آج کل کے نوجوان فون کال کا جواب دینے سے گھبراتے کیوں ہیں؟

پرانی نسلوں کے لیے فون پر بات کرنا عام سی بات ہے: میرے والدین نے اپنی نوعمری کے سال بہن بھائیوں سے اس بات پر لڑتے گزارے کہ فون کون اٹھائے گا حتیٰ کہ اس زمانے میں پورا خاندان ان کی گفتگو سن رہا ہوتا تھا۔ مگر نئی نسل اب فون کال سے گریزاں کیوں؟
علامتی تصویر
Getty Images

’ہیلو، یہ یاسمین کی وائس میل ہے۔ پلیز کوئی میسج مت چھوڑیں کیونکہ میں نہ تو اسے سنوں گی اور نہ ہی آپ کو واپس کال کروں گی۔‘

بدقسمتی سے یہ میرے فون کے وائس میل پر لگا پیغام نہیں ہے مگر یہ ’جنریشن زی‘ اور ’ملینیئلز‘ کے وائس میل پر لگا پیغام ہو سکتا ہے۔

(سادہ الفاظ میں جنریشن زی یا نئی نسل میں وہ نوجوان آتے ہیں جو نوّے کی دہائی کے وسط یعنی 1995 سے لے کر 2000 کی دہائی کے آخر یعنی 2010 تک پیدا ہوئے۔ جبکہ ملینیئلز سے مراد جنریشن زی سے پچھلی نسل ہے جو اسّی کی دہائی کے اوائل یعنی سنہ 1980 سے لے کر نوّے کی دہائی کے وسط یعنی سنہ 1995 تک پیدا ہوئی۔)

ایک حالیہ سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ 18 سے 34 سال کی عمر کے افراد میں سے کوئی ایک شخص بھی فون کالز کا جواب نہیں دیتا۔

ان افراد کا کہنا ہے کہ وہ کال کو اگنور یا نظر انداز تو کرتے ہیں مگر ٹیکسٹ میسج کے ذریعے جواب دے دیتے ہیں یا پہلے انٹرنیٹ پر نمبر کو سرچ کرتے ہیں تاکہ وہ یہ جان سکیں آیا وہ کال کرنے والے شخص کو جانتے بھی ہیں یا نہیں۔

اس سروے میں دو ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا، یہ ظاہر کرتا ہے کہ 18 سے 35 سال کی عمر کے تقریباً سات فیصد نوجوان کال پر ٹیکسٹ میسیج کو ترجیح دیتے ہیں۔

پرانی نسلوں کے لیے فون پر بات کرنا عام سی بات ہے: میرے والدین نے اپنی نوعمری کے سال بہن بھائیوں سے اس بات پر لڑتے گزارے کہ فون کون اٹھائے گا حتیٰ کہ اس زمانے میں پورا خاندان ان کی گفتگو سن رہا ہوتا تھا۔

Una niña habla por teléfono fijo.
Yasmin Rufo

اس کے برعکس میں نے اپنی نوجوانی ٹیکسٹ پیغامات کا جواب دیتے گزاری ہے۔

میری 13ویں سالگرہ پر جس دن مجھے گلابی نوکیا فون ملا، اس دن سے میں بس ٹیکسٹ کرنے میں لگی ہوں۔

سکول کے بعد کی ہر دوپہر میں نے اپنے دوستوں کو 160 حروف کے پیغامات لکھنے میں گزاری ہے۔۔۔ 160 حروف میں اپنے پیغام کو سمونا کوئی آسان کام نہیں تھا۔۔۔ بار بار کئی غیر ضروری الفاظ نکالنے پڑتے، کبھی کبھی تو پیغام کا پورا تلفظ ہی اتنا بگڑ جاتا جسے ڈی کوڈ کرنے (سمجھنے) میں کسی انٹیلی جنس ایجنسی کو بھی مشکل پیش آتی۔

سنہ 2009 میں موبائل پر فون کالز بہت مہنگی تھیں۔

جب میرے فون کا ماہانہ بل آیا تو میرے والدین نے مجھے یاد دلایا کہ ’ہم نے تمھیں یہ فون اس لیے نہیں لے کر دیا کہ ساری ساری رات دوستوں کے ساتھ گپیں لگاتی رہو۔‘

شاید اسی باعث مسیجز کرنے والی نسل نے جنم لیا۔ موبائل فون سے کالیں صرف ایمرجنسی کی صورت میں کی جاتی تھیں اور کبھی کبھار دادا دادی سے بات کرنے کے لیے لینڈ لائن کا استعمال ہوتا تھا۔

بری خبر

علامتی تصویر
Getty Images

ماہر نفسیات ڈاکٹر ایلینا ٹورونی بتاتی ہیں کہ ’چونکہ نوجوان نسل ابتدا سے ہی فون پر بات کرنے کی عادی نہیں ہے لہذا اب یہ انھیں عجیب لگتا ہے۔‘

اسی لیے جب ان کا فون بجتا ہے یا اچانک فون سائلینٹ موڈ سے رنگر پر آ جائے تو کچھ کو اس سے خوف محسوس ہوتا ہے کیونکہ 35 سال سے کم عمر کسی بھی فرد کے فون کی رنگ ٹون کا والیوم عموماً زیادہ نہیں ہوتا۔

سروے میں شامل نصف سے زیادہ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں ایک غیر متوقع کال کا مطلب ہے کوئی بری خبر۔

سائیکو تھراپسٹ ایلوائس سکنر بتاتی ہیں کہ کالز کے حوالے سے گھبراہٹ کی وجہ ماضی میں کوئی تکلیف دہ واقعہ یا بدشگونی یا خوف کا احساس ہو سکتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ جیسے جیسے ہماری زندگی مصروف ہوتی جاتی ہے اور کام کے اوقات بھی مقررہنہیں رہتے تو شاید اسی وجہ سے ہمارے پاس کسی دوست سے فون پر بات کرنے کا وقت کم ہوتا جاتا ہے۔ اور فون کالز ہماری زندگی کی اہم خبروں کے لیے مخصوص ہو جاتی ہیں جو اکثر تکلیف دہ یا مشکل ہو سکتی ہیں۔

26 سالہ جیک لانگلی کا کہنا ہے کہ ’بالکل ایسا ہی ہوتا ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ وہ کبھی بھی نامعلوم نمبروں سے آنے والی کالز کا جواب نہیں دیتے کیونکہ اکثر ایسے نمبر سکیمرزیا اشتہاری کمپنیوں کے ہوتے ہیں۔

اور کسی کے پاس اتنا وقت نہیں ہوتا کہ وہ بیٹھ کر انجان نمبروں کو سرچ کرے، اس کے بجائے انھیں نظر انداز کرنا آسان ہوتا ہے۔

لیکن فون پر بات نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نوجوان نسل اپنے دوستوں سے رابطے میں نہیں ہیں: ہماری چیٹس نوٹیفیکیشنز سے بھری رہتی ہیں جن میں عام پیغامات، میمز، گپ شپ اور حال ہی میں وائس نوٹ بھی شامل ہو گئے ہیں۔

آج کل دوستوں سے زیادہ تر بات چیت سوشل میڈیا خاص طور پر انسٹاگرام اور سنیپ چیٹ پر ہوتی ہے جہاں ٹیکسٹ کے ساتھ تصاویر اور میمز بھیجنا آسان ہے۔

اگرچہ فون کالز سبھی کو ناپسند ہیں مگر وائس نوٹس کے حوالے سے نئی نسلوں کی رائے تقسیم نظر آتی ہے۔

مذکورہ سروے میں 18 سے 34 سال کی عمر کے 37 فیصد نوجوانوں نے کہا کہ بات چیت کے لیے وہ وائس نوٹس کو ترجیح دیتے ہیں۔اس کے مقابلے میں 35 سے 54 سال کے افراد میں سے صرف ایک فیصد فون کال پر وائس نوٹکو ترجیح دیتے ہیں۔

علامتی تصویر
Getty Images

19 سالہ طالبہ سوسی جونز کا کہنا ہے کہ ’وائس نوٹ فون پر بات کرنے جیسا ہی ہے مگر فون کال سے بہتر ہے۔ کسی دباؤ کے بغیر اپنے دوست کی آواز سننے کے فوائد ہیں، اسی لیے بات چیت کرنے کا یہ نرم طریقہ زیادہ بہتر ہے۔‘

لیکن میرے لیے ایک دوست کا پانچ منٹ کا وائس نوٹ سننا (جس میں اس نے مجھے اپنی زندگی کے بارے میں اپ ڈیٹ دی ہو) تکلیف دہ ہے۔وہ اکثر موضوع سے ہٹ جاتے ہیں، بار بار باتیں دہرائی جا رہی ہوتی ہیں اور یہ پوری کہانی ایک دو ٹیکسٹ میسجز میں بخوبی بیان ہو سکتی ہے۔

پیغامات اور وائس نوٹس نوجوانوں کو اپنے خاص انداز میں بات چیت میں مشغول رکھتے ہیں اور وہ اس وقت بہت دھیان سے سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں۔

کام کی جگہ پر فون کی عادت

آپ کے فون کی عادت کس حد تک آپ کے دفتری امور پر اثر انداز ہوتی ہے۔

31 برس کی ہینری نیلسن ایک وکیل اور ’کانٹیٹ رائٹر‘ ہیں جن کی ویڈیو میں کرب اور غصے کے جذبات کی عکاسی ہوتی ہے جس میں کمپنی کی ای میلز، مخصوص وقت سے زیادہ کام سے انکار اور کسی بھی ملازم کی فون کال سننے سے گریز شامل ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ اس وقت فون کال پر بات کرنے سے ہیجانی کیفیت پیدا ہوتی ہے اور کسی نہ کسی طور پر اس طرح کی کال میں تھوڑا عجیب احساسات بھی شامل ہوجاتے ہیں جب آپ کو پر فوری جواب دینے کا دباؤ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ فون پر بات کرنے سے نفرت کرتی ہیں۔

تورانی کے مطابق فون کال سے آپ زیادہ کھل کر بات جاتے ہیں اور زیادہ قریب ہونے کا احساس ہوتا ہے جبکہ فون پر میسجز کرنے سے آپ زیادہ محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

علامتی تصویر
Getty Images

ایک 27 سالہ وکیل دنجا ریلک کہتی ہیں کہ وہ کام کی جگہ پر کالز سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ’وہ وقت ضائع کرنے کا سبب بن سکتی ہیں اور آپ کو اپنے ہدف سے دور رکھ سکتی ہیں۔‘

’وقت کے ساتھ تحفظ کا احساس بڑھتا جا رہا ہے اور کسی کو فون کرنے کے لیے وصول کرنے والے کو وقت دینا پڑتا ہے اور توجہ اس طرف مبذول کرنا پڑتی ہے جو کہ زیادہ کام کرنے والے لوگوں کے لیے ایک مشکل صورتحال بن جاتی ہے۔

ایک 64 برس کے کاروباری جیمز ہولٹن کا کہنا ہے کہ ان کے چھوٹے ملازمین شاذ و نادر ہی ان کی فون کالز کا جواب دیتے ہیں۔ یا تو ان کے پاس پہلے سے طے شدہ پیغام ہوتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ وہ مصروف ہیں یا انھوں نے میرا نمبر کال فارورڈنگ میں ڈال دیا ہوتا ہے جس سے کال نہیں ملتی۔

ان کے پاس ہمیشہ ایک بہانہ ہوتا ہے، سب سے عام بات یہ ہے کہ میرا فون ’سائلنٹ‘ پر تھا اس لیے میں دیکھ نہیں سکا اور بعد میں آپ کو کال کرنا بھول گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جنریشن کے درمیان ’ایک واضح کمیونیکیشن گیپ‘ کو دیکھ کر انھیں اپنے آپ کو بھی نئے حقائق میں ڈھالنا پڑا۔ ان کے مطابق ’اگر ملازمین ٹیکسٹ میسجز میں زیادہ بہتر محسوس کرتے ہیں، تو یہ میری ذمہ داری ہے کہ اس انتخاب کا احترام کروں۔‘

اگرچہ کچھ لوگ یہ کہہ سکتے ہیں کہ مواصلات کا یہ نیا رجحان اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم ’گلاس جنریشن‘ سے تعلق رکھتے ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔

یہ اپنے آپ کو نئے رجحانات سے ہم آہنگ کرنا ہے۔ یقینی طور پر 25 سال پہلے لوگ فیکس سے ای میل پر آنے کے لیے گریزاں تھے لیکن تبدیلی نے مواصلات کو بہت زیادہ موثر بنا دیا ہے۔

شاید اب وقت آگیا ہے کہ ٹیکسٹ میسجز کی طاقت کو پہچانا جائے اور جس طرح ہم نے 90 کی دہائی میں فیکس کو پیچھے چھوڑ دیا تھا، اسی طرح 2024 میں خوفناک فون کال کو پیچھے چھوڑ دیں۔


News Source   News Source Text

BBC
مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.