چین خطے میں بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان دنیا بھر میں اپنی فوجی سفارت کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔ خاص طور پر روس، ایشیا پیسیفک ریجن اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو منصوبے میں اپنے تجارتی شراکت داروں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
گذشتہ دو برس کے دوران چین اور امریکہ کے مابین بڑھتے ہوئے سیاسی تناؤ کے درمیان بیجنگ دنیا بھر میں اپنی فوجی سفارت کاری میں اضافہ کر رہا ہے۔
یہ رجحان خاص طور پر روس، ایشیا پیسیفک خطے اور بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو (بی آر آئی) منصوبے کے تحت دیکھنے کو ملا ہے جس میں چین اپنے تجارتی شراکت داروں پر توجہ مرکوز کر رہا ہے۔
جنوری سنہ 2023 میں چین کی جانب سے اپنی ’زیرو کووِڈ پالیسی‘ کو ختم کرنے کے بعد سے اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، عسکری سطح پر سفارتی تبادلے، خیر سگالی کے دورے، مشترکہ بحری مشقیں اور دیگر تربیتی مشقوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
جنوری سنہ 2023 سے اکتوبر سنہ 2024 تک کے ریکارڈ کی جانچ پڑتال سے فوجی رسائی میں اضافہ کے واضح حقائق سامنے آتے ہیں۔
بی بی سی اردو اب واٹس ایپ پر: سبسکرائب کرنے کے لیے کلک کریں
یہ مختصر جائزہ چین کی فوجی سفارت کاری کی کوششوں کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اس جائزے میں چین کے اعلیٰ عہدیداروں کی غیر ملکی ہم منصبوں کے ساتھ ملاقاتیں، خیر سگالی کے دورے اور دیگر اہم عسکری تقریبات شامل ہیں تاہم ان میں دیگر ممالک کے ساتھ مشترکہ فوجی مشقیں شامل نہیں ہیں۔
بی بی سی کو چین کی عسکری سفارتکاری کے حوالے سے اعداد و شمار سرکاری ذرائع سے ملے جن میں پیپلز لبریشن آرمی ڈیلی کی ویب سائٹ، سرکاری ویب سائٹ ہوانکیو وینگ اور چین کی وزارتِ دفاع کی ویب سائٹ شامل ہیں۔
یہ تجزیہ 2023 کے آغاز سے 31 اکتوبر 2024 کے درمیان کے واقعات پر مشتمل ہے۔ چین نے سنہ 2023 میں 148 اور 31 اکتوبر سنہ 2024 تک 169 عسکری سفارتی سرگرمیاں کیں جو ہمیں اس کی حکمتِ عملی کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔
چین اور روس کے بڑھتے تعلقات
چین نے روس کے ساتھ گذشتہ دو برسوں میں مختلف اوقات پر 11 ملاقاتیں، چھ فوجی مشقیں اور چھ خیر سگالی دورے کیے۔
اس دوران چین اور روس کی فوج کے مابین ہونے والی متعدد سرگرمیوں میں سے تقریباً نصف اعلیٰ سطحی ملاقاتوں پر مشتمل تھیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان میں چھ مشترکہ مشقیں اور چھ پورٹ کالز بھی شامل تھی۔
یہ اضافہ دونوں ممالک کی سنہ 2022 کی ’نو لمٹس‘ شراکت داری کے بعد دیکھنے کو ملا ہے جو امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے اور علاقائی اور عالمی سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے دونوں ممالک کے مشترکہ مفادات کی عکاسی کرتا ہے۔ اس سب کو خاص طور پر روس یوکرین جنگ کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
ویتنام اور کمبوڈیا کے ساتھ بھی چین کی فوجی سفارت کاری میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ عسکری سرگرمیوں کی بات کی جائے تو روس کے بعد یہ دونوں مُمالک دوسرے اور تیسرے نمبر پر ہیں۔
ویتنام کے ساتھ عسکری سفارت کاری کے حوالے سے سرگرمیوں میں نو ملاقاتیں، نو عسکری سطح کے تبادلے اور تین خیر سگالی کے دورے شامل ہیں جبکہ کمبوڈیا کے ساتھ تین خیر سگالی کے دوروں کے علاوہ دو تربیتی سیشن کیے گئے۔
چین کے قریبی دوست ملک پاکستان کے ساتھ ایک عسکری تقریب کے علاوہ ملاقاتوں پر زور دیا گیا۔ اسی طرح انڈیا اور امریکہ کے ساتھ میں چین کے اعلیٰ سطحی اہلکاروں کی ملاقاتیں ہوتی رہیں۔
جنوبی افریقہ چین کے ساتھ ملاقاتوں اور خیر سگالی کے دوروں میں مصروف رہا، جبکہ انڈونیشیا نے بنیادی طور پر خیر سگالی کے دورے کیے۔
شمالی کوریا اور ایران کے ساتھ تعلقات
کووڈ 2019 سے پہلے چین نے شمالی کوریا کے ساتھ تین اعلیٰ سطحی عسکری اجلاس کیے جس میں مرکزی فوجی کمیشن کے وائس چیئرمین ژانگ یوشیا نے شرکت کی۔
اپنی کووڈ پابندیاں اٹھانے کے بعد سے چین نے شمالی کوریا کے ساتھ عوامی طور پر تو فوجی سفارت کاری دوبارہ شروع نہیں کی ہے جو دونوں ممالک کے تعلقات میں جمود کی عکاسی کرتا ہے۔ تاہم ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین ایسا شمالی کوریا کے ذریعے روس کی بالواسطہ حمایت کرنے پر مغربی پابندیوں سے بچنے کے لیے کر رہا ہے۔
چین اور شمالی کوریا کے تعلقات کی 75ویں سالگرہ کے موقع پر چھ اکتوبر 2024 کو چین نے چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے سرکردہ رہنما ژاؤ لیجی کو پیانگ یانگ بھیجا لیکن دونوں طرف سے کسی فوجی رہنما نے اس تقریب میں شرکت نہیں کی۔
شمالی کوریا کی 2024 کے شیانگ شان میں عدم موجودگی نمایاں تھی۔ یہ فورم ایک سالانہ سیکورٹی سمٹ ہے جس میں یہ شمالی کوریا عام طور پر شرکت کرتا ہے۔
اسی طرح، ایران کے ساتھ چین کی آخری عسکری سرگرمی اپریل 2022 میں ہوئی تھی، جب اس وقت کے چینیوزیر دفاع وی فینگے نے اس وقت کے صدر ابراہیم رئیسی سے ملاقات کی تھی۔
اس کے بعد سے اب تک کوئی عوامی دو طرفہ فوجی سفارت کاری نہیں ہوئی ہے، حالانکہ ایران مارچ 2023 اور مارچ 2024 میں چین اور روس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقوں کا حصہ تھا۔
بحیرۂ جنوبی چین اہم کیوں؟
بحیرہ جنوبی چین میں اپنے تسلط کو مزید مضبوط کرنے کے لیے اہم ترین ’آسیان‘ ممالک کے ساتھ فوجی تعلقات استوار کر رہا ہے۔
ویتنام اور انڈونیشیا کے ساتھ تنازعات کے باوجود بیجنگ دونوں ممالک کے ساتھ فوجی سفارت کاری کو برقرار رکھتا ہے، جو اس کے اہم ایشیائی تجارتی شراکت داروں میں سے ہیں۔
چین کے سب سے قریبی سیاسی اتحادی سمجھے جانے والے لاؤس اور کمبوڈیا ان پانچ آسیان ممالک میں شامل ہیں جن کا ذکر ہم کر چکے ہیں۔ ان میں ویتنام، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا بھی شامل ہیں۔
سنہ 2024 میں سب سے زیادہ فوجی سفارت کاری کی سرگرمیاں ایشیا اور اوشیانا میں مرکوز کی گئی ہیں۔
یورپ میں چین کی تقریباً نصف عسکری سرگرمیاں روس کی وجہ سے ہیں۔ تاہم اس دوران برطانیہ، بیلاروس، سربیا اور فرانس کے ساتھ بھی قابل ذکر ملاقاتیں ہوئیں۔
کوسٹ گارڈ گشت میں اضافہ
اپریل 2023 میں روس کی فیڈرل سکیورٹی سروس کے ساتھ طے پانے والے سمندری قانون نافذ کرنے والے معاہدے کے بعد، 2024 میں چینی ساحلی محافظوں کے گشت میں بھی اضافہ ہوا۔
سنہ 2024 میں چین اور روس کی فضائی افواج، ساحلی محافظوں اور بحریہ کے درمیان مشترکہ گشت بحیرہ بیرنگ، شمالی بحر الکاہل، آرکٹک، پیسیفک اور شمال مغربی بحر الکاحل میں پھیل گیا۔
فوجی سفارت کاری میں چینی بحریہ کا کردار
پیپلز لبریشن آرمی نیوی (PLAN) نے چینی عسکری سفارت کاری میں تیزی سے اپنی جگہ بنائی ہے اور اب یہ اس حوالے سے پیپلز لبریشن آرمی کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔
گشت اور تربیت کے علاوہ، چینی بحریہ نے پورٹ کالز اور میڈیکل مشنز کے ذریعے خیر سگالی کی کوششوں کو وسعت دی ہے۔ اپنے میڈیکل سہولیات فراہم کرنے والے جہازوں کے ذریعے مفت صحت کی دیکھ بھال کی پیشکش کی ہے۔
اکتوبر 2024 تک، اس نے 22 پورٹ کالز اور 12 میڈیکل وزٹ مکمل کیے، 2023 میں 17 پورٹ کالز اور آٹھ میڈیکل وزٹس کیے گئے۔
خلیج عدن میں نیوی کے مشنز نے اپنی خیر سگالی کی سرگرمیوں کو مزید بڑھایا ہے، اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے اور چین کے ترقیاتی مفادات کا تحفظ کیا ہے۔
عام طور پر چینی بحریہ اپنے سمندری راستوں کو قزاقی سے بچانے اور بین الاقوامی جہاز رانی کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حفاظتی مشن کے تین بیڑے بھیجتی ہے۔
لیکن 2024 میں خلیج عدن میں صرف ایک مشن تعینات کیا گیا تھا، جسے تجزیہ کار چینی بحریہ کے آپریشنل تبدیلی کے طور پر دیکھتے ہیں۔
یہ حکمت عملی کسی بحری بیڑے کو طویل عرصے تک خطے میں رہنے کی صلاحیت فراہم کرتی ہے اور اسے ملک جبوتی میں موجود اس کے اڈے سے لاجسٹک مدد بھی ملتی ہے۔
چین عالمی طور پر اپنی سافٹ پاور بڑھانے کے لیے ملک میں کانفرنسز، فورمز، کھیلوں کی سرگرمیاں، ایئر شوز، پریڈز اور دفاعی نمائشوں سمیت متعدد فوجی تقریبات کی میزبانی کرتا رہا ہے اور سنہ 2023 کے مقابلے میں 2024 میں اس ان میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
ان میں سے چین نے کل 16 تقریبات کی میزبانی کی یعنی 2023 میں سات اور اکتوبر 2024 تک نو۔
چین نے 18 بین الاقوامی ایونٹس میں فوجی نمائندے بھیجے۔ ان میں تین دفاعی نمائشیں اور پانچ فضائی شو شامل تھے، جو بنیادی طور پر ایشیا، اوشیانا، مشرق وسطیٰ اور افریقہ میں منعقد کیے گئے تھے۔