انڈیا کے شہر ممبئی کی ایک معروف سیاسی شخصیت بابا صدیقی کو سنیچر کی شب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ بابا صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بالی وڈ کے کئی اداکاروں سے دوستی تھی اور وہ ماہِ رمضان کے دوران اپنی بڑی افطار پارٹیوں کے لیے بھی مشہور تھے۔
انڈیا کے شہر ممبئی کی ایک معروف سیاسی شخصیت بابا صدیقی کو سنیچر کی شب گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا ہے۔ بابا صدیقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی بالی وڈ کے کئی اداکاروں سے دوستی تھی اور وہ ماہِ رمضان کے دوران اپنی بڑی افطار پارٹیوں کے لیے بھی مشہور تھے۔
ممبئی پولیس کے مطابق سنیچر کی شب قریب ساڑھے نو بجے باندرہ ایسٹ کے علاقے میں ان پر کئی راؤنڈ فائر کیے گئے۔ انھیں تشویشناک حالت میں لیلاوتی ہسپتال میں داخل کرایا گیا جہاں انھوں نے آخری سانسیں لیں۔
اس واقعے کے فوراً بعد انڈیا کی مغربی ریاست مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے ایک پریس کانفرنس میں بابا صدیقی کی موت کی تصدیق کی اور کہا کہ اس معاملے میں دو لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ ایک ملزم مفرور ہے۔ ان کے مطابق گرفتار کیے جانے والوں میں سے ایک شخص کا تعلق ریاست ہریانہ سے ہے جبکہ دوسرے کا ریاست اتر پردیش سے ہے۔
وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے نے کہا: ’سابق وزیر بابا صدیقی پر جان لیوا حملہ ہوا تھا۔ بدقسمتی سے وہ فوت ہو گئے۔ یہ انتہائی افسوسناک واقعہ ہے۔۔۔ پولیس ٹیم تیسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے کوشاں ہے۔ تینوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘
بابا صدیقی نے رواں سال کانگریس پارٹی کو چھوڑ کر نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی اجیت پوار گروپ) میں شمولیت اختیار کی تھی۔
انڈیا میں حزب اختلاف کے رہنما راہل گاندھی نے بابا صدیقی کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ انھیں اس واقعے پر انتہائی افسوسناک ہے۔
’میرے جذبات اس مشکل وقت میں ان کے خاندان کے ساتھ ہیں۔ یہ ہولناک واقعہ مہاراشٹر میں امن و امان کی مکمل تباہی کو بے نقاب کرتا ہے۔ حکومت کو ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔‘
ریاست کے نائب وزیر اعلی اجیت پوار نے ایکس پر لکھا کہ ’میں نے ایک اچھے ساتھی اور دوست کو کھو دیا ہے۔ میں اس بزدلانہ حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں۔ میں بابا صدیقی کو دلی خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔'
پولیس کی تفتیش
پولیس نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ساڑھے نو بجے رات کو نرمل نگر کے ایک کیمپس میں یہ واقعہ رونما ہوا اور اس معاملے میں دو مشتبہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ اس کی جانچ ممبئی پولیس کی کرائم برانچ کر رہی ہے۔
انڈین میڈیا کے مطابق پولیس بابا صدیقی کے قتل کے معاملے کی دو زاویوں سے جانچ کر رہی ہے، ایک بشنوئی گینگ اور دوسرا کچی آبادیوں سے متعلق ہے۔ خیال رہے کہ لارنس بشنوئی گینگ کا نام اس سے قبل ادکار سلمان خان کو جان سے مارنے کی دھمکیوں اور حملے میں سامنے آتا رہا ہے۔
بابا صدیقی کی سٹار سلمان خان سے قربت کی وجہ سے بشنوئی گینگ کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ متاثرہ کے قریبی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ انھیں 15 دن پہلے جان سے مارنے کی دھمکی ملی تھی اور اس کے بعد انھیں 'وائی' کیٹیگری کی سکیورٹی فراہم کی گئی تھی۔
لیکن ان دھمکیوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہ ہو سکی ہے۔ مرکزی ایجنسیاں ممبئی پولیس کے ساتھ رابطے میں ہیں جبکہ گجرات اور دہلی کے پولیس اہلکار بھی معاملے کی تحقیقات میں شامل ہیں۔
بابا صدیق: بالی وڈ اور سیاست دونوں میں ہی جانا پہچانا نام
13 ستمبر سنہ 1958 کو بہار کے دارالحکومت پٹنہ میں پیدا ہونے والے بابا صدیقی کا پورا نام ضیا الدین صدیقی تھا لیکن وہ فلم نگری ممبئی میں بابا صدیقی کے نام سے مشہور ہوئے۔
وہ طالبعلمی کے زمانے میں ہی کانگریس سے منسلک ہوگئے اور باندرہ سے 1980 میں کانگریس کی طلبہ ونگ این ایس یو آئی کے جنرل سیکریٹری منتخب ہوئے۔
وہ تین بار باندرہ ویسٹ سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے اور 2004 سے 2008 کے درمیان فوڈ اینڈ سول سپلائیز اور لیبر اینڈ ایف ڈی کے وزیر رہے۔
اس سے قبل سنہ 1992 سے 1997 کے درمیان وہ مسلسل دو بار ممبئی سوک باڈی کے کارپوریٹر منتخب ہوئے۔
سنہ 2017 میں ای ڈی نے منی لانڈرنگ کیس میں باندرہ میں بابا صدیقی سے منسلک مقامات پر چھاپے مارے جس کے بعد وہ سیاسی طور پر زیادہ فعال نہیں رہے جبکہ ان کے بیٹے ذیشان صدیقی کو زیادہ متحرک اور فعال دیکھا جانے لگا۔
سنہ 2014 میں بابا صدیقی باندرہ ایسٹ سے انتخابات ہار گئے لیکن سنہ 2019 میں ان کے بیٹے ذیشان صدیقی نے وہاں سے جیت حاصل کی۔
اگرچہ بابا صدیقی کو ریاستی سطح پر ایک سیاست دان اور کانگریس کے سرگرم رکن کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن قومی سطح پر وہ بالی وڈ سے اپنی قربتوں اور اپنی افطار پارٹی کے لیے زیادہ مشہور رہے۔
ہر سال رمضان کے مہینے میں منعقد ہونے والی ان کی افطار پارٹی سیاسی رہنماؤں اور بالی وڈ سیلبریٹیز کی شرکت کی وجہ سے خبروں کی زینت بنتی تھی۔
اداکار شاہ رخ خان اور سلمان خان کے درمیان پانچ سال سے ناچاقی رہی تھی اور دونوں کسی تقریب میں ساتھ بالکل نہیں نظر آتے تھے۔
لیکن پھر کہا جاتا ہے کہ بابا صدیقی کی کوششوں سے دونوں نے اپنے اختلافات بھلا کر ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ سنہ 2013 کے دوران ایک افطار پارٹی پر دونوں کے بغلگیر ہونے کا منظر سامنے آيا۔
اس کے بعد یہ دونوں اداکار مسلسل ایک ساتھ نظر آتے ہیں اور ایک دوسرے کی تعریف میں کوئی کسر نہیں رکھتے ہیں۔
'انسان دوست سیکولر رہنما'
ان کی موت پر بالی وڈ بھی غمزدہ ہے۔ سوشل میڈیا پر انھیں انسان دوست اور سیکولر رہنما کے طور پر یاد کیا جا رہا ہے۔
سابق وزیر اعلی کے بیٹے اور اداکار رتیش دیشمکھ نے ایکس پر لکھا: 'بابا صدیقی جی کی المناک موت کے بارے میں جان کر بے حد غمزدہ ہوں اور صدمہ پہنچا ہے۔
’میرا دل ذیشان اور پورے خاندان کے لیے غمزدہ ہے۔ خدا ان کو اس مشکل وقت میں ہمت اور حوصلہ دے۔ اس بھیانک جرم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔'
سیم خان نامی ایک صارف نے لکھا: 'بابا صدیقی حقیقی معنوں میں سیکولر رہنما تھے۔ وہ کبھی مسلمان لیڈر نہیں تھے۔ شاید انھوں نے مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں کے لیے کیا لیکن آج ہر کوئی انھیں مسلم لیڈر کے طور پر یاد کر رہا ہے۔ وہ بالی وڈ کی افطار پارٹیوں کے لیے جانے جاتے تھے لیکن وہ گنیش چترتھی اور دیوالی میں بھی شامل رہتے تھے۔'
ایک دوسرے صارف نے لکھا کہ صرف 'دس گھنٹے پہلے انھوں نے (ہندوؤں کے تہوار) دسہرہ کی مبارکباد دی، گنپتی ویسرجن کرتے تھے، ہر ہندو تہوار میں حصہ لیا۔ سب سے زیادہ سیکولر تھے اور آج جب وہ نہیں رہے تو اس کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی ہے، کم از کم مرنے والوں کو تو سکون سے رہنے دو۔'
لوگ ان کی افطار پارٹیز کو بھی لوگ یاد کر رہے ہیں جس میں عامر خان، سلمان خان اور شاہ رخ خان کے علاوہ سنیل دت، سنجے دت، پریا دت وغیرہ بھی شرکت کیا کرتے تھے۔
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے رہنما اور رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے جہاں ان کی موت پر دکھ کا اظہار کیا ہے وہیں انھوں ریاست میں امن و امان کی بگڑتی صورت حال پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ان کی ہی طرح ایک صارف سیف پٹیل نے لکھا: 'بابا صدیقی کو باندرہ میں قتل کر دیا گیا تھا - ممبئی کے سب سے زیادہ پوش / اشرافیہ علاقوں میں سے ایک میں۔ ان کے پاس 'وائی' کیٹيگری کی سیکورٹی کوور تھی۔
’کیا اس سے امن و امان کی مکمل تباہی اور مہاراشٹر میں صدر راج کے نفاذ کی فوری ضرورت کی نشاندہی نہیں ہوتی ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ کیا ہوگا۔‘