خواتین کا الزام ہے کہ صلاح الفائد نے 1989 اور 1997 کے درمیان لندن میں، فرانس کے کسی جنوبی علاقے میں اور موناکو میں انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے ایک کا دعویٰ ہے کہ صلاح نے انھیں کوئی نشہ آور چیز دے کر ان کا ریپ کیا ہے۔
انتباہ: مذکورہ تحریر میں جنسی تشدد سے متعلق تفصیلات بعض قارئین کے لیے تکلیف دہ ہو سکتی ہیں۔
ہیرڈز ڈپارٹمنٹ سٹور کی تین سابق ملازمین نے برطانوی ارب پتی محمد الفائد کے ایک بھائی صلاح فائد کے خلاف الزامات عائد کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے ان خواتین کے ساتھ جنسی تشدد اور سمگلنگ سمیت ان کا ریپ کیا تھا۔
خواتین کا الزام ہے کہ صلاح الفائد نے 1989 اور 1997 کے درمیان لندن میں، فرانس کے کسی جنوبی علاقے میں اور موناکو میں انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان میں سے ایک کا دعویٰ ہے کہ صلاح نے انھیں کوئی نشہ آور چیز دے کر ان کا ریپ کیا ہے۔
تینوں خواتین کا کہنا ہے کہ کمپنی کے اُس وقت کے چیئرمین محمد الفائد نے بھی ان کے ساتھ جنسی تشدد یا ریپ کیا تھا۔
پانچ اور خواتین نے محمد الفائد پر ملازمت کے دوران ریپ کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ یاد رہے کہ مصر سے تعلق رکھنے والے محمد الفائد گذشتہ سال 94 برس کی عمر میں وفات پا گئے تھے تاہم بی بی سی نے 20 سے زیادہ ایسی خواتین سے بات کی، جن کے مطابق محمد الفائد نے ہیرڈز میں ملازمت کے دوران انھیں مبینہ طور پر ریپ سمیت جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا۔
سنہ 2010 میں ہیرڈز کی ملکیت بدل گئی تھی۔ کمپنی کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ محمد الفائد کے خلاف سامنے آنے والے یہ نئے الزامات ’تشدد کی وسعت‘ اور ان کے بھائی کے خلاف ’سنگین الزامات‘ کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
صلاح الفائد کی 2010 میں لبلبے کے کینسر کی وجہ سے موت ہو گئی تھی۔ وہ محمد الفائد کے تین بھائیوں میں سے ایک تھے جنھوں نے 1985 میں لگژری ’نائٹس برج‘ ڈپارٹمنٹل سٹور خریدا تھا۔
ان تین خواتین میں سے ایک ہیلن نے اپنی شناخت ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ وہ 23 سال کی تھیں اور تقریباً دو سال سے ہیرڈز میں اپنے ’خوابوں کی نوکری‘ کر رہی تھیں جب محمد الفائد نے دبئی کے ہوٹل کے کمرے میں ان کا ریپ کیا۔
تاہم جب مہینوں بعد محمد الفائد نے انھیں اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کے لیے کہا تو انھیں لگا کہ اب ان کی محمد الفائد سے جان چھوٹ جائے گی۔
تاہم انھوں نے دعویٰ کیا کہ صلاح فائد نے انھیں کوئی نشہ آور چیز دے کر بے ہوش کر دیا جس کے بعد اُن کا ماننا ہے کہ صلاح الفائد نے ان کا ریپ کیا۔
ہیلن نے کہا کہ ’وہ (محمد الفائد) مجھے اپنے بھائی کے ساتھ شیئر کر رہے تھے۔‘
ہیلن پچھلے 35 سالوں سے چُپ رہیں اور اب پہلی دفعہ اس موضوع پر بات کر رہی ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہہیرڈز کے ساتھ ایک معاہدے پر ان سے دستخط کروائے گئے تھے جس کے مطابق وہ معلومات کو راز رکھنے کی پابند تھیں۔
بی بی سی نے آزادانہ طور پر دو اور خواتین سے بات کی جن کا کہنا ہے کہ انھیں محمد الفائد اور صلاح الفائد دونوں نے مبینہ طور پر جنسی تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
انھوں نے کہا کہ صلاح الفائد نے انھیں بیرون ملک سمگل کیا اور انھیں دھوکا دے کر کوکین کا نشہ بھی کروایا۔
ان میں سے ایک خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ کوشش کر رہے تھے کہ مجھے کوکین کی لت لگ جائے تاکہ وہ میرے ساتھ کچھ بھی کر سکیں۔‘
بی بی سی کو کئی خواتین نے بتایا ہے کہ محمد الفائد نے انھیں جنسی تشدد کا شکار بنایا تھا۔ ہیلن کا کہنا ہے کہ ان ہی خواتین کی طرح انھیں بھی محمد الفائد نے معمول کے مطابق ہیرڈز میں چہل قدمی کرنے کے دوران دیکھا تھا۔
فروری 1989 میں جب ہیلن اور ان کی ٹیم محمد الفائد کے ساتھ بزنس کے دورے پر دبئی اور ابو ظہبی گئے تو ہیلن کو یہ جان کر بہت گھبراہٹ ہوئی کہ وہ محمد الفائد کے ساتھ تنہا سفر کریں گی اور ان کے ہوٹل کے کمرے میں رکیں گی جبکہ ان کی باقی ٹیم اپنے الگ الگ کمروں میں رکے گی۔
پہنچنے کے بعد سونے سے پہلے جب ہیلن باتھ روم گئیں تو انھیں اچانک سے آئینے میں اپنے پیچھے محمد الفائد نظر آئے۔
انھوں نے بتایا کہ ’ایسا لگا کہ یہ کوئی ڈراؤنی فلم ہے۔ میں اپنے نائٹ سوٹ میں تھی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور مجھے اپنی طرف گھسیٹا اور باتھ روم سے نکالنے لگے۔ میں انھیں روکنے کی کوشش کرتی رہی لیکن روک نہ سکی۔‘
انھوں نے بتایا کہ محمد الفائد انھیں اپنے کمرے میں لے گئے اور انھیں بستر پر دھکیل دیا اور ان کے اوپر چڑھ گئے۔
’انھوں نے اس رات میرا ریپ کیا۔‘
ہیلن نے بتایا کہ وہ ایک انجان ملک میں تھیں اور گھر سے اتنی دور تھیں۔ وہ بہت خوفزدہ تھیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا اس کے بارے میں کسی سے بات نہیں کر پا رہی تھیں۔
انھوں نے بتایا کہ اس دورے کے دو ماہ بعد ہیرڈز کی جانب سے ان سے ایک ’نان ڈسکلوژر ایگریمنٹ‘ (رازا افشا نہ کروانے والے معاہدے) پر دستخط کروایا گیا۔ بی بی سی نے یہ دستاویز دیکھا ہے۔
ہیلن نے کہا کہ اس دستاویز کی وجہ سے اور انتقام کے ڈر سے انھوں نے تین دہائیوں سے زیادہ اس بارے میں خاموشی اختیار کر رکھی تھی۔
اگلے چند مہینوں میں ہیلن نے ہیرڈز چھوڑنے کا منصوبہ بنانا شروع کر دیا۔ انھوں نے کہا کہ ’میں ان کا چہرہ دوبارہ نہیں دیکھنا چاہتی تھی۔‘
اس لیے جب محمد الفائد نے اُن سے اپنے بھائی صلاح کے لیے پارک لین والے گھر پر فائلنگ کا کام کرنے کے لیے کہا تو ہیلن کو لگا کہ انھیں یہاں سے بچ نکلنے کا ایک موقع مل گیا ہے۔
’میں صلاح سے ملی ہوئی تھی اور وہ بااخلاق لگ رہے تھے۔ وہ اپنے بھائی سے بہت مختلف لگ رہے تھے۔‘
ہیلن یاد کرتی ہیں کہ صلاح فائد کے ساتھ دو دن کام کرنے کے بعد اںھوں نے اُن کا شکریہ ادا کرنے کے لیے انھیں شیمپین کا گلاس پیش کیا تھا۔
’کچھ گھونٹ لے کر ہی مجھے چکّر سے آنے لگے لیکن میں اسے نشے کی حالت نہیں کہہ سکتی۔ مجھے چکّر آ رہے تھے اور بہت عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ اس وقت صلاح فائد نے موسیقی لگا دی، جس پر ہیلن کو لگا کہ ’اب واقعی جانے کا وقت آ گیا ہے کیونکہ وہ قریب آنے کی کوشش کر رہے تھے۔‘
ہیلن کہتی ہیں کہ صلاح نے ان پر دباؤ ڈالا کہ وہ کریک کوکین استعمال کر لیں۔
’وہ کہہ رہے تھے کہ تمھیں بہتر محسوس ہو گا۔ میری یادداشت میں اُس رات کے بارے میں یہ آخری چیز ہے۔‘
اس رات کے بعد جب دوسرے دن وہ نیند سے بیدار ہوئیں تو وہ ایک مختلف کمرے میں تھیں۔ انھیں دھندلا دکھائی دے رہا تھا اور ان کا پورا جسم تھرتھرا رہا تھا۔ صلاح الفائد پانی کا گلاس لیے ان کے قدموں میں بیٹھے ہوئے تھے۔
ہیلن کہتی ہیں کہ صلاح الفائد ’گھبرائے ہوئے‘ لگ رہے تھے۔
جب وہ اٹھیں تو انھوں نے دیکھا کہ ان کی جینز کا بٹن کھلا ہوا تھا اور ان کی بیلٹ غائب تھی۔ ہیلن کو یاد پڑتا ہے کہ انھیں اپنی ٹانگوں میں کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔
’یہ صرف اسی جگہ نہیں تھا بلکہ ایک اور جگہ بھی تھا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اس وقت مجھے معلوم ہو گیا کہ کیا ہوا ہے۔ مجھے پتہ چل گیا تھا۔‘
ہیلن نے بتایا کہ صلاح فائد نے ان کے سامنے اپنے بھائی محمد الفائد کو فون کیا اور اُن سے کہا کہ ہیلن آج کام پر نہیں آئیں گی۔ انھوں نے عربی میں یہ باتیں کیں جبکہ ہیلن کو صرف یہ سنائی دیا کہ ’وہ دونوں قہقہے لگا رہے تھے۔‘
کیونکہ ہیلن کو ابھی بھی نشہ آور مواد کے اثرات محسوس ہو رہے تھے تو انھیں اپنے فلیٹ پیدل واپس جانے کے لیے مدد کی ضرورت تھی۔
صلاح الفائد ان کے ساتھ چلے گئے لیکن چلتے چلتے انھوں نے کہا کہ ایک دوست سے ملاقات کرتے ہوئے چلتے ہیں۔
ہیلن کہتی ہیں کہ انھیں یاد ہے صلاح فائد کے دوست نے ان سے پہلی چیز یہ کہی تھی ’ہائے ہیلن۔ آپ کی آج کی صبح کیسی ہے؟‘
وہ کہتی ہیں کہ وہ اس شخص کو نہیں جانتی تھیں۔ انھوں نے صلاح فائد کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ کہتی ہیں کہ صلاح فائد نے کہا: ’اِنھوں نے تمہیں کل رات کو دیکھا تھا۔‘
ہیلن نے فیصلہ کیا کیا کہ وہ وہاں سے فوراً چلی جائیں۔
’میں بس اکیلے رہنا چاہتی تھی۔ میں نے جیسے ہی اندر جا کر اپنے کمرے کا دروازہ بند کیا تو مجھے دونوں مردوں کے ہنسنے کی آواز آئی۔‘
ہیلن کو لگتا ہے کہ صلاح کے دوست نے بھی اُن کا اُس رات ریپ کیا تھا جب وہ بے ہوش تھیں۔ انھیں یقین تھا کہ ریپ کہ دوران ناصرف ان کے ساتھ ویجنل بلکہ اینل ریپ کا نشانہ بھی بنایا گیا۔‘
'اس سے زیادہ مشکل کوئی چیز میں نے آج تک نہیں کہی ہو گی۔'
اس واقعہ کے تھوڑے عرصے بعد ہی انھوں نے ہیرڈز سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
ہیرڈز میں کام کرنے والی دو اور خواتین کا ماننا ہے کہ انھیں مناکو اور فرانس کے جنوب اس لیے بھیجا گیا تاکہ صلاح ان کے ساتھ جنسی تشدد کریں۔ آج کے دور میں اسے انسانی سمگلنگ کہیں گے کیونکہ اں خواتین کو ایک اچھی نوکری کے خواب دکھائے گئے اور پھر ان پر جنسی تشدد کیا گیا۔
ریچل بتاتی ہیں کہ وہ 23 برس کی تھیں اور 1994 میں محمد الفائد کے نجی دفتر میں کام کر رہی تھیں۔ اس دوران ہیرڈز ’ہیومن ریسورسز‘ کی ٹیم نے انھیں بلایا اور صلاح فائد کی پرسنل اسسٹنٹ کے طور پر کام کرنے کی پیشکش کی۔
جب انھوں نے نوکری شروع کی تو ریچل بتاتی ہیں کہ انھیں کوئی ’پرسنل اسسٹنٹ‘ والی ذمہ داری نہیں دی گئی بلکہ انھیں ایسا محسوس ہوا کہ وہ صلاح فائد کی ’ساتھی‘ ہیں۔ وہ ان کے ساتھ دعوتوں میں جاتی تھیں اور صلاح فائد سے ان کی ’جان پہچان‘ بڑھ رہی تھی۔
ریچل بتاتی ہیں کہ ایک رات موناکو میں وہ ’خوفزدہ‘ ہو کر نیند سے اٹھیں اور انھوں نے دیکھا کہ صلاح محمد انھیں بستر میں لِٹا رہے تھے۔
وہ ڈر کے مارے اپنی جگہ سے نہیں ہلیں اور پوری رات جاگتی رہیں۔ دوسری صبح صلاح الفائد وہاں سے چلے گئے۔
ریچل بتاتی ہیں کہ جب تک وہ بطور پرسنل اسسٹنٹ صلاح کے ساتھ کام کرتی رہیں تب تک صلاح فائد انھیں بڑی عمر کے آدمیوں سے ملاتے رہے اس انداز میں کہ انھیں ’سیکس کے لیے پیش کر رہے ہوں۔‘
وہ اب سوچتی ہیں کہ ’کیا میں وہاں صرف ایک آدمی سے دوسرے آدمی کو دینے کے لیے گئی ہوئی تھی؟‘
ریچل بتاتی ہیں کہ صلاح فائد ان پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ وہ ’ہبلی ببلی‘ پیئیں۔ یہ ایک ہُکا پائپ ہے جس میں ذائقہ دار تمباکو شامل ہوتا ہے۔
بعد میں ریچل کو معلوم ہوا کہ اس میں کریک کوکین شامل تھی۔
ریچل کہتی ہیں کہ انھیں لگتا ہے صلاح فائد کا ارادہ تھا کہ ریچل کو نشے کا عادی بنا دیں تاکہ انھیں جنسی تشدد کا نشانہ بنانا آسان ہو جائے۔
ریچل کو بتایا گیا تھا کہ اگر انھیں صلاح فائد کے ساتھ کام کرنا پسند نہ آئے تو وہ ہیرڈز واپس جا سکتی ہیں۔
وہ واپس لندن چلی گئیں لیکن 18 مہینے بعد انھیں محمد الفائد نے اپنے پارک لین والے گھر بلایا جہاں انھوں نے ریچل پر جنسی تشدد کیا۔
تیسری خاتون جنھیں ہم ربیکا کا نام دے رہے ہیں کا کہنا تھا کہ محمد الفائد نے اپنے پارک لین والے گھر میں اُن پر جنسی تشدد کیا۔ یہ سنہ 1997 کی بات ہے جب اُن کی عمر 19 برس تھی اور وہ ہیرڈز میں کام کر رہی تھیں۔
بعد میں انھیں بھی موناکو جانے کے لیے کہا گیا۔ انھیں صلاح فائد کے لیے بطور پرسنل اسسٹنٹ نوکری دی گئی لیکن جب وہ صلاح فائد کے پاس پہنچیں تو انھیں معلوم ہوا کہ ان کے پاس کوئی خاص کام نہیں ہے۔
وہ یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ صلاح فائد نے اپنے بھائی محمد الفائد کو فون ملایا۔ محمد الفائد نے فون پر اُن سے کہا کہ ’میرا بھائی آپ کا خیال تو رکھ رہا ہے نا؟‘
فون کال کے اختتام پر انھوں نے ربیکا سے کہا کہ ’بس تفریح کرو۔‘
ریبیکا یاد کرتی ہیں انھیں ’بہت عجیب سا محسوس ہوا۔‘
’ایسا لگا کہ میں کسی نوکری کے لیے نہیں گئی بلکہ اصل میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہوں۔‘
ربیکا کہتی ہیں کہ موناکو میں صلاح فائد نے اپنے اپارٹمنٹ میں بلا کر اُن پر دباؤ ڈالا کہ وہ صلاح کے ساتھ نہاںے والے ٹب میں بیٹھیں اور پھر اُن کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ صلاح فائد نے ان پر دباؤ ڈالہ کہ وہ ہُکے میں کوئی ’ٹری ریزن‘ نامی مواد کا نشہ کریں۔ در حقیقت، وہ کریک کوکین تھی۔
ہیرڈز کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ 'ہم ان (جنسی جرائم کا نشانہ بن جانے والوں) کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ آگے آئیں اور ہیرڈز سکیم میں حصہ لیں اور اپنے دعوے پیش کریں۔ وہ معاوضے کے لیے درخواست دے سکتے ہیں اور ساتھ ہی نفسیاتی کونسلنگ کے علاوہ اپنے ہی جسیے ایک اور آزاد ایڈوکیٹ سے سپورٹ حاصل کریں۔'
بیان میں کہا گیا کہ ہیرڈز اِن لوگوں کو انصاف دلوانے کی ہر ممکن طریقے سے کوشش کرنا چاہتا ہے۔ اس میں پولیس سے لے کر 'فائد خاندان اور ایسٹیٹ' بھی شامل ہیں۔
ہیرڈز میں گزارے ہوئے اپنے آخری دنوں کو یاد کرتے ہوئے ہیلن بتاتی ہیں کہ ایک دن ایک نئی لڑکی نے وہاں نوکری شرور کی۔
انھوں نے بتایا کہ 'وہ جوان تھی اور بہت بھولی تھی' جیسے ایک زمانے میں وہ ہوا کرتی تھیں۔ اپنی شِفٹ کے آخر میں انھوں نے اُس لڑکی کو خبردار کیا اور اسے محمد فائد کے بارے میں آگاہ کیا۔
’میں نے اسے بتایا کہ (محمد الفائد) اس کے ساتھ سیکس کرنے کی کوشش کریں گے۔ اسے چھوئیں گے اور اُس پر دباؤ ڈالیں گے۔ میں نے اسے بتایا کہ انھوں نے میرا ریپ کیا تھا۔ وہ خوفزدہ ہو گئی تھی لیکن مجھے آج تک نہیں معلوم کہ اس نے نوکری چھوڑ دی تھی یا نہیں۔‘
ہیلن بتاتی ہیں کہ نوکری چھوڑتے وقت انھیں کچھ رقم دی گئی تھی جو انھیں ’سیورنس پیکچ‘ لگا لیکن اب وہ سوچتی ہیں کہ یہ رقم انھیں خاموش رہنے کے لیے دی گئی تھی۔
انھوں نے کہا کہ وہ سمجھ رہی تھیں کہ ہیرڈز میں نوکری ان کے خوابوں کو پورا کر دے گی لیکن اس نے تو انھیں زندگی بھر کا صدمہ ہی دے دیا۔
’میرے ساتھ جو ہوا مجھے اس کے بارے میں بات کرنے کے لیے 35 سال لگ گئے۔ میں کچھ بولنے سے اتنا زیادہ ڈرتی تھی۔ میں جنسی جرائم کے متاثرین کے لیے کھڑی ہونا چاہتی ہوں پھر چاہے وہ گھر میں ہوں یا کسی کمپنی میں۔ میں چاہتی ہوں کہ انھیں معلوم ہو جائے کہ وہ بھی اپنے لیے آواز اٹھا سکتے ہیں۔‘