بالی وڈ میں چند ہی اداکار ایسے ہوں گے، جنھوں نے اس انڈسٹری پر ریکھا جیسے نقوش چھوڑے ہوں۔ 10 اکتوبر کو ریکھا 70 برس کی ہو گئی ہیں۔
بالی وڈ میں چند ہی اداکار ایسے ہوں گے، جنھوں نے اس انڈسٹری پر ریکھا جیسے نقوش چھوڑے ہوں۔ 10 اکتوبر کو ریکھا 70 برس کی ہو گئی ہیں اور اس موقع پر فلم رائٹر یاسر عثمان نے ریکھا کے کریئر کے بارے میں یہ آرٹیکل تحریر کیا۔
ریکھا انڈیا کی سب سے زیادہ گلیمرس شخصیات میں سے ایک ہیں، ایک ایسی خاتون جنھوں نے کئی دہائیوں تک سرخیوں اور لوگوں کے تخیلات میں اپنی جگہ بنائے رکھی اور انڈین سنیما میں آنے والی خواتین کے لیے راہیں بھی روشن کیں۔
1970 کی دہائی میں ان کی شناخت جنوبی انڈیا کی ایک بلند آواز والی اور فکر سے عاری نوجوان لڑکی کی تھی، جو بعد میں ایک سمجھدار، قومی ایوارڈ یافتہ اداکارہ میں بدل گئی، جو انتہائی اعتماد سے اردو اور ہندی بولتی تھیں۔
لیکن ریکھا کی ذاتی زندگی پر لوگوں کی حد سے زیادہ توجہ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنی پرائیویسی کو محفوظ بنانے کے لیے انھوں نے برسوں کے لیے عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کر لی۔
اس کے باوجود پچھلی چند دہائیوں میں ریکھا نے بار بار یہ ثابت کیا کہ ان کے اردگرد موجود پراسراریت نے فینز کو ان کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بے تاب کیا۔
وہ عوام کے سامنے آتی ہیں تو اب بھی دلوں پر قبضہ کر لیتی ہیں اور انٹرنیٹ پر وائرل ہو جاتی ہیں۔
ریکھا سنہ 1954 میں چنئی (اس وقت کے مدراس) میں پیدا ہوئیں اور پیدائش کے وقت انھیں بھانو ریکھا کا نام دیا گیا۔
اپنی والدہ (اداکارہ پشپولی) کی جدوجہد اور اپنے والد (تامل فلم سٹار جیمنی گنیشن) کی عدم موجودگی ان پر خاصی اثر انداز ہوئی۔
ریکھا ابھی اپنے لڑکپن میں ہی تھیں کہ انھوں نے اداکاری شروع کر دی اور اس کی اہم وجہ ان کے خاندان کو درپیش مالی مسائل تھے۔
’ہندی سنیما کے گھر‘ بمبئی (اب ممبئی) میں انھیں ایک ناقابل فہم زبان پر گرفت کے ساتھ ساتھ مردوں کے غلبے والی انڈسٹری کا مقابلہ بھی کرنا۔
ریکھا نے ایک بار کہا تھا کہ ’بمبئی ایک جنگل جیسا تھا اور میں یہاں غیر مسلح چل رہی تھی۔ یہ میری زندگی کا سب سے خوفزدہ کر دینے والا مرحلہ تھا۔ لوگ میرا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے۔‘
جیسے ہی ان کے ابتدائی کام کو توجہ ملنی شروع ہوئی تو انھیں بہت زیادہ باڈی شیمنگ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ ناظرین کے علاوہ صحافیوں حتیٰ کہ ساتھی اداکاروں نے بھی ان کے وزن اور رنگت کا مذاق اڑایا۔
بعد میں کچھ انٹرویوز میں ریکھا نے اس بارے میں بھی بات کی کہ کیسے انھیں کچھ ایسے بھی مناظر ریکارڈ کرانے پڑے، جن کو ادا کرتے ہوئے انھوں نے خود کو بے چین محسوس کیا۔
ہر چیز جیسے ان کے خلاف کھڑی تھی لیکن ریکھا نے پھر ’سکرپٹ‘ کو بدل کر رکھ دیا۔
1970 کی دہائی کے انڈیا میں اپنے انٹرویوز اور بیانات کے ساتھ ریکھا فلمی دنیا کے گپ شپ میگزینز کے لیے ایک سرخی بن گئیں۔ نوجوان ریکھا کی اپنی جنسیت کے بارے میں کھل کر گفتگو کسی انقلاب سے کم نہ تھی۔
ریکھا اپنے ساتھی اداکاروں کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کھل کر بات کرتی تھیں لیکن ان مردوں کی جانب سے عوامی سطح پر کوئی بیان یا جواب نہ آنے کی وجہ سے اکثر ریکھا کی تذلیل کی جاتی تھی۔ میڈیا نے ریکھا کے بارے میں بیان کرنے کے لیے غیر اخلاقی سرخیاں تک استعمال کیں۔
ریکھا نے 70 کی دہائی کے وسط میں ایک ڈرامائی تبدیلی کی اور فٹنس سے متعلق رجحانات کا آغاز کیا۔ انھوں نے اپنے لیے اس میک اپ کا استعمال کرنا شروع کیا جو ان کے لیے کارآمد تھا۔
فٹنس ٹرینڈز کو شروع کرنے والی ریکھا کی وجہ سے ایسی خوراک بھی موضوع گفتگو بنی جو ٹھوس نہیں ہوتی، وہ ایروبیکس کی سفیر بن گئیں اور یوگا کے سیلیبریٹی جنون بننے سے بہت پہلے ہی اسے اپنا لیا۔
اپنی غیر روایتی شکل و صورت کی وجہ سے طنز اور تنقید کا نشانہ بننے والی ریکھا خوبصورتی اور فٹنس کے معیارات کو از سر نو بنانے اور تمام رنگ کے اداکاروں کے لیے ایک زیادہ جمہوری انڈسٹری بنانے میں کامیاب ہو گئیں۔
لیکن یہ ریکھا کے اس ہنر کی دوبارہ ایجاد تھی جس نے انھیں واقعی ’تبدیلیوں کا سفیر‘ بنا دیا۔
ظاہری شکل و صورت کے ساتھ ساتھ انھوں نے اپنی اداکاری کو بہتر کرنے پر بھی کام کیا۔
گھر (1978) جیسی تنقیدی طور پر سراہی جانے والی فلموں میں ان کی اداکاری کو خوب پذایرائی ملی، جہاں انھوں نے ریپ کی شکار ایک لڑکی کا کردار ادا کیا۔
سنہ 1980 کی فلم ’خوبصورت‘ میں ریکھا انتہائی آسانی کے ساتھ کامیڈی کردار کی طرف منتقل ہو گئیں اور سنہ 1981 کی فلم ’سلسلہ‘ میں ان کی دلکش کارکردگی نے ان کی مین سٹریم ڈیمانڈ اور بڑھا دی۔
اسی سال فلم ’امراؤ جان‘ میں ان کے کردار نے انھیں انڈیا کی سب سے مشہور اداکاراؤں کی صف میں لا کھڑا کیا اور انھیں قومی اعزاز سے نوازا گیا۔
فلم کل یوگ (1981)، اتسیو (1984) اور اجازت (1987) میں ریکھا کی شاندار پرفارمنس سے ان کی مختلف کرداروں میں ڈھل جانے کی صلاحیت کا اندازہ ہوا۔ سنہ 1988 کی ایکشن فلم ’خون بھری مانگ‘ میں ریکھا کی یہ صلاحیت مزید ابھر کر سامنے آئی۔
مختلف نوعیت کے کرداروں میں تیزی سے ڈھل جانے کی صلاحیت ان کے کرئیر کا خاصہ رہی۔
ریکھا نے ہندی فلم انڈسٹری میں ایک نئے دور کا آغاز کیا، جہاں ان کا اپنا ایک بیانیہ تھا اور انھیں ایک ’دیوا‘ کا تاجبجا طور پر ہی پہنایا گیا۔
سنہ 1990 میں انھوں نے ایک کاروباری شخصیت مکیش اگروال سے شادی کر لی لیکن جلد ہی ان کے درمیان علیحدگی ہو گئی۔ اسی برس وہ امریکہ میں تھیں جب ان کے سابق شوہر نے اپنی جان لے لی۔
انڈیا واپسی پر انھیں ’مکیش کی خودکشی کے پیچھے موجود خوفناک سچ‘ اور ’سیاہ بیوہ‘ جیسی ہیڈلائنز کا سامنا کرنا پڑا۔
ان کی فلم ’شیش ناگ‘ کے پوسٹرز پھاڑ دیے گئے اور کچھ وقت کے لیے فلم انڈسٹری نے ان کا بائیکاٹ کیا۔
راتوں رات جب ریکھا کو سب نے تنہا کر دیا تو وہاں سے ان کا تبدیلی کا فائنل دور شروع ہوا۔
تقریباً ایک برس تک انھوں نے ایکشن فلم ’پھول بنے انگارے‘ پر اپنی ساری توانائی اور توجہ صرف کر دی اور اس فلم نے باکس آفس پر اچھا پرفارم بھی کیا۔
لیکن فینز کی محبت اور اپنے کامیاب کم بیک کے باوجود ریکھا، جو کبھی اپنی پرجوش اور صاف گو شخصیت کے لیے جانی جاتی تھیں، اب ایک انتہائی دھیمے، اداس اور فلسفیانہ انداز کو پیش کرتی ہیں۔
بی بی سی کو ایک انٹرویو میں ریکھا نے کہا تھا کہ ’میڈیا اپنا مرچ مسالہ لگا کر میرے بارے میں کچھ بھی لکھتا رہا۔ مجھے بہت غصہ آتا اور تکلیف ہوتی اور جب بھی مجھے تکلیف ہوتی ہے تو میں خاموش ہو جاتی ہوں۔ تو میں نے بالکل ایسا ہی کیا، میں نے بات کرنا چھوڑ دی۔‘
یہ شاید ان میں آخری تبدیلی تھی جس نے ان کو ’پراسرار دیوا‘ کی وہ شناخت دی، جسے ہم آج جانتے ہیں۔
اس کے بعد سے ان کی ذاتی زندگی کے بارے میں زیادہ معلومات سامنے نہیں آئیں اور فلموں میں ان کی موجودگی بھی کافی حد تک کم ہو گئی۔
اس کے باوجود اگر وہ اب بھی کبھی اپنے ’دیوا روپ‘ میں نظر آتی ہیں، جیسے سنہ 2005 کی فلم ’پرینتا‘ کے گیت ’کیسی پہیلی زندگانی‘ میں یا جب وہ اپنی پرانی ہٹ فلموں کے کسی گیت پر رقص کرنے سٹیج پر جاتی ہیں تو ان کے فین خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔