نئے آسٹریلوی کیوریٹر ٹونی ہیمنگز کو زیادہ دوش نہیں دیا جا سکتا کہ وہ حال ہی میں اس ذمہ داری سے وابستہ ہوئے ہیں مگر رمیز راجہ کے اس انقلابی فیصلے کو خراج تحسین سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، جس نے پیسرز کے لیے سازگار اس پچ کو یوں بنجر کر دیا کہ کوئی بھی فاسٹ بولر یہاں پیر دھرنے سے کترائے۔

اپنے تئیں پاکستان نے ایک اچھوتا فیصلہ کر کے دنیائے کرکٹ کے کان تو کھڑے کر دیے مگر ہوم کنڈیشنز بھانپنے میں میزبان ٹیم خود ہی ایسے مات کھا جائے گی، اس پہلی شہ سرخی سے بھی بڑی خبر ہے جو پاکستان نے 28 برس میں پہلی بار سپیشلسٹ سپنر کے بغیر کھیل کر بنائی۔
تاریخی طور پر راولپنڈی کی یہ پچ ہمیشہ سیمرز کے لیے مؤثر رہی ہے اور حالیہ برسوں میں بھی اس کی عمدہ مثال موجود ہے جب جنوبی افریقہ اور پاکستان نے یہاں ایک سنسنی خیز میچ کھیلا جس میں کوئی بھی ٹیم اپنی اننگز میں 300 کا ہندسہ نہ چھو پائی اور پانچویں صبح ہی میچ تمام ہو گیا۔
لیکن آسٹریلیا کی میزبانی کرتے وقت تب کے چئیرمین پی سی بی نے مہمان ٹیم کے فاسٹ بولرز کو پسندیدہ کنڈیشنز سے محروم کرنے کے لیے اس پچ کو ’نیوٹرل‘ کرنے کا فیصلہ کیا جس کے طفیل پانچ روز میں فقط 14 وکٹیں ہی گر پائیں اور پانچ روز کی محنت بے سود رہ گئی۔
اس کے بعد انگلینڈ کے خلاف جب پاکستان اسی پچ پر کھیلا تو ٹیسٹ کرکٹ کی تاریخ میں پہلے روز کا بلند ترین مجموعہ ریکارڈ ہوا جہاں انگلش بلے بازوں نے پانچ سو سے زائد رنز جڑ دیے۔
اور اب یہ میچ ہے جہاں پاکستان مکمل پیس اٹیک کے ساتھ میدان میں اتر بیٹھا ہے اور چار روز کے کھیل میں محض 17 وکٹیں ہی گری ہیں۔
اس طرح کی پچ ٹیسٹ کرکٹ کی صحت کے لیے کسی خطرے سے کم نہیں۔ اور پاکستان کرکٹ کے لیے بھی ایسی پچز کسی روشن کل کی نوید نہیں ہو سکتیں کہ پاکستان سے باہر کہیں بھی ایسی پچز دیکھنے کو نہیں ملتیں۔

نئے آسٹریلوی کیوریٹر ٹونی ہیمنگز کو زیادہ دوش نہیں دیا جا سکتا کہ وہ حال ہی میں اس ذمہ داری سے وابستہ ہوئے ہیں مگر رمیز راجہ کے اس انقلابی فیصلے کو خراج تحسین سے محروم نہیں رکھا جا سکتا، جس نے پیسرز کے لیے سازگار اس پچ کو یوں بنجر کر دیا کہ کوئی بھی فاسٹ بولر یہاں پیر دھرنے سے کترائے۔
قصور اس پچ کا نہیں، پی سی بی کا ہے جہاں منیجمنٹ میں کبھی ایسا تسلسل آیا ہی نہیں کہ پاکستانی پچز یا پاکستانی کرکٹ کی ہی اپنی کوئی پختہ شناخت پنپ سکے۔ کبھی یہ ٹیم جارحیت پہ مائل ہو جاتی ہے اور کبھی ’دی پاکستان وے‘ جیسی مثبت اصطلاحات ضرور سامنے آتی ہیں مگر درحقیقت اس کرکٹ کلچر کی کوئی واضح شکل کبھی سامنے نہیں آ پاتی۔
چار پیسرز کا اٹیک میدان میں اتارنے کے فیصلے کے دفاع میں اظہر محمود کہتے ہیں کہ غلطی ’پچ ریڈنگ‘ میں نہیں ہوئی بلکہ پچ نے اپنے رویے سے ان کے اندازوں کو دھوکہ دیا ہے۔
ان کی بات کو تقویت اس دلیل سے بھی ملتی ہے کہ اگر پہلے روز کا پہلے سیشن میں پچ کو میچ سے پہلے ہی مسلسل دھوپ نہ ملتی تو اس کی گھاس زیادہ کام دکھاتی اور میچ کی رفتار پاکستان کی ٹیم سلیکشن کے لیے موزوں ہو جاتی۔
لیکن سپیشلسٹ سپنر کے بغیر میدان میں اترنے کا فیصلہ صرف اسی صورت بار آور ہو سکتا تھا کہ پرانی گیند ریورس سوئنگ ہونے لگتی اور پیسرز فیصلہ کن ثابت ہو پاتے۔
اس پچ کی گھاس نہ تو سیم کے لیے ہری ہوئی اور نہ ہی اس نے پچ میں کوئی توڑ پھوڑ ہونے دی۔ یوں ریورس سوئنگ کا امکان بھی ختم ہو گیا۔

پاکستانی بولنگ پہ تنقید کی جا سکتی ہے کہ اس نے مسلسل اچھی لینتھ کا ڈسپلن برقرار نہیں رکھا اور دوسری نئی گیند کے استعمال میں جذبات کو عقل پہ فوقیت دی مگر راولپنڈی کی اس حبس سے لدی دھوپ میں 30 اوورز پھینکنا ہی بجائے خود کسی امتحان سے کم نہیں۔
اگرچہ مشفق الرحیم اپنے دوسرے سنگِ میل سے پیچھے رہ گئے اور بنگلہ دیش جیسی برتری کی توقع کر رہا تھا، وہ حاصل نہ ہو پائی لیکن چوتھی شام کے سیشن نے پچ میں کچھ ایسی سرگرمی ضرور دکھائی ہے جو فاسٹ بولرز کے لیے امید کی کرن بن سکتی ہے۔
لیکن اگر پانچویں صبح کے سیشن میں پرانی ہوتی گیند اس سرگرمی سے بھی محروم ہو گئی تو یہ میچ ایک بدمزہ ڈرا پر ختم ہو سکتا ہے۔
امتحان اب پاکستانی مڈل آرڈر کا ہے کہ وہ بنگلہ دیش کو تاریخ رقم کرنے سے کتنا دور رکھ سکتا ہے۔