تاتاریوں سے امریکی فوج تک: ماضی میں دنیا کے سب سے امیر شہر ’بغداد‘ کے عروج و زوال کی کہانی

تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق سنہ 775 سے لے کر سنہ 932 تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے دس لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

تقریبا 1260 سال قبل عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے نومبر کے مہینے میں ہی بغداد شہر کی بنیاد رکھی جس کی تعمیر میں چار سال کا وقت لگا تھا۔

انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق سنہ 637 میں عرب باشندوں کی آمد سے قبل اس خطے میں آبادی کے آثار موجود تھے اور بہت سی قدیم ریاستوں کے دارالحکومت قریبی مقامات پر رہے۔

تاہم بغداد شہر کی بنیاد حقیقت میں اس جگہ پر موجود ایک گاؤں میں ڈالی گئی جس کو خصوصی طور پر عباسی خلیفہ ابو جعفر المنصور نے اپنے دارالحکومت کے طور پر چنا۔ اسی مقام پر امن کا شہر تعمیر ہوا جس کے گرد دیواریں بنائی گئیں۔

ابتدا میں یہ آج کل کے کسی شہر کی طرح نہیں تھا بلکہ سرکاری دفاتر کا مرکز تھا۔ چار مرکزی شاہراہیں خلیفہ کے محل کو وسط میں موجود مرکزی مسجد کے علاوہ سلطنت کے باقی حصوں سے جوڑتی تھیں۔

اس مرکزی شہر کے چھوٹے حجم کے باوجود دیواروں کے باہر تیزی سے دکانیں اور مکانات تعمیر ہونا شروع ہوئے تو یہ شہر آہستہ آہستہ پھیلتا گیا۔ شمال مشرقی دروازے کے باہر خراسان سڑک تعمیر ہوئی جو کشتیوں سے بنے ایک پل کی مدد سے دجلہ کے مشرقی کنارے تک لے جاتی تھی۔

946 تک دریا کا مشرقی کنارہ اتنا آباد ہو چکا تھا کہ مرکز کے مقابلے میں ایک نئے شہر کا گمان ہوتا تھا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق آٹھویں اور نویں صدی میں بغداد معاشی اعتبار سے اپنے عروج پر پہچ چکا تھا خصوصی طور پر خلیفہ المہدی اور ان کے بعد آنے والے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں۔

خلیفہ ہارون الرشید
Getty Images
آٹھویں اور نویں صدی میں بغداد معاشی اعتبار سے اپنے عروج پر پہچ چکا تھا خصوصی طور پر خلیفہ المہدی اور ان کے بعد آنے والے خلیفہ ہارون الرشید کے دور میں

اس دور کے بغداد کی شان و شوکت کا جلوہ ادب میں بھی ملتا ہے اور تب اسے دنیا کا سب سے امیر ترین شہر مانا جاتا تھا جہاں چین، ہندوستان اور مشرقی افریقہ تک سے تجارتی مال پہنچتا تھا۔

ہندوستان سے لے کر مصر تک کے علما، فضلا، شاعر، فلسفی، سائنس دان اور مفکر یہاں پہنچنے لگے۔ اسی زمانے میں مسلمانوں نے چینیوں سے کاغذ بنانے کا طریقہ سیکھ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر علمی سرگرمیوں سے معمور ہو گیا۔ نویں صدی میں بغداد کا ہر شہری پڑھ لکھ سکتا تھا۔

تاریخ دان ٹرٹیئس چینڈلر کی تحقیق کے مطابق سنہ 775 سے لے کر سنہ 932 تک آبادی کے لحاظ سے بغداد دنیا کا سب سے بڑا شہر تھا۔ اس کے علاوہ اسے 10 لاکھ کی آبادی تک پہنچنے والے دنیا کا پہلا شہر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

تاہم ہارون الرشید کے دو بیٹوں، ال امین اور المامون، میں لڑائی کے دوران مرکزی شہر کے بڑے حصے کو نقصان پہنچا۔ اقتدار میں آنے کے بعد المامون نے قدیم یونانی زبان کے عربی ترجمے پر کافی کام کروایا اور ساتھ ہی ساتھ شہر میں ہسپتال بنوائے، شعرا اور آرٹ سے وابستہ لوگوں کو بغداد میں اکھٹا کیا۔

لیکن نویں صدی کے وسط میں خلافت عباسیہ اندرونی اختلافات کے باعث کمزور ہونا شروع ہو گئی جس میں ایک ہاتھ زرعی شعبے کا بھی تھا جو نہری نظام پر کم توجہ کے باعث تنزلی کا شکار تھا۔

836 سے 892 کے درمیان خلیفہ بننے والوں نے بغداد کو چھوڑ کر شمال میں سمارا کا رخ لیا اور بغداد ان ترکوں کے ہاتھ میں چلا گیا جو محافظ بنا کر لائے گئے تھے۔ تاہم بعد میں جب خلیفہ بغداد واپس لوٹے تو نیا دارالحکومت مشرقی کنارے پر ہی بسایا گیا۔

بیرونی عوامل اور سلجوق ترکوں کے حملوں نے بغداد کے بہت سے حصوں کو بعد میں کھنڈرات میں بدل ڈالا۔

بغداد
Getty Images

زوال

سست رفتاری سے وقوع پذیر ہونے والا زوال تو شروعات تھی جس کے بعد تباہ کن بیرونی حملوں کا ایک ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے بغداد بیسویں صدی تک سنبھل نہیں سکا۔

خلافت عباسیہ منگولوں کے ہاتھوں تباہ ہوئی تو بغداد کا مقدر بھی کچھ مختلف نہ تھا۔

1258 میں چنگیز خان کے پوتے ہلاکو نے بغداد پر حملہ کیا اور نہ جانے کتنے لوگ مارے گئے۔ ہلاکو نے وہی کیا جو اس کے دادا چنگیز خان پچھلی نصف صدی سے کرتے چلے آئے تھے۔ اس نے خلیفہ کے علاوہ تمام اشرافیہ کو وہیں تلوار کے گھاٹ اتار دیا اور منگول دستے ام البلاد بغداد میں داخل ہو گئے۔

اس کے اگلے چند دن تک جو ہوا اس کا کچھ اندازہ مورخ عبداللہ وصاف شیرازی کے الفاظ سے لگایا جا سکتا ہے:

’وہ شہر میں بھوکے گدھوں کی طرح پھِر گئے، اس طرح جیسے غضبناک بھیڑیے بھیڑوں پر ہِلہ بول دیتے ہیں۔ بستر اور تکیے چاقوؤں سے پھاڑ دیے گئے۔ حرم کی عورتیں گلیوں میں گھسیٹی گئیں اور ان میں سے ہر ایک تاتاریوں کا کھلونا بن کر رہ گئی۔‘

اس بات کا درست تخمینہ لگانا مشکل ہے کہ کتنے لوگ اس قتلِ عام کا شکار ہوئے۔ مورخین کا اندازہ ہے کہ دو لاکھ سے لے کر 10 لاکھ لوگ تلوار، تیر یا بھالے کے گھاٹ اتار دیے گئے۔

تاریخ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ بغداد کی گلیاں لاشوں سے اٹی پڑی تھیں۔ چند دن کے اندر اندر ان سے اٹھنے والے تعفن کی وجہ سے ہلاکو خان کو شہر سے باہر خیمہ لگانے پر مجبور ہونا پڑا۔ منگولوں نے کئی ڈیم بھی تباہ کر دیے جس کی وجہ سے نہری نظام کو بحال کرنا تقریبا ناممکن ہو گیا اور بغداد کی مستقبل قریب میں معاشی بحالی کے امکانات بھی ختم ہو گئے۔

جہاں تک آخری اور 37 ویں عباسی خلیفہ مستعصم باللہ کی بات ہے تو خلیفہ کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں مشہور ہیں تاہم زیادہ قرینِ قیاس ہلاکو کے وزیر نصیر الدین طوسی کا بیان ہے جو اس موقعے پر موجود تھے۔

ہلاکو کی تصویر
Getty Images
ہلاکو کی تصویر

وہ لکھتے ہیں کہ خلیفہ کو چند دن بھوکا رکھنے کے بعد ان کے سامنے ایک ڈھکا ہوا خوان لایا گیا۔ بھوکے خلیفہ نے بے تابی سے ڈھکن اٹھایا تو دیکھا کہ برتن ہیرے جواہرات سے بھرا ہوا ہے۔ ہلاکو نے کہا، ’کھاؤ۔‘

مستعصم باللہ نے کہا: ’ہیرے کیسے کھاؤں؟‘ ہلاکو نے جواب دیا: ’اگر تم ان ہیروں سے اپنے سپاہیوں کے لیے تلواریں اور تیر بنا لیتے تو میں دریا عبور نہ کر پاتا۔‘

عباسی خلیفہ نے جواب دیا: ’خدا کی یہی مرضی تھی۔‘

ہلاکو نے کہا: ’اچھا، تو اب میں جو تمھارے ساتھ کرنے جا رہا ہوں وہ بھی خدا کی مرضی ہے۔‘ اس نے خلیفہ کو نمدوں میں لپیٹ کر اس کے اوپر گھوڑے دوڑا دیے تاکہ زمین پر خون نہ بہے۔

کہا جاتا ہے کہ یہ منگولوں کی جانب سے دی جانے والی ایک عزت دارانہ موت تھی کیوں کہ ان کا ماننا تھا کہ بلند رتبے کے لوگوں کو ان کا خون بہائے بغیر قتل کرنا چاہیے۔

عباسی خلیفہ تو ہلاک ہوئے لیکن خلافت قائم دائم رہی۔ اس وقت کی بڑی طاقت، مملوکوں، نے عباسی خاندان کے اراکین کو خلیفہ کا رتبہ دیاس لیکن مصر کی مملوک سلطنت میں یہ نام کے ہی خلیفہ تھے اور طاقت کہیں اور تھی۔ تاہم ان افراد کی وجہ سے خلافت کا تصور ضرور زندہ رہا۔

لیکن بغداد سے مسلمانوں کی اس طاقت کے مرکز کا خاتمہ ہوا اور بعد میں 16ویں صدی کے دوران سلطنت عثمانیہ نے خلافت حاصل کر لی۔

سلطنت عثمانیہ کا حصہ

منگول حملے کے بعد بغداد ایک علاقائی دارالحکومت ضرور رہا لیکن سنہ 1400 ایک میں ایک بار پھر تباہی اس کا مقدر بنی جب تیمور نے حملہ کیا۔

1508 میں بغداد صفوی شاہ اسماعیل اول کے زیر اثر چلا گیا لیکن 1534 میں سلطان سلیمان اول نے قبضہ کیا تو یہ سلطنت عثمانیہ کا حصہ بن گیا۔

متعدد ایرانی حملوں کے باوجود بغداد پہلی عالمی جنگ تک سلطنت عثمانیہ میں ہی رہا۔ اس دوران صرف ایک بار ایرانی اس پر مختصر وقت کے لیے قبضہ کرنے میں کامیاب ہوئے۔

19ویں صدی میں بغداد میں بھی یورپی رنگ نظر آنے لگا جب تجارت میں اضافہ ہوا۔ سنہ 1800 کے قریب برطانیہ نے اپنا سفارتی مشن بغداد میں قائم کر لیا تو تیزی سے انھوں نے طاقت اور اثرورسوخ حاصل کیا حتی کہ برطانویوں کا درجہ گورنر کے بعد ہونے لگا۔

اسی دوران بغداد کی ترقی کا نیا دور شروع ہوا جب سٹیم انجن کی مدد سے دریا پر سفر کا آغاز ہوا اور دوسری جانب عثمانی خلفا نے شہر میں ترقیاتی کام کروائے۔

گرینڈ وزیر احمد شفیق مدحت پاشا نے اپنے دور میں شہر کی دیواریں گرا کر انتظامیہ کو مضبوط کیا، جدید پرنٹنگ پریس لگوایا اور ہسپتال، سکول، فوجی فیکٹریاں بنوائیں۔

گرینڈ وزیر احمد شفیق مدحت پاشا
Getty Images
گرینڈ وزیر احمد شفیق مدحت پاشا نے اپنے دور میں شہر کی دیواریں گرا کر انتظامیہ کو مضبوط کیا

ایک ہاشمی بادشاہ اور برطانیہ سے آزاد عراق

1920 میں بغداد ایک بار پھر عراق کا دارالحکومت بن گیا لیکن یہ ہوا کیسے؟ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق برطانیہ نے پہلی عالمی جنگ کے دوران ہی بصرہ، بغداد اور موصل پر قبضہ کر لیا تھا جو سلطنت عثمانیہ سے چھینے گئے۔

تاہم مئی 1920 میں برطانوی تسلط کے خلاف مقامی بغاوت ہوئی تو ایک لاکھ برطانوی اور انڈین فوجی تعینات کر دیے گئے۔ پورے ملک میں پھیل جانے والی بغاوت پر مشکل سے قابو پایا گیا جس کے دوران ہزاروں عراقی مارے گئے اور برطانیہ کے سینکڑوں فوجی بھی۔

ایسے میں برطانیہ کو عراق میں نئے نظام کی ضرورت محسوس ہوئی اور ایک وقت میں حالات اس نہج پر پہنچے کہ مقامی برطانوی کمانڈر نے زہریلی گیس کی فراہمی کی درخواست کی۔ فضائیہ کا بے دریغ استعمال ہوا اور 1921 میں برطانیہ نے فیصل بن حسین کو عراق کا نمائندہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

فیصل عراق پہنچے تو ان کا والہانہ استقبال ہوا اور اگست میں انھیں عراق اور شام کا حکمران تسلیم کر لیا گیا۔ حقیقت میں فیصل کو بطور عرب رہنما پذیرائی ملی تھی اگرچہ کہ ان کا عراق سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ دوسری جانب برطانیہ سے ان کے تعلق کے باوجود انھیں عرب قوم پرست اپنا رہنما تسلیم کر رہے تھے۔

یوں بصرہ، بغداد اور موصل کی تین ریاستیں ایک ہاشمی بادشاہ یعنی شاہ فیصل کے تحت متحد ہو گئیں جو حجاز سے آئے تھے۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹینیکا کے مطابق فیصل نے برطانیہ سے معاہدے کیے جن کے تحت 1932 تک عراق کو آزادی اور لیگ آف نیشنز کی رکنیت مل گئی۔

تاہم بہت سے عراقیوں کا ماننا تھا کہ ملک کے حقیقی حکمران برطانوی ہی تھے۔ فیصل 1933 میں اپنی موت تک عراق کے حکمران رہے۔

شاہ فیصل
Getty Images
شاہ فیصل

1958 تک بادشاہت چلتی رہی جب شاہ فیصل دوم کو ایک بغاوت میں مار دیا گیا۔

بادشاہت کا خاتمہ، فوجی بغاوتیں اور تباہی کا نیا دور

سنہ 1958 تک عراق برطانوی تسلط سے مکمل بطور پر آزاد نہیں ہوا تھا تاہم پھر ہاشمی خاندان کو ایک فوجی بغاوت کے نتیجے میں تخت سے ہٹا دیا گیا۔

یوں ایک سیاسی عدم استحکام کا دور شروع ہوا جس کے دوران متعدد فوجی حکومتیں آئیں۔ سنہ 1968 میں عرب سوشلسٹ جماعت حزب البعث اقتدار میں آئی جو اپنے ساتھ استحکام لے کر آئی۔

سنہ 1973 میں تیل کی قیمت میں اضافے کے بعد حکومت کی آمدن اور لوگوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی اور بغداد نے ترقی اور وسعت پائی۔ تاہم 1980 کی دہائی میں ایران سے ہونے والی جنگ کے دوران ایک بار پھر زوال کا سامنا کرنا پڑا۔

صدام حسین کے دور میں کویت پر حملے کے بعد امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بغداد کو بھاری بمباری کا نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کی وجہ سے شہر میں ترقی مشکل ہو گئی۔ اگرچہ بہت سے عمارات اور پل 1990 کے اواخر میں دوبارہ بنائے گئے تاہم بڑے پیمانے پر بغداد پرانی شکل میں واپس نہ آ سکا۔

عراق کی تیل کی برآمدات پر پابندی لگی اور درآمدات محدود ہو گئیں تو بجلی، پانی اور سیوریج کی سہولیات کی تعمیر نو کے لیے درکار ضروری سامان بھی ناپید ہو گیا۔ تعلیمی اور طبی ادارے بھی مخدوش حالت میں پہنچے اور بیماری، غذائی قلت اور ناخواندگی میں اضافہ ہوا۔

ایک اور امریکی حملہ

عراق
Getty Images

امریکی اور عراقی حکومت کے درمیان تناؤ کے بیچ 2003 کی جنگ شروع ہو گئی۔ اسی سال اپریل میں امریکی فوج بغداد میں داخل ہو چکی تھی۔

نئی امریکی انتظامیہ کا بنیادی مقصد شہر میں امن قائم کرنا اور بنیادی سہولیات کو بحال کرنا تھا لیکن پھر فرقہ ورانہ خانہ جنگی کے ساتھ ساتھ امریکی فوج سے جھڑپوں کی وجہ سے شہر مذید تباہ ہو گیا اور ایک بار پھر ہزاروں ہلاکتیں ہوئیں۔

دسمبر 2011 میں انخلا کا یہ عمل سرکاری طور پر مکمل کر لیا گیا لیکن بغداد میں، عراق کے باقی شہروں کی طرح، پرتشدد کارروائیاں ختم نہیں ہو سکیں۔ سرحد کے پار شام میں ہونے والی خانہ جنگی بڑھی تو تربیت یافتہ جنگجو اور اسلحہ کی تعداد اور سرحد پار آمد بھی بڑھ گئی۔

القاعدہ اور اس کے بعد نام نہاد دولت اسلامیہ نے بغداد میں بہت سے حملے کیے۔ حالات اتنے خراب ہوئے کہ 2019 میں بغداد کی گلیوں میں مظاہرین نے معاشی تنزلی، مبینہ حکومتی کرپشن کے خلاف مظاہرہ کیا۔ اسی سال دسمبر میں مقامی غصہ بڑھا جب امریکہ نے عراق میں ایرانی حمایت یافتہ نیم عسکری تنظیم پر فضائی حملہ کیا۔ دو دن بعد مظاہرین نے بغداد میں امریکی سفارت خانے پر ہلا بول دیا۔

امریکی کارروائیاں اس کے بعد بھی ہوتی رہیں۔ ان میں جنوری 2020 میں قسم سلیمانی کو نشانہ بنانے والا امریکی حملہ بھی شامل ہے۔


News Source

مزید خبریں

BBC
مزید خبریں
عالمی خبریں
مزید خبریں

Meta Urdu News: This news section is a part of the largest Urdu News aggregator that provides access to over 15 leading sources of Urdu News and search facility of archived news since 2008.