پاکستان کی بلاک بسٹر فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ دلی میں متعلقہ حکام کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باعث آج (دو ستمبر) سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا سکی ہے۔
پاکستان کی بلاک بسٹر فلم ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ دلی میں متعلقہ حکام کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باعث آج (دو ستمبرکو) سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش نہیں کی جا سکی ہے۔
پاکستانی سپر سٹارز فواد خان اور ماہرہ خان کی اِس فلم کو گاندھی کے یوم پیدائش کے موقع پر انڈین ریاست پنجاب کے سنیما گھروں میں دو ستمبر کو نمائش کے لیے پیش کیا جانا تھا، اور اگر یہ انڈین سینما گھروں کی زینت بن جاتی تو یہ گذشتہ دس برسوں میں انڈین سکرینوں پر چلنے والی پہلی پاکستان فلم ہوتی۔
تاہم اب بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے اجازت نہ ملنے کے باعث اس فلم کی سکریننگ کو غیرمعینہ مدت کے لیے روک دیا گیا ہے۔
انڈین خبر رساں ادارے ’پریس ٹرسٹ آف انڈیا‘ کے مطابق انڈیا میں فلم کے ڈسٹریبیوٹر ’زی سٹوڈیوز‘ نے منگل کو ہی تصدیق کر دی تھی کہ فلم غیر معینہ مدت کے لیے روک دی گئی ہے۔
بدھ کی صبح ’زی سٹوڈیوز‘ میں موجود ایک ذریعے نے بھی بی بی سی کو تصدیق کی ہے کہ انڈین وزارت اطلاعات اور نشریات کی جانب سے اجازت نہ ملنے کی خبر سامنے آنے کے بعد فلم کی ریلیز غیرمعینہ مدت کے لیے روک دی گئی ہے۔
فی الحال یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ وزارت کی جانب سے یہ فیصلہ کیے جانے کی وجوہات کیا ہیں۔ بی بی سی نے انڈین وزارت اطلاعات سے ردعمل کے لیے رابطہ کر رکھا۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ اس فلم کو انڈیا میں نمائش کے لیے پیش نہیں کیا جا سکا ہے۔
اس سے قبل ’دی لیجنڈ آف مولا جٹ‘ کو 30 دسمبر 2022 کو انڈیا کے اُن علاقوں کے سینما گھروں میں نمائش کے لیے پیش کیا جانا تھا جہاں لوگ پنجابی سمجھتے اور بولتے ہیں، تاہم اُس وقت بھی کسی وضاحت کے بغیر اس کی نمائش غیرمعینہ مدت کے لیے منسوخ کر دی تھی۔
اگرچہ فلم کی نمائش نہ ہونے کے بارے میں سرکاری سطح پر خاموشی ہے تاہم سوشل میڈیا پر ’پاکستانی فلم کو نمائش کی اجازت نہ دینے‘ کے فیصلے پر صارفین ملا جُلا ردعمل دے رہے ہیں۔
یاد رہے کہ مولا جٹ کی انڈیا میں دو اکتوبر کو ہونے والی نمائش کے خلاف ریاست مہاراشٹر کے سیاسی رہنما اور ’مہاراشٹر نو نرمان سینا‘ کے بانی راج ٹھاکرے کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس کے بعد مختلف حلقوں میں اس فلم کی نمائش کی مخالفت نے زور پکڑا تھا۔
راج ٹھاکرے نے کہا تھا کہ وہ اس فلم کو مہاراشٹر میں ریلیز نہیں ہونے دیں گے جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ نمائش کو ریاست پنجاب تک محدود کر دیا جائے۔
خیال رہے کہ شیو سینا کے بانی بال ٹھاکرے اور ایک زمانے میں اُن کے جانشین کہے جانے والے اُن کے بھتیجے راج ٹھاکرے پاکستان مخالف بیانات اور پاکستان کے خلاف کرکٹ میچز کھیلنے کی پُرزور مخالفت کرتے رہے ہیں۔
پاکستانی انٹرٹینمنٹ کی انڈیا میں مقبولیت
پاکستانی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری کی انڈیا میں مقبولیت اور مانگ رہی ہے جس کی مثال کچھ ٹی وی سیریز کی بے پناہ مقبولیت کی شکل میں دیکھی جا سکتی ہے۔ پاکستانی ڈرامے ’زندگی گلزار ہے‘ سے لے کر حال ہی میں ریلیز ہونے والی ڈرامہ سیرئیل ’برزخ‘ انڈین صارفین میں کافی مقبول ہوئی ہیں۔
تاہم 18 ستمبر 2016 کو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے اڑی میں ہونے والے حملے کے بعد بالی وڈ سینیما کی ایک تنظیم انڈین موشن پکچر پروڈیوسرز ایسوسی ایشن نے پاکستانی اداکاروں اور عملے کے ارکان پر انڈیا میں کام کرنے پر پابندی لگانے کی قرارداد منظور کی تھی۔
خیال رہے کہ بی جے پی کی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد سے انڈیا میں وسیع پیمانے پر کوئی بھی پاکستانی فلم ریلیز نہیں کی گئی ہے۔ آخری ریلیز ہونے والی اہم فلم ’بول‘ تھی جو سنہ 2011 میں ریلیز ہوئی تھی۔
پاکستان کی جانب سے آسکر میں بھیجی جانے والی فلم ’جوائے لینڈ‘ انڈیا میں گذشتہ سال مارچ میں ریلیز ہونے والی تھی لیکن ’دی ہندو‘ اخبار کی رپورٹ کے مطابق بوجوہ یہ معاملہ منظم سکریننگ سے آگے نہیں بڑھ سکا۔
بی بی سی نے جب اس صورتحال پر انڈین فلمساز اور ہدایتکار سورج کمار سے بات کی تو اُن کا کہنا تھا کہ ’جہاں تک دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی ریلیز کا معاملہ ہے تو یہ دراصل انڈیا اور پاکستان کے درمیان پیچیدہ اور اکثر کشیدہ تعلقات کی عکاسی کرتا ہے، خاص طور پر جب بات ثقافتی تبادلے کی ہو۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جہاں آرٹ اور سینما سرحدوں کو عبور کرنے اور پُل بنانے کی طاقت رکھتے ہیں وہیں سیاسی کشیدگی رکاوٹیں پیدا کرتی رہتی ہے۔‘
انھوں نے زور دیا کہ ’دونوں ممالک کے درمیان بات چیت اور افہام و تفہیم کو فروغ دینے میں تفریح کے کردار کو تسلیم کرنا ضروری ہے، بجائے اس کے کہ اسے وسیع تر جغرافیائی سیاسی مسائل کا شکار ہونے دیا جائے۔‘
فلم ناقد اور ’بیئنگ مسلم اِن ہندو انڈیا‘ کے مصنف ضیاء السلام نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا اور پاکستان کی مشترکہ شناخت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ آپ ہڑپا تہذیب کو لے لیں یا پھر کشان سلطنت کو، یا پھر دہلی سلطنت کے عہد اور مغل دور کو لے لیں پورا برصغیر ایک تھا۔‘
’لیکن جہاں تک مولا جٹ یا پاکستانی فلموں کی مخالفت کی بات ہے تو یہ جان لیں کہ آر ایس ایس کی بنیاد ہی مسلم مخالفت پر ہے۔ صرف سنیما ہی نہیں بلکہ غزل، قوالی، تصوف سب کی مخالفت ہے اور پاکستان تو ان کے لیے ریڈہے۔‘
انھوں نے سوال کیا کہ ’اگر وہ پاکستانی سنیما کی مخالفت کرتے ہیں تو کیا وہ اوڈین سنیما کے مالک شیام ساہنی کی پاکستان میں وراثت سے دستبردار ہوں گے یا پھر این جی سبل کے لاہور، مری، وغیرہ میں سنیما ہال کی وراثت سے انکار کریں گے؟‘
سورج کمار نے انڈیا پاکستان کے مشترکہ سینیما کلچر کے بارے میں کہا کہ ’سنیما نے طویل عرصے سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان ایک پُل کا کام کیا ہے، سیاسی تناؤ کے باوجود دونوں ممالک کے فلمساز، اداکار اور مصنف مل کر کام کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’راحت فتح علی خان اور عاطف اسلم جیسے ستاروں نے انڈین موسیقی میں بہت زیادہ تعاون کیا ہے، جب کہ فواد خان اور ماہرہ خان جیسے اداکاروں نے بالی وڈ کے ناظرین پر دیرپا اثر چھوڑا ہے۔‘
اسی حوالے سے انڈین سوشل میڈیا پر بھی مختلف قسم کی آرا دیکھنے کو ملیں۔
اکشے جوشی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’مرکزی حکومت راج ٹھاکرے کے مطالبے پر جُھک گئی، ملک بھر میں دی لیجنڈ آف مولا جٹ پر پابندی۔ کسی عہدہ کے بغیر بھی راج ٹھاکرے کا مرکزی حکومت پر اثر و رسوخ ثابت کرتا ہے کہ ان کی طاقت انتخابی تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔‘
ایس جی ریسرچ نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’یہ (انڈیا پاکستان کے درمیان) کرکٹ دشمنی کے سنیما ورژن کی طرح ہے۔ شاید ہمیں بالی وڈ بمقابلہ لالی وڈ میچ کی ضرورت ہو تاکہ ایک بار اور ہمیشہ کے لیے اسے طے کیا جا سکے – پاپ کارن تیار ہیں!‘