گذشتہ روز روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد اور شرائط طے کیے تھے جن کے تحت اب روس اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرے گا۔
گذشتہ روز روسی صدر ولادیمیر پوتن نے روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں تبدیلیوں کی منظوری دیتے ہوئے نئے قواعد اور شرائط طے کیے تھے جن کے تحت اب روس اپنے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا فیصلہ کرے گا۔
روس کی جانب سے یہ اہم تبدیلیاں واشنگٹن کے اس فیصلے کے بعد سامنے آئی ہیں جس میں یوکرین کو روس میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائل فائر کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
روس کے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے اصول میں ترمیم ستمبر میں تجویز کی گئی تھی اور منگل کو یوکرین کے ساتھ جنگ کے ایک ہزارویں دن پر اس پر مہر ثبت کی گئی ہے۔
یاد رہے کہ روس نے گذشتہ روز امریکی صدر جو بائیڈن کے اس اقدام پر ’مناسب اور ٹھوس‘ ردعمل کی تنبیہ کی تھی جس میں یوکرین کو اے ٹی اے سی ایم ایس میزائل کو روس کے اندر استعمال کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
روس کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ روسی سرزمین کے اندر اس طرح کا حملہ ’امریکہ اور اس کی حواری ریاستوں کی روس کے خلاف براہ راست جنگ میں شمولیت تصور کی جائے گی۔‘
خبررساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس کے مطابق دمتری پیسکوف نے کہا کہ نیا جوہری ڈاکٹرائن ’بروقت‘ شائع کیا گیا ہے اور پوتن نے اس سال کے اوائل میں اس کو اپ ڈیٹ کرنے کی درخواست کی تھی تاکہ اس کو موجودہ حالات سے ہم آہنگ بنایا جائے۔
آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ روس کا جوہری ڈاکٹرائن ہے کیا اور اس میں کیا تبدیلی کی گئی ہے؟
روس کا جوہری ڈاکٹرائن کیا ہے؟
کریملن کے مطابق روس کے جوہری ڈاکٹرائن پر پہلی بار صدر ولادمیر پوتن نے 2020 میں دستخط کیے تھے جبکہ اس کے تازہ ترین ورژن کی منگل کو منظوری دی گئی ہے۔
اس تازہ ڈاکٹرائن میں بتایا گیا ہے کہ روس کن حالات میں اپنے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتا ہے۔
سنہ 2022 میں جب سے روس نے یوکرین پر حملہ کیا ہے تب سے صدر پوتن اور کریملن کے دیگر اہم اشخاص نے اکثر مشرقی طاقتوں کو اپنے پاس موجود جوہری ہتھیاروں کے حوالے سے خبردار کیا ہے۔
تاہم کیئو کے اتحادی یوکرین کو اربوں ڈالر کے جدید ہتھیار دینے سے نہیں رکے اور ان میں سے کچھ ہتھیاروں کو روسی سرزمین پر استعمال کیا جا چکا ہے۔
تجدید شدہ دستاویز میں روس نے اپنے جوہری ہتھیاروں کو ڈیٹرینٹ (رکاوٹ پیدا کرنے کے ایک ذریعہ) کے طور پر بیان کیا ہے۔ دستاویز میں کہا گیا ہے کہ روس کی جانب سے ان کا استعمال ایک ’انتہائی اور مجبور اقدام‘ ہو گا۔ اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ روس جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے ’خطرے کو کم کرنے اور بین الریاستی تعلقات میں کشیدگی بڑھنے سے روکنے کے لیے تمام ضروری کوششیں کرتا ہے جو جوہری تنازعات سمیت فوجی تنازعات کو جنم دے سکتے ہیں۔‘
دستاویز کے مطابق اس طرح کی حکمت عملی ’ریاست کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت‘ کو برقرار رکھنے کے لیے کی گئی ہے تاکہ ممکنہ حملہ آور کارروائی کرنے سے باز رہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی بتائی گئی ہے کہ ’اگر کوئی فوجی تنازع جو کشیدگی اختیار کرنے لگے تو اسے ایسی شرائط کی بنا پر روکا جا سکے جو روس کے لیے قابل قبول ہوں۔‘
ڈاکٹرائن میں مزید کہا گیا ہے کہ روس کی جوہری طاقت کے استعمال کی سٹریٹجی کا مقصد ہے کہ ’کوئی بھی ممکنہ حریف روس اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کارروائی کرے تو اسے معلوم ہو کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا۔‘
دستاویز میں روس نے واضح نہیں کیا ہے کہ وہ جوہری ہتھیار کب اور کیسے استعمال کرے گا تاکہ مشرق کو روس کی اگلی چال کے بارے میں یقینی طور پر معلومات نہ ہوں۔
تاہم اس تجدید شدہ ڈاکٹرائن میں یہ ضرور بتایا گیا ہے کہ صدر پوتن روایتی جھڑپوں میں بھی جوہری ہتھیاروں کا استعمال کر سکتے ہیں۔
ڈاکٹرائن کی تبدیلیوں پر مہینوں سے کام ہو رہا تھا۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں ہے کہ منگل کو کیے جانا والا یہ اعلان امریکہ کے یوکرین کو روس کے خلاف طویل فاصلہ طے کرنے والے میزائل استعمال کرنے کی اجازت کے بعد کیا گیا ہے۔
نیوکلیئر ڈاکٹرائن میں تبدیلی کا کیا مطلب ہے؟
روس کی جانب سے جوہری ڈاکٹرائن میں کی گئی تازہ ترین تبدیلیوں کے مطابق اگر ایک غیرجوہری ریاست کو روس پر حملہ کرنے کے لیے ایک جوہری طاقت کی حمایت حاصل ہے، تو اسے روس پر مشترکہ حملہ تصور کیا جائے گا۔
اب ان تبدیلیوں کے تحت روس پر روایتی میزائلوں، ڈرونز یا ہوائی جہازوں سے بڑا حملہ روس کی جانب سے جوہری ردعمل کے معیار پر پورا اتر سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر بیلاروس پر حملہ ہو یا روس کی خودمختاری کو کوئی سنگین خطرہ لاحق ہو تو وہ جوہری ردعمل دے سکتا ہے۔
اس تبدیلیوں کے بعد روس کے خلاف کسی ایسے ملک کی جارحیت جو کسی اتحاد کا رکن ہو، ماسکو پورے گروپ کی طرف سے جارحیت تصور کرے گا۔
روس کے سرکاری خبر رساں ادارے تاس کے مطابق جوہری نظریے میں تبدیلیوں کے مطابق ممکنہ جوہری ردعمل کے دائرے میں آنے والے ممالک، اتحادوں، اور فوجی خطرات کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
صدر پوتن پہلے بھی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دے چکے ہیں جس پر یوکرین نے تنقید کرتے ہوئے اسے ’جوہری دھمکی‘ قرار دیا تھا اور اسے اپنے اتحادیوں کو مزید مدد فراہم کرنے سے روکنے کی روسی کوشش کہا تھا۔
تاہم روسی وزیر خارجہ سرگئی لارؤف نے کہا ہے کہ ’ہم اس بات کے سخت حامی ہیں کہ جوہری جنگ سے ہر حال میں بچا جائے۔‘
ریو ڈی جنیرو میں جی 20 اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس میں سرگئی لاروف نے کہاکہ اس گروپ نے جس میں روس بھی شامل ہے ایک اعلامیے پر دستخط کیے ہیں جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’ہم ایک ایسی دنیا کی طرف بڑھنا چاہتے ہیں جو جوہری ہتھیاروں سے پاک ہو۔‘
جوہری ڈاکٹرائن میں تبدیلی کے حوالے سے کریملن کے ترجمان نے کہا کہ دوسری اقوام ان تبدیلیوں کا بغور مطالعہ کریں۔
روسی خبر رساں ادارے تاس کے مطابق کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا کہ ’یہ ایک انتہائی اہم تحریر ہے اس کا بغور تجزیہ کریں۔‘
یوکرین کا روس پر امریکی ساختہ میزائل سے حملہ
امریکہ کی جانب سے یوکرین کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے امریکی ساختہ میزائلوں کے ذریعے روس پر حملوں کی اجازت دینے کے ایک دن بعد، یوکرین نے پہلی بار یہ میزائل روسی علاقے کے اندر کسی ہدف پر داغ دیے ہیں۔
امریکی حکام نے بی بی سی کے امریکی پارٹنر سی بی ایس نیوز کو یوکرین کی جانب سے روس کے خلاف کو آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم (Atacms) کے استعمال کی تصدیق کی۔
قبل ازیں روس کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ منگل کی صبح اس حملے میں شمال میں یوکرین کی سرحد سے متصل روس کے برائنسک کے علاقے کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
روسی وزارت دفاع نے بتایا کہ اس حملے میں پانچ میزائلوں کو مار گرایا گیا اور ایک میزائل کو نقصان پہنچا جبکہ اس کے کے ٹکڑوں سے علاقے میں موجود ایک روسی فوجی تنصیب میں آگ لگ گئی۔
روس کی وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا ہے کہ یوکرین کی جانب سے یہ میزائل حملہ مقامی وقت کے مطابق 03:25 پر کیا گیا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک میزائل سے گرے ملبے کی وجہ سے لگنے والی آگ کو فوری طور پر بجھایا گیا اور کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اس سے قبل یوکرین کی فوج نے تصدیق کی تھی کہ اس نے روسی علاقے برائنسک میں گولہ بارود کے گودام کو نشانہ بنایا تاہم اس نے یہ واضح نہیں کیا تھا کہ آیا ان میں آرمی ٹیکٹیکل میزائل سسٹم کا استعمال کیا گیا تھا۔
یوکرین کی فوج نے کہا تھا کہ روسی علاقے کراچیف کے قریب سرحد سے 100 کلومیٹر دور ایک اسلحہ ڈپو پر ہونے والے حملے میں 12 دھماکے ہوئے۔
ادھر روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاورؤف نے واشنگٹن پر تنازع کو بڑھانے کی کوشش کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’برائنسک کے خطے میں گذشتہ رات بار بار امریکی میزائلوں کا استعمال کیا گیا جو یقیناً اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ (امریکہ) کشدیدگی بڑھانا چاہتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’جیسا کے پوتن کئی بات کہہ چکے ہیں کہ امریکیوں کے بغیر، ان ہائی ٹیک میزائلوں کا استعمال ناممکن ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ روس ’یہ سمجھتے ہوئے آگے بڑھے گا‘ کہ ان میزائلوں کو ’امریکی فوجی ماہرین‘ چلا رہے ہیں۔
انھوں نے ریو ڈی جنیرو میں جی 20 کے اجلاس کے دوران ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اسے روس کے خلاف مغربی جنگ کے ایک نئے چہرے کے طور پر لیں گے اور ہم اس کے مطابق ردعمل ظاہر کریں گے۔‘
یاد رہے کہ یوکرین پہلے ہی ایک سال سے زیادہ عرصے سے روس کے زیر قبضہ یوکرینی علاقوں میں ان میزائلوں کا استعمال کر رہا ہے۔
یہ میزائل 300 کلومیٹر تک کے اہداف کو نشانہ بنا سکتے ہیں اور انھیں روکنا مشکل ہے۔
کیئو اب میزائلوں کا استعمال کرتے ہوئے روس میں اندر تک حملہ کرنے کے قابل ہے، بشمول کرسک کے علاقے کے ارد گرد، جہاں یوکرین کی افواج ایک ہزار مربع کلومیٹر سے زیادہ علاقے پر قابض ہیں۔ یوکرین اور امریکی حکام مبینہ طور پر خطے میں جوابی کارروائی کی توقع رکھتے ہیں۔