نشر کرنے کی ضرورت ہے۔ اور اس پر کارروائی کی جائے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون سے بااثر لوگوں کی ساکھ اس سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ عورتوں کو آگے آکر شکایت کرنے میں بہت زیادہ وقت لگتا ہے، اور وہ خواتین جنھوں نے آگے آکر شکایت کی ہے انھوں نے بھی بہت حد تک اپنی ساکھ اور اپنے کریئر کو داؤ پر لگایا ہے۔ انھوں نے ایسا اس لیے کیا ہے کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ ان حقائق کو سامنے لانا ضروری ہے۔‘

رابندرناتھ ٹیگور پر فلم بنانے والے فلم ساز اور ہدایت کار سورج کمار نے اس معاملے پر بی بی سی کو اپنا بیان بھیجا ہے جس میں انھوں نے لکھا: ’ایک فلم ساز اور خواتین کے حقوق کی ایک مضبوط وکیل کے طور پر میں جسٹس ہیما کمیٹی کی رپورٹ کے نتائج سے بہت پریشان ہوں۔ ملیالم فلم انڈسٹری میں خواتین کو ہراساں کیے جانے کے انکشافات خوفناک اور ناقابل قبول ہیں۔ خواتین کو 'سمجھوتہ' اور 'ایڈجسٹمنٹ' پر مجبور کرنے کا رواج جنسی استحصال کا ایک گھناؤنا عمل ہے۔ یہ ایک سنگین ناانصافی ہے جو سنیما کی روح مجروح کرتی ہے۔‘

انھوں نے مزید لکھا: ’یہ ضروری ہے کہ ہم بحیثیت برادری مل کر ان مظالم کا خاتمہ کریں۔ ہمیں ایک ایسا ماحول بنانا چاہیے جہاں ٹیلنٹ اور میرٹ ہی کامیابی کا واحد معیار ہو اور جہاں ہر فرد، قطع نظر جنس کے عزت اور احترام سے پیش آئے۔ میں ان تمام خواتین کے ساتھ یکجہتی کے ساتھ کھڑا ہوں جنھوں نے بہادری سے بات کی ہے۔‘

ندھی سوریش نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’انڈیا میں یہ پہلی کوشش ہے لیکن کاسٹنگ کاؤچ بالی وڈ اور ديگر فلم انڈسٹری میں بھی موجود ہے۔ امید کہ اس رپورٹ کے بعد دوسری فلم انڈسٹریز میں بھی اس طرح کے اقدام ہوں گے اور لوگ سامنے آ کر بات کریں گے۔‘


News Source

مزید خبریں

BBC
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.

Get Alerts