خلیجی ریاست کی وزارت خارجہ نے واضح کیا ہے کہ قطر نے اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی کے لیے مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرنے کے عمل کو اس وقت تک معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جب تک فریقین مذاکرات میں ’آمادگی اور سنجیدگی‘ کا مظاہرہ نہیں کرتے۔
غیر ملکی خبرر ساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق وزارت خارجہ کے ترجمان ماجد الانصاری نے ایک بیان میں کہا کہ قطر نے 10 روز قبل اسرائیل اور حماس کو مطلع کیا تھا کہ اگر انہوں نے اس دوران کوئی معاہدہ نہیں کیا تو قطر فریقین کے درمیان ثالثی کو کوششیں روک دے گا۔
ایک سفارتی ذرائع نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ حماس اور اسرائیل ’نیک نیتی‘ سے مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں جس کے بعد قطر نے بطور ثالث دستبرداری اختیار کرنے کا فیصلہ کرلیا۔
دوسری جانب، غزہ میں جنگ میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں، گزشتہ روز سول ڈیفنس ایجنسی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم 14 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔
قطر 2012 سے امریکا کی مدد سے حماس کی سیاسی قیادت کی میزبانی کی ہے اور خلیجی ریاست نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے طویل سفارت کاری بھی کی۔
غزہ کے وزارت صحت کے مطابق اسرائیلی مظالم میں اب تک 43 ہزار 500 فلسطینی شہید ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے جب کہ اس جنگ میں ایک لاکھ سے زائد شہری زخمی اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے ایک تازہ رپورٹ میں اسرائیل کی جانب سے اکتوبر 2023 کے بعد سے بین الاقوامی قوانین کی متعدد خلاف ورزیوں کی تفصیلات پیش کیں۔
اقوام متحدہ نے صہیونی فورسز کے ہاتھوں عام شہریوں کی اموات میں حیران کن اضافے کی مذمت کی اور یہ تصدیق کی کہ صہیونی فورسز کی کارروائیوں کے نتیجے میں بڑی تعداد میں غزہ کے شہری شدید متاثر ہوئے ہیں، شہید ہونے والوں میں 70 فیصد خواتین اور بچے شامل ہیں۔
یاد رہے کہ قاہرہ اور واشنگٹن کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات میں نومبر 2023 میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے بعد سے بار بار تعطل کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ دوحہ پہلے ہی اسرائیل اور حماس کے ساتھ ساتھ امریکی انتظامیہ کو بھی اپنے فیصلے سے آگاہ کر چکا ہے۔
خلیجی ریاست کی جانب سے امریکی انتظامیہ کو کہا گیا کہ جب دونوں فریق ثالثی میں دوبارہ شامل ہوں گے تو وہ اس کے لیے تیار ہوں گے۔
حماس کا سیاسی دفتر
ذرائع کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق مذاکرات تعطل کا شکار ہونے کے بعد دوحہ میں حماس کا سیاسی دفتر ’اب اپنے مقصد کو پورا نہیں کر سکے گا‘۔
ذرائع نے یہ واضح نہیں کیا کہ آیا قطر فلسطین کی مزاحمتی تنظیم حماس کے رہنماؤں کو ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کرے گا یا نہیں۔
دوحہ میں حماس کے ایک سینئر عہدیدار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمیں قطر چھوڑنے کی کوئی درخواست موصول نہیں ہوئی ہے۔‘
گزشتہ سال نومبر میں قیدیوں کے تبادلے کے بعد ہونے والی مختصر جنگ بندی کے باوجود مذاکرات کے ایک کے بعد ایک دور جنگ کے خاتمے میں ناکام رہے ہیں۔
امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت کے اختتام اور رواں ہفتے ہونے والے امریکی انتخابات سے قبل تعطل کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن اور دوحہ نے گزشتہ ماہ نئے آپشنز تلاش کرنے کے لیے نئے مذاکرات کا اعلان کیا تھا۔
سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ مذاکرات میں موجود خلا کو پر کرنے کے لیے فریقین آمادہ نہیں ہیں۔
واضح رہے کہ حماس کی جانب سے سیز فائر اور قیدیوں کے تبادلے کے تازہ مسودے کو مسترد کیے جانے کے بعد امریکا نے قطر سے کہا ہے کہ قطر میں اب حماس کی موجودگی قابل قبول نہیں ہے۔
سینئر امریکی عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یرغمالیوں کی رہائی کی تجاویز بار بار مسترد کیے جانے کے بعد امریکا کے پارٹنرز میں سے کسی کے بھی دارالحکومت میں حماس اور ان کے حامیوں کا خیرمقدم نہیں کیا جانا چاہیے، حماس کی جانب سے قیدیوں کی رہائی کی تجویز مسترد کیے جانے کے بعد ہم نے یہ بات قطر پر واضح کر دی تھی۔