جیکب آباد میں مبینہ ریپ کا نشانہ بننے والی پولیو ورکر جن کی ’جان کو اب شوہر سے بھی خطرہ ہے‘

جمیلہ نے بتایا کہ جو شخص انھیں یرغمال بنا کر لایا تھا اس نے ان کا ریپ کیا جبکہ ایک اور شخص نے موبائل فون نکال کر ویڈیو بنانا شروع کر دی۔ جیکب آباد پولیس نے مبینہ ریپ کے ملزم اور جمیلہ کے شوہر کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ لیکن یہ واقعہ ہوا کیسے اور پولیس نے ابتدا میں موبائل چوری کا مقدمہ کیوں درج کیا؟
ریپ
Getty Images
(فائل فوٹو)

اتنباہ: اس رپورٹ میں موجود جنسی تشدد کی چند تفصیلات قارئین کے لیے پریشان کن ہو سکتی ہیں۔

جیکب آباد میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا آخری دن تھا اور جمیلہ (فرضی نام) اپنے ساتھی کے ساتھ اپنا کام تقریباً مکمل کر چکی تھیں۔

اسی وقت ایک انجان شخص قریب آیا جس نے ان سے کہا کہ ’قریب جنگل میں ایک خاندان آباد ہوا ہے جس کے بچوں کو قطرے پلانا ہیں۔‘

جمیلہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھوں نے انچارج کو فون ملایا جس نے ان کو جانے سے منع کیا تو انجان شخص نے ان پر پستول تان لیا اور ان کے ساتھی کو ڈرا کر بھگا دیا لیکن جمیلہ کو ’گھسیٹتے ہوئے جنگل میں لے گیا۔‘

’وہاں تین اور افراد اپنے چہرے چھپائے انتظار کر رہے تھے۔‘ اسی مقام پر جمیلہ کے مطابق ان کا مبینہ ریپ کیا گیا۔ عدالت میں دائر مقدمے میں جمیلہ نے کہا ہے کہ ان کو ’یرغمال بنا کر ان کا ریپ کیا گیا۔‘

’میرا کیا قصور تھا؟ میرے ساتھ ظلم ہوا۔ میرے گلے پر نشان دیکھیں، ٹانگوں پر زخم دیکھیں۔ میرا گھر برباد ہوگیا۔ شوہر نے بھی چھوڑ دیا۔ مجھے انصاف چاہیے تاکہ کسی اور پولیو ورکر کے ساتھ ایسا نہ ہو۔‘

جیکب آباد پولیس نے مبینہ ریپ کے ملزم اور جمیلہ کے شوہر کو بھی گرفتار کر لیا ہے۔ پولیس کے مطابق ان کے شوہر نے انھیں گھر سے بے دخل کر دیا تھا۔

یاد رہے کہ پاکستان کا شمار افغانستان کے ساتھ دنیا کے ان دو ممالک میں ہوتا ہے جہاں پولیو کا خاتمہ نہیں ہو سکا اور رواں برس 9 ستمبر کو تین روزہ پولیو مہم کا آغاز ہوا تھا جس کا ہدف پانچ سال سے کم عمر تین کروڑ سے زیادہ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلانا ہے۔

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سمیت ملک بھر میں رواں سال پولیو وائرس کے 17 کیسز رپورٹ ہوئے ہیں تاہم پولیو کے قطرے پلانے کی مہم خطرات سے خالی نہیں اور ماضی میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں پولیو ورکرز پر حملے ہو چکے ہیں۔

ایسے میں جیکب آباد میں پیش آنے والے اس واقعے نے خواتین پولیو ورکرز کو درپیش نئے خطرات کی نشاندہی کی ہے۔

دوسری جانب اس معاملے میں پولیس کے کردار پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں جس کی وجہ جمیلہ کا الزام ہے کہ ان پر دباو ڈالا گیا کہ وہ ریپ کا مقدمہ درج نہ کروائیں۔

صوبہ سندھ کی حکومت نے جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی اور ڈی ایچ او کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا ہے جبکہ دوسری طرف صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو نے مقامی پولیس کو پولیو ورکرز کی سکیورٹی بڑھانے کا بھی حکم دیا۔

ایک بیان کے مطابق انھوں نے وزیر اعلیٰ سندھ سے درخواست کی ہے کہ متاثرہ پولیو ورکر کی مالی مدد کی جائے تاکہ انھیں اپنے بچوں کی دیکھ بھال میں دشواری نہ ہو۔

لیکن یہ واقعہ ہوا کیسے اور پولیس نے ابتدا میں موبائل چوری کا مقدمہ کیوں درج کیا؟

یہ بھی پڑھیے

’میرا ریپ کیا گیا اور ویڈیو بنائی گئی‘

پولیو ورکر جمیلہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ جیکب آباد میں پولیو سے بچاؤ قطرے پلانے کی مہم کے آخری دن وہ اور ان کے ساتھی سرکاری فہرست میں آخری گھر کے بچوں کو قطرے پلا چکے تھے۔

اسی دوران ایک شخص ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ ’آگے ایک جنگل ہے جہاں ایک ماہ پہلے ایک فیملی آباد ہوئی ہے۔ ان بچوں کو بھی پولیو کے قطرے پلا دیں۔‘

اس شخص کی بات سن کر جمیلہ نے اپنے انچارج کو فون ملایا۔ ’میں نے انھیں صورتحال سے آگاہ کیا اور پوچھا کہ کیا یہ علاقہ ہماری حدود میں ہے؟ انھوں نے ہمیں وہاں جانے سے منع کر دیا‘ تاہم جب انھوں نے یہ بات اس شخص کو بتائی تو اس نے جمیلہ اور ان کی ساتھی پر ’پستول تان لی۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’اس نے ہمارے موبائل چھینے، میرے کندھے سے ویکسین کا باکس اتار کر ایک لڑکے کو تھما دیا اور کہا کہ اگر پیچھے مڑ کر دیکھا تو گولی مار دوں گا۔‘

جمیلہ نے بتایا کہ وہ شخص انھیں گھسیٹتا ہوا جنگل میں لے گیا جہاں پہلے سے تین لوگ موجود تھے۔ انھوں نے اپنے چہروں پر کپڑا باندھا ہوا تھا۔

جمیلہ نے بتایا کہ جو شخص انھیں یرغمال بنا کر لایا تھا اس نے ان کا ریپ کیا جبکہ ایک اور شخص نے موبائل فون نکال کر ویڈیو بنانا شروع کر دی۔

جمیلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’10، 15 منٹ گزرنے کے بعد وہ چاروں وہاں سے فرار ہو گئے۔ میں قریب کے ایک گاؤں پہنچی جہاں خواتین نے مجھ پر بالٹی سے پانی ڈالا اور مجھے حوصلہ دیا۔‘

پولیو ورکر
AFP
(فائل فوٹو)

’میڈیا کو جو بھی بیان دینا چاہتی ہیں، دیں‘

جیکب آباد کے ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) ظہور مری کا کہنا ہے کہ واقعے کی اطلاع موصول ہوتے ہی وہ جائے وقوعہ پر پہنچ گئے تھے اور انھیں جمیلہ کی حالت دیکھ کر ’اندازہ ہو گیا تھا کہ ان کے ساتھ کچھ غلط ہوا۔‘

وہ جمیلہ کو اپنی گاڑی میں ہسپتال لے گئے۔ چیک اپ کے بعد انھوں نے جمیلہ سے کہا کہ ’میڈیا کو جو بھی بیان دینا چاہتی ہیں، دیں۔‘

جیکب آباد میں محکمہ صحت کے ضلعی افسر ڈاکٹر ارشاد سرکی ڈی سی ظہور مری کے ہمراہ تھے۔ انھوں نے بتایا کہ قوائد و ضوابط کے تحت متاثرہ پولیو ورکر کی میڈیکو لیگل کارروائی ہوئی اور ان کا سیمپل اور ڈی این اے لے لیا گیا۔

جمیلہ نے اپنے پہلے بیان میں کہا تھا کہ ان کا موبائل فون چھینا گیا اور اسی شکایت پر ان کی ایف آئی آر بھی درج کی گئی تھی تاہم جب سیشن کورٹ میں جج نے ان کا بیان قلمبند کیا تب انھوں نے بتایا کہ ان کا ریپ ہوا۔

جمیلہ کا دعویٰ ہے کہ ان پر ’پولیس کی جانب سے دباؤ تھا کہ وہ ریپ کا ذکر نہ کریں۔‘ اس لیے انھوں نے اپنے بیان میں صرف یہ بتایا کہ ان کے ساتھ ’چھینا جھپٹی ہوئی۔‘

ادھر جیکب آباد کے ایس ایس پی سمیر چنا کا کہنا ہے کہ جمیلہ کے پہلے بیان سے لگ رہا تھا کہ ان کے ساتھ جنسی ہراسانی کا واقعہ پیش آیا، اسی لیے ان کا میڈیکل چیک اپ اور ڈی این اے ٹیسٹ کیا گیا تھا۔

بعد ازاں جب جمیلہ نے سیشن کورٹ میں بیان دیا کہ ان کا ریپ ہوا ہے تو ایف آئی آر میں سیکشن 375 کو شامل کر دیا گیا۔ پاکستان پینل کوڈ میں سیکشن 375 ریپ سے متعلق ہے۔

ان کے مطابق پولیس نے ایف آئی آر میں نامزد کیے گئے ملزم کو بھی گرفتار کر لیا۔

ایس ایس پی سمیر چنا کے مطابق ملزم نے ’ریپ کا اعتراف کیا‘ تاہم عدالت میں پولیس کے سامنے اعتراف جرم کی قانونی حیثیت نہیں۔ ’اس لیے میڈیکل ٹیسٹ اور ڈی این اے رپورٹ کے شواہد ہی ملزم کا مبینہ جرم ثابت کر سکتے ہیں۔‘

دوسری جانب ڈی آئی جی پیر محمد شاہ نے اعتراض اٹھایا کہ خاتون ’اپنے پہلے بیان سے کیوں منحرف ہوئیں، ہم اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ ہم پتا لگائیں گے کہ انھوں نے کس کے دباؤ میں اپنا بیان بدلا تھا۔‘

کرائم سین
Getty Images
(فائل فوٹو)

متاثرہ ورکر کے ساتھ ’سکیورٹی نہیں تھی‘

پاکستان میں پولیو ورکرز پر کئی مرتبہ حملے کیے گئے ہیں جن میں متعدد ورکرز جان بھی گنوا چکے ہیں۔ اسی لیے پولیو ورکرز کی حفاظت کے لیے انھیں خاص سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے اس واقعے کے بارے میں جیکب آباد کے ایس ایس پی سمیر چنا اور ڈی ایچ او ڈاکٹر ارشاد سے رپورٹ طلب کی ہے۔

کورٹ نے استفسار کیا کہ ’کیا متاثرہ پولیو ورکر کو سکیورٹی فراہم کی گئی تھی؟ اگر کی گئی تھی تو اس میں کون کون شامل تھا؟‘

ایس ایس پی سمیر چنا کہتے ہیں کہ شہر میں ایسے 81 کے قریب پوائنٹس ہیں جہاں پولیس تعینات کی جاتی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت ’ضلعے میں کل نفری کی تعداد 1720 ہے۔ متاثرہ خاتون کئی سال سے پولیو مہم میں حصہ لے رہی ہیں اور ان کے ساتھ کبھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔‘

ڈی ایچ او ڈاکٹر ارشاد سرکی کا کہنا ہے کہ پولیو مہم کے لیے ایک خاص سکیورٹی پلان تیار کیا جاتا ہے۔

’اس میں جو پُرخطر علاقے ہوتے ہیں وہاں سکیورٹی اہلکار ساتھ جاتے ہیں۔ کچھ علاقوں میں پولیو ورکرز کے ساتھ سکیورٹی اہلکار نہیں بھیجے جاتے کیونکہ وہاں پولیس اہلکار پہلے سے ہی موجود ہوتے ہیں اور شکایت موصول ہونے پر جائے وقوعہ پر پہنچ جاتے ہیں۔‘

’تاہم اس واقعے کے بعد سکیورٹی انتظامات پر نظر ثانی کی جائے گی اور بغیر سکیورٹی کے کسی پولیو ورکر کو فیلڈ میں آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔‘

انھوں نے بتایا کہ جیکب آباد ضلع کی 43 یونین کونسلز میں تین لاکھ سے زائد بچوں کو قطرے پلانے کا ہدف مقرر کیا گیا تھا۔ اس کے لیے 795 فیلڈ سٹاف اور 186 انچارج پر مشتمل ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

فیلڈ سٹاف کو یومیہ اجرت ملتی ہے۔ چھ دن کام کرنے کے عوض انھیں 10 سے 12 ہزار روپے معاوضہ دیا جاتا ہے۔

جمیلہ کو ان کے شوہر نے ’گھر سے نکال دیا تھا‘

جمیلہ کے شوہر ریڑھی پر سبزی فروخت کرتے ہیں۔ ان کے چار بچے ہیں جن میں سے ان کی تین بیٹیاں ہیں۔

جمیلہ نے بی بی سی کو بتایا کہ معاشی حالات کی وجہ سے شوہر کی اجازت کے ساتھ وہ پولیو مہم میں کام کر رہی تھیں تاہم اس واقعے کے بعد ان کے مطابق ان کے شوہر نے انھیں گھر سے نکال دیا تھا۔

جمیلہ نے عدالت میں درخواست دی جس کے بعد انھیں ان کے والد کے حوالے کیا گیا اور بچے بھی ان کے سپرد کر دیے گئے ہیں۔

اپنے شوہر اور دیور پر الزام لگاتے ہوئے جمیلہ نے پولیس میں شکایت درج کروائی کہ اب یہ لوگ انھیں ’جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔‘

شکایت کے ردعمل میں پولیس نے ان کے شوہر سے تفتیش کی جس پر پولیس کے مطابق شوہر نے اس معاملے کو غلط فہمی قرار دیا۔

ڈی سی ظہور مری کا کہنا ہے کہ اس علاقے میں کاروکاری کے واقعات عام ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہے کہ خاتون کو کسی ایسی جگہ منتقل کر دیا جائے جہاں وہ محفوظ رہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھوں نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ متاثرہ پولیو ورکر کو مستقل سرکاری ملازمت فراہم کی جائے۔

پیر کے روز جیکب آباد کے شہریوں نے بھی متاثرہ ورکر کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ریلی نکالی جس میں خواتین نے بھی شرکت کی۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے سماجی رہنما جان اوڈھانو نے کہا کہ ’پولیو ورکرز ہمارے مستقبل کو تحفظ فراہم کر رہے ہیں۔ انھیں عزت اور احترام دینا سماج اور حکومت دونوں کی ذمہ داری ہے۔‘

انھوں نے مطالبہ کیا کہ اس بات کی تحقیقات ہونی چاہییں کہ وہ کون سے ’عناصر‘ تھے جنھوں نے 'ریپ کیس کو ڈکیتی کا روپ دینے کی کوشش کی۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
تازہ ترین خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.