دفاعی ماہر راہول بیدی نے بی بی سی کو بتایا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ روس، چین اور انڈیا کے علاوہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور برازیل کے پاس ہائپرسونک میزائل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کا بھی دعویٰ ہے کہ انھوں نے بھی ہائپر سونک میزائل بنا لیا ہے۔
انڈیا کی جانب سے رواں ہفتے طویل فاصلے تک مار کرنے والا ہائپر سونک میزائل کا کامیاب تجربہ کیا گیا جسے انڈیا کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے ’ملک کے لیے بڑی کامیابی‘ اور ایک ’تاریخی لمحہ‘ قرار دیا۔
ہائپرسونک میزائل 1500 کلومیٹر سے زیادہ کے فاصلے پر ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ میزائل تینوں جگہوں سے دشمن پر حملہ کر سکتا ہے، خواہ وہ ہوا ہو، پانی ہو یا زمین۔
ڈیفنس ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن (DRDO) طویل عرصے سے ہائپر سونک میزائل بنانے کے لیے کوشاں تھی۔
سنہ 2020 میں اس تنظیم نے ایک ہائپرسونک ٹیکنالوجی ڈیمونسٹریٹڈ وہیکل (HSTDV) کا کامیاب تجربہ کیا تھا۔
ہائپر سونک میزائل کے کامیاب تجربے کے بعد انڈیا ان چند ممالک میں شامل ہو گیا ہے جن کے پاس یہ جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔
ہائپرسونک میزائل کیا ہے؟
ہائپرسونک میزائل سے مراد وہ میزائل ہیں جو آواز کی رفتار سے پانچ گنا تیز رفتار سے اپنے ہدف کی طرف بڑھتے ہیں۔
ان کے برعکس سب سونک میزائل آواز کی رفتار سے تیز فاصلہ طے نہیں کر سکتے جبکہ سپرسونک میزائل آواز کی رفتار سے صرف دو سے تین گنا تیز چلتا ہے۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفاعی ماہر ریٹائرڈ ایئر کموڈور (ڈاکٹر) اشمیندر سنگھ بہل نے کہا کہ ہائپرسونک میزائل تقریباً 100 کلومیٹر تک آسمان میں جا سکتا ہے۔
یعنی سب سے پہلے یہ زمین سے فضا کو عبور کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ ’زمین سے خلا میں داخل ہونے کے بعد ہائپر سونک میزائل ’کروز فیز‘ میں رہتا ہے جس کے بعد یہ زمین پر اپنے ہدف کی طرف بڑھتا ہے۔‘
سوال یہ ہے کہ کیا ہائپرسونک میزائل کو جوہری صلاحیت سے استوار کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفاعی ماہر راہول بیدی نے کہا کہ یہ بالکل ممکن ہے اور ان پر دونوں روایتی اور جوہری وار ہیڈ نصب کیے جا سکتے ہیں۔
وار ہیڈ میزائل کا وہ حصہ ہوتا ہے جس میں دھماکہ خیز مواد بھرا ہوا ہوتا ہے۔
دفاعی ماہر راہول بیدی نے بتایا ’یہ میزائل تقریباً 1700 کلومیٹر کا فاصلہ طے کر لیتا ہے اور اس نے پوری گیم ہی بدل دی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہانڈیا کو ہائپر سونک میزائل کو چلانے میں دو سے تین سال لگ سکتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جس طرح گاڑی بنانے کے لیے پہلے ایک پروٹو ٹائپ بنایا جاتا ہے اور پھر اس کی جانچ کے بعد اسے پروڈکشن میں لایا جاتا ہے، اسی طرح انڈیا کو بھی اس میزائل کو حقیقت میں کار آمد بنانے میں وقت لگے گا۔‘
ہائپرسونک میزائل کا ’ایکس فیکٹر‘
تاہم ہائپرسونک ہتھیار اپنی رفتار کی وجہ سے خاص نہیں سمجھے جاتے کیونکہ رفتار کے لحاظ سے بیلسٹک میزائل بھی آواز کی رفتار سے زیادہ تیزی سے فاصلہ طے کرتے ہیں۔
ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہائپر سونک میزائل کا ’ایکس فیکٹر‘ کیا ہے یا اس کی کیا خاص بات ہے؟
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے دفاعی ماہر راہول بیدی نے کہا کہ یہ سب سے جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہائپر سونک میزائل اپنے ہدف کی طرف اتنی تیزی سے بڑھتا ہے کہ کوئی بھی اینٹی میزائل سسٹم اس کا پیچھا نہیں کر سکتا۔‘
دفاعی ماہر اشمیندر سنگھ بہل کا کہنا ہے کہ ہائپرسونک میزائل بیلسٹک میزائل کے بر عکس اپنے راستے کی سمت خود طے نہیں کرتے جس وجہ سے ان کے ہدف کا پتہ لگانا مشکل ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’امریکہ کا ’ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس‘ یعنی ’تھاڈ‘ اور اسرائیل کا ’آئرن ڈوم‘ سسٹم بھی ہائپر سونک میزائلوں کا پتہ لگانے سے قاصر ہے۔ یہ اینٹی میزائل سسٹم ہیں جن کی رینج 250 کلومیٹر پر ختم ہو جاتی ہے۔‘
بہل کہتے ہیں کہ ’اگر آپ کو ہائپرسونک میزائل کا پتہ چل جائے تو بھی اسے مار گرانا بہت مشکل ہے، کیونکہ اس کے لیے ایک ہی رفتار سے سفر کرنے والے میزائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کام کرنے کے لیے ملک کو ’ایرو 3‘ سسٹم کی ضرورت ہو گی۔ اس کی رینج تقریباً 2500 کلومیٹر ہے۔‘
راہول بیدی کا کہنا ہے کہ فی الحال ہائپر سونک میزائلوں کی سمت دوران فلائٹ تبدیل نہیں کی جا سکتی۔
کن ممالک کے پاس ہائپرسونک میزائل ہیں؟
صرف چند ممالک کے پاس ہائپرسونک میزائل ہیں۔ اس حوالے سے ماہرین کی مختلف آرا ہیں۔
دفاعی ماہر اشمیندر سنگھ بہل کا خیال ہے کہ اس وقت چین اور روس کے پاس ہائپرسونک میزائل موجود ہیں جبکہ انڈیا کی طرح امریکہ بھی ہائپرسونک میزائلوں کے تجربے کرنے میں مصروف ہے تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکہ کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے یا نہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ دوسرے ممالک ہائپر سونک میزائل بنانے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن یہ یقین سے نہیں کہا جا سکتا۔ اس تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ انڈیا دنیا کا تیسرا ملک ہو گا جس کے پاس یہ جدید ٹیکنالوجی موجود ہے۔‘
دفاعی ماہر راہول بیدی نے بی بی سی کو بتایا ’خیال کیا جاتا ہے کہ روس، چین اور انڈیا کے علاوہ امریکہ، فرانس، برطانیہ اور برازیل کے پاس ہائپرسونک میزائل موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ایران کا بھی دعویٰ ہے کہ انھوں نے بھی ہائپر سونک میزائل بنا لیا ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’روس نے یوکرین کے ساتھ جنگ میں اپنے ’کنژال‘ ہائپرسونک میزائلز کا استعمال کیا ہے کیونکہ ان کو روک کر مار گرانا مشکل ہوتا ہے۔‘
مارچ 2022 میں روس نے دعویٰ کیا کہ اس نے مغربی یوکرین میں زیر زمین ہتھیاروں کے ایک گودام کو ہائپر سونک میزائل سے نشانہ بنایا تھا۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ایران کی جانب سے اسرائیل پر حالیہ میزائل حملوں میں ہائپرسونک میزائل استعمال کیے گئے تھے۔
جبکہ ایران کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلا ملک ہے جس نے اپنے ’فتح‘ میزائل کو بیلسٹک اور کروز ٹیکنالوجی سمیت ہائپر سونک میزائل کے طور پر متعارف کرایا ہے۔
ایران کے لیے مذہبی، سیاسی اور اقتصادی محاذ پر لڑنے والی فوج اسلامی انقلابی گارڈ کور (IRGC) نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے 'الفتح' ہائپرسونک میزائل کی رینج 1400 کلومیٹر ہے اور یہ تمام دفاعی نظام کو چکما دے کر انھیں تباہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اس کے علاوہ سنہ 2021 میں شمالی کوریا نے ملک کے سپریم لیڈر کم جونگ اُن کی نگرانی میں میزائل کا تجربہ کیا تھا۔
شمالی کوریا نے دعویٰ کیا کہ یہ ایک ہائپر سونک میزائل تھا جو 1000 کلومیٹر دور ٹھیک نشانے پر اپنے ہدف پر گرا تھا۔