میرے کردار کو خراب کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔۔ نازیبا وائرل ویڈیو کے متعلق متھیرا نے اور کیا کہا؟

image

"لوگ میرے نام اور میری فوٹو شوٹ تصویروں کا غلط استعمال کر رہے ہیں اور اس میں جعلی چیزیں شامل کر رہے ہیں، شرم کریں اور مجھے اس فضول بکواس سے دور رکھیں۔ یہ AI سے تیار کردہ ویڈیوز ہیں، درحقیقت میں ان گندی ویڈیو میں موجود نہیں۔ میرے جسم اور انگلیوں پر سب جگہ ٹیٹوز ہیں۔ یہ 2 سال پرانی ویڈیوز ہیں جس کی وجہ سے مجھے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا، اور اس حوالے سے ایف آئی اے سے بھی رابطہ کیا تھا۔ براہ کرم جعلی ویڈیوز کے ذریعے میرے کردار کو خراب کرنے کی کوشش نہ کریں۔ میں نے کبھی بھی ایسی کوئی گندی ویڈیو نہیں بنائی۔ میری اسکرین پرسنالٹی کو خراب کرکے مجھے وہ بنا کر پیش نہ کریں جو میں نہیں ہوں۔"

حالیہ دنوں میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی نازیبا ویڈیوز کے حوالے سے متھیرا نے اپنا شدید ردعمل ظاہر کیا۔ متھیرا کا کہنا تھا کہ ان کے نام پر بنائی جانے والی یہ ویڈیوز محض جعلی اور مصنوعی انٹیلی جنس کی تخلیق ہیں۔ ان کا موقف ہے کہ یہ ویڈیوز محض ان کی بدنامی اور کردار کو خراب کرنے کی کوشش ہیں۔

انہوں نے سوشل میڈیا پر ٹویٹ کرتے ہوئے بتایا کہ کچھ لوگ ان کے فوٹو شوٹس کو توڑ مروڑ کر غلط مقاصد کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ مزید برآں، انسٹاگرام اسٹوری میں متھیرا نے اس بات کی وضاحت کی کہ وہ کسی ایسی ویڈیو کا حصہ نہیں ہیں اور ان کے جسم پر موجود ٹیٹوز اس بات کا واضح ثبوت ہیں۔

یہ معاملہ ان کے لیے پرانا ہے، جس سے وہ پہلے ہی ایف آئی اے کے ذریعے نمٹنے کی کوشش کر چکی ہیں۔ متھیرا نے عوام سے اپیل کی ہے کہ ان کے بارے میں پھیلائی جانے والی جھوٹی معلومات اور ان کے کردار پر حملے سے باز رہا جائے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کی مہمات کے ذریعے ان کی شخصیت کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا ناقابل قبول ہے۔


About the Author:

Khushbakht is a skilled writer and editor with a passion for crafting compelling narratives that inspire and inform. With a degree in Journalism from Karachi University, she has honed her skills in research, interviewing, and storytelling.

مزید خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.